بابا آپ ہمیں کیسے بچاؤ گے؟

16دسمبرسانحہ پشاورکے حوالے سے خصوصی تحریر
دکھی دل کے ساتھ سانحہ پشاور کے موضوع پرلکھنے بیٹھاہوں تودل،دماغ،ہاتھ اورقلم سب ایک دوسرے کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں۔ ذکرہے ننھے جان نثاروں کا، برسی ہے شہیدوں کی توشروع کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ کے پاک کلام سے۔اﷲ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ(آل عمران آیت نمبر 169 اور 170) میں ارشاد فرمایا ہ’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، انہیں تم مردہ تصوربھی مت کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے روزی پارہے ہیں۔ اﷲ نے انہیں اپنا فضل دیا ہے، وہ اس سے خوش ہیں۔دنیا کی ہرقوم کواپنی تہذیب،ریاستی سرحدوں،قومیت ومذہب کی آبیاری کیلے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ہنستے ہنستے اپنی جانوں کی قربانی پیش کردیں۔اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہم مسلمان ہیں اورہمارے لئے دنیا کی زندگی عارضی ہے،ہمیں اس دنیامیں رہ کرآخرت کی تیاری کرنی ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے مسلم ملک کی سرحدوں،اسلامی تہذیب وتمدن،تعلیمات اورمسلمان بہن بھائیوں پرجان قربان کرنے پرشہادت کا درجہ عطاکیاہے ۔شہید کو اﷲ تعالیٰ کے ہاں کس قسم کے انعامات سے نوازاجائے گااس سوال کے جوابات ہمیں قرآن کریم اورحدیث مبارکہ سے ملتے ہیں۔اﷲ پاک شہیدوں کے درجات میں مزید بلندی عطافرمائے۔ایک وہ دن تھاجب16دسمبر 1971ء کو سانحہ سقوط ڈھاکہ نے اہل پاکستان شدید صدمے سے دوچارکیا۔پاکستان توڑنے کی کامیاب کوشش پر 1971ء کی فاتحانہ تقریر میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا ’’آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے اور مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا ہے ۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ راقم نے دیکھانہیں بس سنا اورپڑھاہے جبکہ سانحہ پشاورکے مناظر کونیوزچینلزپردیکھاجوایک سال گزرجانے کے باوجود آج بھی تازہ محسوس ہوتے ہیں ،آج بھی جب اُن مناظر کویاد کرتاہوں تو روح کانپ جاتی ہے،ایسالگتاہے جیسے آج بھی کوئی میری وجود سے بوٹیاں نوچ رہاہو۔معصوم بچے جب سوال کرتے ہیں کہ باباآپ توکہتے ہیں کہ پاکستان اسلامی دنیا کا واحد ملک ہے جوایٹمی طاقت ہے،جس کے افواج دنیا کے تمام افواج سے زیادہ بہادراورباصلاحیت ہیں،باباآپ توکہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کے بہترمستقبل کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں اورباباآپ توکہتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں پرجان قربان کردیتے ہیں پراُن پرآنچ نہیں آنے دیتے توپھرکیوں پشاور کے سکول میں معصوم بچوں کو قتل کردیاگیا؟ہمارے بہادر افواج اور والدین نے بچایا کیوں نہیں ؟دہشتگرد ہمارے سکول یاگھرمیں گھس آئے توکیاہمارے بہادرافواج اُن پرایٹم بم چلاکرہمیں بچالیں گے ؟باباآپ ہمیں کیسے بچاؤ گے آپ کے پاس تو کوئی گن بھی نہیں؟کیاپشاورکے بچوں کی طرح کسی بھی وقت دہشتگرد کسی بھی سکول میں بچوں کو مارسکتے ہیں؟معصوموں کے معصوم سوالات کے جوابات کون دے سکتاہے،کیسے بتائیں کہ ایٹم بم چلانے کیلئے نہیں بلکہ دیکھانے کیلئے بنتے ہیں،کیسے اُن کوبتائیں کہ ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں،کیسے کہیں کہ دشمن کے سب ٹھکانے جانتے ہیں پرکچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے ہی لوگ کسی نہ کسی حوالے سے اُن کا ساتھ دیتے ہیں۔ وہ دن ہم کیسے بھول سکتے ہیں جب سانحہ سقوط ڈھا کہ کی برسی کے دن درندہ صفت، سفاک دہشتگردوں نے پاکستان کے صوبہ خیبرپختون خواہ کے دارالحکومت پشاور کے انتہائی حساس علاقے کینٹ ایریامیں آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو بے دردی کے ساتھ شہیدکرکے پوری قوم کو کرب و دکھ میں مبتلا کر دیا۔دل خراش سانحہ پشاورآرمی سکول16دسمبر2014ء کو ایک سال مکمل ہوچکاجبکہ زخم ابھی تک تازہ ہیں،غم سے نڈھال ماؤں کے آنسوآج تک نہیں رکے،ماؤں کی آنکھیں آج بھی اپنے بچوں کی سکول سے واپسی کاانتظارکرتے کرتے تھک جاتی ہوں گی،دہشتگردوں کی اُس خون کی ہولی کویادکرکے پوری قوم کے دل آج بھی خون کے آنسوروتے ہیں۔غیرت منددشمن جتناچاہے کمینہ ہوجائے بچوں اوربزرگوں پر اس اندازمیں حملہ نہیں کرتا جس طرح 16دسمبر2014ء کے دن پشاور آرمی اسکول پرشیطان کے پیروکاردہشتگردوں نے کیا،ہوسکتا ہے شیطان بھی اس الزام کوبرداشت نہ کرے کیونکہ وہ بھی سامنے سے وارکرتاہے۔بے گناہ اورمعصوم انسانوں کوبے دردی سے قتل کرنے والوں کا تعلق جب کسی مذہب خاص طورپرامن وسلامتی کے دین اسلام کے ساتھ جوڑاجاتاہے توانتہائی تکلیف ہوتی ہے۔اسلام کی ابتداہی اﷲ کے نام سے ہوتی ہے جورحم ولاہے۔اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے تو ایسے کام کرسکتے ہیں پردین اسلام کے ماننے والے ایسے درندے ہرگزنہیں بن سکتے۔ سانحہ پشاور آرمی اسکول ملکی تاریخ کا انتہائی سیاہ دن ہے جسے بھلائے نہیں بھلایا جا سکتایہ تاریخ انسانی کا المناک ،افسوسناک اور د ل خراش سانحہ ہے۔خون میں لت پتھ معصوم بچے ،روتے بلکتے والدین ،بہن بھائی اوررشتہ دار،16دسمبرکا سانحہ یادکرکے آج بھی دل بھرآتاہے۔پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونے والے 132 بچوں سمیت اسکول عملے کے 146 افراد کی شہادت کا واقعہ آج بھی قوم کے ذہنوں میں نقش ہے،اس ہولناک دہشتگرد حملے نے ذہنوں پر ایک سیاہ تاریخ رقم کردی ۔شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتایہ سانحہ پشاورسے قبل بھی ہم سنا کرتے تھے پر بے گناہ بچوں کی عظیم قربانی کے فوراًبعدقوم جس طرح دہشتگردی کے کیخلاف یک جان ہوگئی اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اسی موقع کیلئے شاعرنے کہا ہے
شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی ذکواۃہے

سانحہ پشاور نے جہاں قوم کو متحد کیا وہیں سیاسی و عسکری قیادت نے دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا اعلان کیا، اسی سانحہ کے نتیجے میں سیاسی و فوجی قیادت نے دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کیں اور6 سال سے سزائے موت پر عائد پابندی کوختم کرکے دہشتگردوں کو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ کیاجس پرعمل درآمدکرتے ہوئے ملک کے مختلف شہروں میں اب تک سزائے موت کے کئی مجرموں کو تختہ دار پرلٹکایا جاچکا ہے جن میں سابق صدر پرویز مشرف حملہ کیس، جی ایچ کیو، آرمی کیمپ ، پولیس افسر اور وکیلوں کے قتل کے مجرم بھی شامل ہیں۔سانحہ پشاورآرمی سکول کے بعد دہشتگروں کیخلاف قوم کومتحدکرنے اورامن وامان کی صورتحال کوبہتربنانے کاسہراچیف آف آرمی سٹاف جناب جنرل راحیل شریف اوروزیراعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف کے سرہے۔اُن کی جگہ کوئی ہوتاتوشایدہم دہشتگردی کے دیگرواقعات کی طرح سانحہ پشاورپربھی آنسوبہاکراپنے راستے ہولیتے ۔جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کیخلاف تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں جمہوری حکومت کامکمل ساتھ دیااور نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا ،تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر وزیرستان‘ کراچی اور بلوچستان سمیت ملک بھر سے دہشت گردی کے فوری خاتمے کیلئے بھرپور آپریشن کی حمایت کی جس کے بعد اب ملک میں امن وامان کی صورتحال میں کافی بہتری آچکی ہے۔آج دنیا اس حقیقت کابھی اعتراف کرتی ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔یوں تو ساری دنیا ہی دہشتگردی کے خلاف ہے پھریہ لعنت کم ہونے کانام نہیں لیتی ۔دہشتگرد اپنے ناپاک ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہونگے۔قاتلوں اورمحافظوں کے درمیان جاری جنگ میں جیت محافظوں کی ہوگی۔ ہم اپنے محافظوں کے ساتھ مل کرہرمحاذپردہشتگردوں کیخلاف جہاد کریں ۔دہشتگردی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں،کسی بھی ملک میں اورکسی بھی قوم کیخلاف ہوہم نہ صرف مذمت کریں گے بلکہ ہرفرد،ہرقوم کے ساتھ شانہ بشانہ ہوکردہشتگردوں کیخلاف لڑیں گے۔ہم آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے،دہشتگردوں کے کاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘ جب سے ہوش سنبھالا اس قسم کے دعوے اور نعرے دنیا بھرکے حکمرانوں اورافواج کے بیانات میں پڑھ یاسن چکا ہوں پرافسوس صدافسوس کہ دہشتگردی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخردہشتگردی ختم یاکم کیوں نہیں ہورہی؟
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.