سب سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ میں نے
قابل کو کابل جان بوجھ کے لکھا ہے جس کا پس منظر پورا کالم پڑھنے کے بعد آ
پ کو سمجھ آ جائے گا اور امید ہے آپ بھی میری رائے سے متفق نظر آئیں
گے،واقعہ کچھ یوں ہے کہ میرے ایک دوست نے آج سے پانچ سال قبل چکوال شہر کے
بیچوں بیچ (غالباًانسان کی ازلی خواہش )ذاتی گھر بنانے کے لیے ایک پلاٹ
خریدا،پلاٹ کا سودا دو مشہو ر و معروف پراپرٹی دیلرز حضرات کے ذریعے دس
لاکھ میں طے ہوا ایک لاکھ روپے رجسٹری پہ خرچہ آیا یوں کل ملا کر گیارہ
لاکھ روپے میں انہیں بظاہر زمین کا ایک معقول ٹکڑا میسر آ گیا،پراپرٹی
ڈیلرز سودا طے کرنے سے پہلے مجھے اور میرے دوست کو لیکر پلاٹ پر پہنچے،
پلاٹ دکھایا جس کے شمال میں کسی نمبردار کی زمین جنوب میں ایک رہائشی مکان
مغرب میں ایک دیوار اور مشرق میں قبرستان واقع تھا،بعد میں یہی قبرستان جس
سے پہلے ہم بہت خوفزدہ تھے ہماری آنکھوں پہ بندھی پٹی کے ہٹنے کا سبب
بنا،مدعا یوں ہے کہ ہم نے پلاٹ دیکھا ، اوکے کیا اگلے پراسس کا پتہ نہیں
تھا پھر معلوم ہوا تو خزانہ ڈھونڈنے گئے کہ اسٹامپ پیپر وہاں سے ملتے تھے
پتہ چلا نیشنل بنک میں پیسے جمع کروائیں تو اسٹامپ پیپر ادھر سے ملیں گے،ہم
بنک گئے منیجر صاحب سے اچھی یاد اﷲ تھی فوراً پیسے جمع ہو گئے،ہم دونوں
بھاگم بھاگ دوبارہ خزانے والے کے پاس پہنچے ڈیپازٹ سلپ دی اور خود روشن دان
نما کھڑکی کے سامنے ٹھر گئے،کافی دیر گذر گئی تو ہم نے سر نیچے کر کے انہیں
مخاطب کیا ہیلو بھائی صاحب، جواب ملا جی فرماؤ ،ہم نے کہا جناب وہ اسٹامپ
پیپر دیدیں،کون سے اسٹامپ ،جناب ابھی آپ کو سلپ دی ہے اس نے ہمیں گھور کے
دیکھا کہ لگتا ہے دونوں کا زندگی میں پراپرٹی کا پہلا سودا ہے ہم نے کہا
جناب آپ تو ولی ہیں یقینا ایسا ہی ہے آپ کو کیسے پتہ چلا وہ صاحب بولے کہ
آج فیس جمع ہوئی اسٹامپ پیپر کل ملے گا ،ہم چپ کر کے گھر آ گئے اگلے دن
پراپرٹی ڈیلرز حضرات نے رجسٹری تحریرکروا دی اور کمال ہوشیاری سے اصل
مالکان کو ہمارے سامنے یا ہمیں ان کے سامنے نہیں جانے دیا گیا،وجہ یہ بتائی
گئی کہ یو ں سودا خراب ہونے کا اندیشہ ہے رجسٹری لکھو الینے دیں جب پے منٹ
کی باری آئے گی تو آمنا سامنا بھی ہو جائے گا یہ بھی بعد میں پتہ چلا کہ
مجبوری ہے کہ مجسٹریٹ کے سامنے دونوں کو حاضر ہونا پڑتا ہے ورنہ رجسٹری کا
عمل مکمل نہیں ہوتا،رجسٹری لکھتے وقت غالباً ہم نے اس سارے عمل میں واحد
پہلا اور آخری مناسب کام یہ کیا کہ جو محل وقوع دیکھ کے آئے تھے وہ رجسٹری
نویس کو کہا کہ من و عن لکھ دو ،ڈیلرز کی لکھ کوشش کہ یہ نہ لکھا جائے ہم
نے دائیں نمبردار بائیں مکان،سامنے یعنی مغرب میں گلی اور پیچھے بجانب مشرق
قبرستان لکھوا ہی لیا،اگلے دن مجسٹریٹ صاحب کے سامنے پیشی تھی،صبح ہی صبح
تیا ر ہو کے ہم دونوں بیلی کچہری پہنچ گئے،ہمارے پلاٹ بلکہ صیح معنوں میں
ہمارا سودا کرنے والے ڈیلرز حضرات ہم سے پہلے دو خواتین اور دو مروں کے
ساتھ پہلے سے موجودتھے پتہ چلا کہ یہ اصل مالکان ہیں جن سے ہم زمین خرید
رہے ہیں ،ان سے سلام دعا ہوئی جگہ کے بارے میں دریا فت کیا اس کی ملکیت میں
کوئی مسئلہ تو نہیں ، آپ پیسے لائے ہیں ہم نے کہا جی لائے ہیں اور تھوڑی
دیر بعد ہم مجسٹریٹ صاحب یا اے سی صاحب غالباً ان کا نام سعادت تھا کے
سامنے موجود تھے،انہوں نے دونوں پارٹیوں سے پوچھا کہ لینے دینے والے میں سے
کسی پر کوئی دباؤ تو نہیں جواب نہیں میں پا کر انہوں نے دستخط کر دیے اور
یوں ہم ایک عدد پلاٹ کے مالک بن گئے،دوست احباب کو مٹھائی کھلانے کے بعد ہم
دوبارہ اپنی سائٹ پہ گئے اور اس کے بعداسے چھوڑ دیا کہ جب کبھی موقع ملا
زندگی اور دولت نے وفا کی تو اس پہ کوئی مکان دکان بھی تعمیر کر لیں گے،اس
کے بعد کبھی ہم ادھر چکر لگا لیتے کبھی ہمارے دوست وقت نکال کے کسی بہانے
وزٹ کر آتے ،وقت گزرتا رہا اور ہمارے چکر بھی آہستہ آہستہ کم ہوتے گئے اور
نوبت یہ آ گئی کہ چھ چھ مہینے ہمار ا ادھر جانا نہ ہوا،2010گذر گیا،2011اور
12بھی گذر گیا اور پھر 2013آ گیا،ہم نے اب کی بار پکا ارادہ کر لیا کہ جو ں
ہی موسم کھلتا ہے مئی جون میں ہم نے اس پہ تعمیر شروع کر دینی ہے پھر
غالباًفروری کے مہینے میں ایک جیلر صاحب سے کسی بہانے ملنے جانا ہوا تو
واپسی پہ پلاٹ کا چکر لگانے کا سوچا جب پلاٹ پر پہنچے تو چودہ طبق یہ دیکھ
کر روشن ہو گئے کہ پلاٹ کی قبرستان والی سائیڈ کی لائن کے درمیان میں تین
فٹ اندر ایک چھوٹی سی قبر بنی ہوئی تھی،شاید کافی عرصے سے خالی پلاٹ دیکھ
کر قبرستان کی نیک و پارسا لوگوں پر مشتمل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ
اس کو کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے استعمال کر لیا جائے،ہم نے یہ کار خیر
انجام دینے والوں کا اتہ پتہ کرنے کی کوشش کی مگر کسی نے بھی چوک پلہ
پکڑائی نہ دیا ایک دوست جو زمینوں کے گورکھ دھندے کو سمجھتے تھے سے رابطہ
کیا جن کا کہنا تھا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا جو باقی بچ گیا اس کی حد بندی
کر لیں فی الفور،ہم نے سترہ مرلے کا پلاٹ خریدا تھا پچھلی لائن کے درمیان
میں قبر کی وجہ سے مکمل ترتیب میں دو مرلے کم ہو گیا تین چار قبروں کی جگہ
اور چھوڑنا پڑ گئی پندرہ مرلے کی حد بندی کا پروگرام بنایا اور اگلے ہی دن
اینٹو ں کا ٹرک موقع پر پہنچا کر لیبر بھی پہنچا دی،ایک دن بنیادیں کھودی
گئیں دوسرے دن صبح سویرے ہمیں ٹھیکیدار کا فون آ گیا کہ آپ فوراًموقع پر
پہنچیں مسئلہ ہو گیا ہے،میں فوراً اپنے دوست کے ہمراہ ان کے پا س پہنچا تو
دیکھا کہ کام رکا ہوا ہے اور ایک چا چا جی جن کا نام اب یا د نہیں سر پر
بڑاسا پگڑ باندھے جو لگ بھگ ایک تھان کپڑے کے برابر تھا اور اتنا ہی کپڑا
کندھے پہ بھی ڈال رکھا تھا ہاتھ میں بڑی سی ڈانگ اٹھائے پلاٹ کے عین درمیان
میں کھڑے تھے،انہیں دیکھ کے ہم نے پہلے تو گاڑی سے اترنے کی بجائے نو دو
گیارہ ہو جاناہی بہتر سمجھا دوست کی حالت دیکھی جو ہم سے مختلف نہ تھی
دونوں نے ایک دوسرے کو حوصلہ دیا اور گاڑی سے نیچے اترے،ان بھائی صاحب کے
تیور انتہائی خطرناک تھے مگر ہماری حالت اور حلیہ دیکھ کہ شاید ان کے دل
میں کچھ نرمی کے جذبات پیدا ہو گئے کہ ہم سے بدتمیزی نہیں کی فقط یہ پوچھا
کہ کام آ پ نے شروع کرا رکھا ہے جواب دیا جی ہاں تو بولے :اے جگہ مینڈی اے
تہانوں نئی پتہ ؛ہم نے کہا جناب ہمیں پتہ ہوتا تو ایسا کرتے ؟؟ہم نے تو
خریدی ہے انہوں نے کہا نہی یہ جگہ میری ہے ہم نے کہا ابھی پٹواری کو بلا کے
فیصلہ کر لیتے ہیں اگر آپ کی ہوئی تو ہم اینٹیں بھی آپ کو دے کر جائیں
گے،ہم نے پٹواری کو کال کی جو فوراً ہی لٹھے سمیت موقع پر پہنچا اور یقین
کریں کہ کام روکنے والے صاحب کی پگ اور پٹواری کے لٹھے میں ہمیں بے پناہ
مماثلت نظر آئی،پٹواری صاحب نے ادھر سے ادھر بھاگنا دوڑنا شروع کیا کبھی
سڑک پر پہنچ گئے تو کبھی قبرستان کے درمیان میں بیٹھ گئے،کافی دیر کی خواری
کے بعد موصوف نے آتے ہی مژدہ سنایا ملک صاحب رولا ہو گیا،ہم نے پوچھا خیریت
؟گویا ہوئے کہ تہاڈے نال ہتھ ہو گیا، یہ پلاٹ آپ کا نہیں میرے دوست نے
پوچھا کہ ہمارا کدھر گیا انہوں نے جواب دیا آپ کا بھی ہے تو ادھر ہی مگر
یہاں سے ایک کلومیٹر آگے اور دوسری بات یہ کہ ابھی ادھر تک جانے کا راستہ
نہیں بنا،مجھے فوراً ایک اور مہربان یاد آگئے جنہیں ایک بار کہا تھا اچھا
ڈرائیور چاہیے ایک دن ایک نمونے کے ساتھ دفتر آئے کہ بڑا اچھا بندہ ڈھونڈ
کے لایا ہوں کمال کا ڈرائیور ہے ہر کام جانتا ہے گھر کا ہر کام کر سکتا ہے
بس ایک مسئلہ ہے میں نے پوچھا وہ کیا کہنے لگے بس کبھی کبھی گاڑی چلاتے
ہوئے سو جاتا ہے! ہم نے دوست کو پانی کا گلاس اور پٹواری کو تھرماس میں پڑی
چائے کا آخری کپ پیش کیا ،چاچا ڈانگ سے معذرت کی، اینٹیں ان کے حوالے کیں
اور مزدوروں کو اجرت دے کے فارغ کیا اور خود تھانے کی راہ لی،تھانے میں حسب
معمعول جھوٹا پروٹوکول جو عموماًصحافیوں کے شر سے بچنے کے لیے انہیں دیا
جاتا ہے دیا گیا اور درخواست لے لی گئی جس میں ہم نے اپنے ساتھ ہونے والے
گیارہ لاکھ روپے کے فراڈ کا ذکر کیا اور شنوائی چاہی،دس پندرہ دن پولیس ٹال
مٹول سے کام لیتی رہی بعد میں پتہ چلا دوسری طرف معاملات طے ہوتے رہے اپنی:
کاروائی: ادھر سے مکمل کر کے پولیس نے ہماری ایف آر درج کر لی،اس کے بعد
پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی، ملزمان کابل تھے نہ ہماری پولیس اتنی قابل
تھی کہ انہیں گرفتار کر تی،نہ پولیس نے کابل سے آنا تھا دو عورتوں دو مردوں
اور دو پراپرٹی ڈیلرز کو گرفتار کرنے،2013سے لے کر آج تک پولیس صرف ایک شخص
کو گرفتار کر سکی وہ بھی جسے میرے دوست نے خود ساتھ جا کے گرفتار کروایا
اسے بھی تین روز بعد جج صاحب نے 420,468,471کی دفعات کے باوجود صرف اڑتالیس
گھنٹے بعد رہا کر دیا،اب ہر دو ہفتے بعد ایک وہ ملزم اور دو ہم دوست عدالت
کے سامنے جا حاضر ہوتے ہیں مگر ایک بات بڑی کما ل ہے کہ چار گھنٹے ہم باہر
انتظار کرتے ہیں انصاف کے لیے اور جب جج صاحب کے پاس پہنچتے ہیں تو جج صاحب
ہماری تھکاوٹ کا شدید احسا س کر کے صرف دو منٹ میں انصاف یعنی اگلی تاریخ
دے دیتے ہیں،اور عجیب تجربہ یہ ہو ا کہ اپنے عدالتی نظام کی کیا بات کہ جج
صاحب کے پاس ایک فائل کور میں چند کورے کاغذ اور ایک کیلنڈر سامنے پڑا ہوتا
ہے ،جونہی ہرکارہ ایک مبہم سی آواز لگاتا ہے جس کا آدھا مطلب سمجھ آتا ہے
وہ بھی تب کہ جا جا کہ کان مانوس ہو جاتے ہیں ورنہ امیر حسین بنام سرکار کو
امیییسین بنا سرکار او! کی آ واز کو سمجھناہر کسی کے بس کی بات ہی
نہیں،آواز لگتے ہی لوگ اپنے چشمے فولڈ،موبائل بند جیبوں میں ڈال کر انصاف
کی پکار کی طرف بھاگتے ہیں مگر آگے سے دو منٹ سے بھی کم وقت میں انصاف کے
لیے نئی تاریخ لیکر لوٹ کے بدھو گھر کو روانہ ہو جاتے ہیں،ہمیں اپنے کیس
میں تجربہ ہوا جو بڑا ہی بھیانک ہے کہ آج تک جج صاحب نے پولیس سے یہ پوچھنے
کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس کیس میں چھ ملزمان ہیں باقی کے پانچ کدھر ہیں
گرفتا ر ہوئے تو کدھر گئے نہیں ہوئے توکیوں نہیں ہوئے ،مگررکئے زیادہ جسارت
کی تو کہیں تو ہین عدالت کا مرتکب نہ ٹہرا دیا جاؤں،زندگی میں تین ایف آئی
آرز کروائی ہیں دو سے ہم خود پہل کر کے بھاگے اور ملزمان کی منتیں کر کے جج
صاحب کے سامنے لیکر گئے کہ جناب یہ ہمارا مجرم ہے دیکھ لیں ہم اس کو معاف
کر رہے ہیں ،اس کے باوجود بھی کئی دفعہ انہی کیسز میں دوبارہ بلاوہ آ گیا
کہ کیس تو ملزم کو معاف کر دینے پر ختم ہو گیا مگر دو نامعلوم بھی تھے جو
اب پولیس کو معلوم ہو گئے ہیں جنہیں شیر جوان پکڑ لائے ہیں اب آ کر انہیں
بھی معاف کریں ہم نے کہا جناب معاف کیا جواب ملا نہیں جج کے سامنے آ کے
معاف کریں اور وہ بھی تب جب آپ کا نمبر آئے گا،اور اب کی بار بھی ہم معافی
دینے کو تیار ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جنہیں معاف کرنا ہے وہ مل ہی نہیں رہے
اور نہ ہی پولیس ہی اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد کر رہی ہے کہ انہیں ہم سے
معافی دلا دے، اب ہم تاریخیں بھگت رہے ایک انکم ٹیکس کی ایک ایف آئی آر کی،
جبکہ ملزمان مزے میں تھے ہیں اور رہیں گے، ایف آئی آر کے علاوہ انکم ٹیکس
کی اس لیے کہ پلاٹ لینے کے چند ماہ بعد انکم ٹیکس کے لائق فائق کلرکوں نے
2,40,000کا نوٹس بھیج دیا لاکھ بتایا کہ جناب پلاٹ زمین پہ ہے ہی نہیں جواب
ملا خلا میں بھی ہے تب بھی ٹیکس دینا پڑے گا،آپ پولیس کے نظام کو بھی
دیکھیں انگریز اور اس کے دور پر لعنتیں اور فتوے لگانے والوں کے علم میں
یقیناہو گا کہ انگریز ایس پی ہر ہفتے ہر تھانے کا معائنہ کرتا تھا اور ہر
ایف آئی آر کی رپورٹ لیتا تھا اور جس بھی ایف آئی آ رکو سات دن گذر جاتے
اور ملزم گرفتار نہ ہوتا تو ایس ایچ او کی شامت آ جاتی مگر اپنے ہاں ڈی پی
او صاحب ہر وقت ڈی سی او صاحب کے ساتھ کبھی ڈینگی تو کبھی گوشت مارکیٹ کے
بھاؤ تاؤ چیک کر رہے ہوتے ہیں،کبھی کرکٹ میچ تو کبھی کسی کبڈی کے میدان کو
عزت بخش رہے ہوتے ہیں حالانکہ یہ نہ ان کا کام ہے نہ انکی فیلڈ۔ 2013کی ایف
آ ئی آر 2015گذر جانے اور تمام ملزمان پولیس کی دسترس میں ہونے کے باوجود
گرفتار نہیں ہو ئے یا انہیں جان بوجھ کر گرفتار کیا نہیں گیا وجہ کوئی بھی
ہو ہمارے پولیس کے سسٹم کو ننگا کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ فورس صرف
حکمرانوں کی باندی ہے ،اور میرے دوست کے پاس کسی منسٹر کی سفارش نہیں ورنہ
دو دن بھی نہ لگتے ،ہم نے بھی بہت خاک چھان لی اب ارادہ یہی ہے کہ جب کبھی
پولیس کے کپتان آر پی او چکوال آئے یا پھرآخر میں ہمیں وزیر اعلیٰ پنجاب کے
پاس ہی کیوں نہ جانا پڑا یہ ایف آئی آر دو ٹوٹے کر کے گڈ گورننس پہ لعنت
بھیج کے ان کے حوالے کر دیں گے،حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا قول ہے کہ ظلم پر
معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر نا انصافی پر نہیں ،لیکن آج ظلم بھی عروج پر
اور نا انصافی بھی کمال کو پہنچ چکی،سب کچھ غلط ہو سکتا ہے مگر باب العلم
کی کہی گئی بات غلط نہیں ہو سکتی دیکھئیے اور انتظار کیجیے اس سسٹم اور اس
پہ سوار فرعون و نمرودوں کی رسی قدرت اورکتنی دراز کرتی ہے؟؟؟ |