یہ بھیک مانگتے لوگ۔۔

اﷲ کے نام پر دے دے بابا۔ مولا کے نام پر دے دے بابا۔ تیرے بچے جیون۔ تیری حیاتی سوہنی ہووے، تیریاں مراداں پوریاں ہوون۔

پاکستان کے کسی بھی شہر میں ، کسی بھی بازار میں اس قسم کی آوازیں بکثرت سنائی دیتی ہیں۔فرق اگر ہوتا ہے تو شاید زبان کا کوئی اردو میں تو کوئی پشتو میں۔ کوئی پنجابی میں تو کوئی سندھی میں دعاؤں کی پوٹلی کھولے ایک کے بعد ایک دعانکال رہا ہوتا ہے۔ان دعاؤں کا مقصد ماسوائے اسکے اور کچھ نہیں ہوتا کہ بن مانگے اسکو کچھ روپے مل جائیں۔ یہ اور بات ہے کہ زبان سے تو کچھ نہیں مانگا جاتا لیکن یاتو ہاتھ پھیلے ہوئے ہوتے ہیں یا کوئی کٹورا آگے گیا ہوتا ہے اور یا اگر زمین پر بیٹھے ہیں تو کوئی چادر پھیلائی ہوئی ہوتی ہے۔حالتیں مختلف ہوتی ہیں، انداز جدا جدا ہوتے ہیں لیکن سب کے خیالات ، انداز ایک ہی مرکز سے نکلتے ہیں۔ تان سب کی ایک سُر پر مبنی ہوتی ہے اور پسند سب کو صرف ایک ہی آواز ہوتی ہے اور وہ پیسے کی جھنکار کی آواز ہوتی ہے۔ ہرکسی کا زندگی میں کبھی نہ کبھی اس سے سامنا ہوتا رہتا ہے، اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔اور ہر کوئی ان سے اپنے اپنے انداز میں پیش آتا ہے۔ دھتکارتے ہیں، نظر انداز بھی کرتے ہیں، ترس بھری نگاہوں سے بھی دیکھتے ہیں، انکی خواہش کو پورا کرتے ہوئے پیسوں کی جھنکار بھی سنا دیتے ہیں اور بعض جھنکار سنانے کے ساتھ تھوڑی سی بحث بھی کر لیتے ہیں۔لیکن بحث بھی انکی جسمانی حالت دیکھ کر کی جاتی ہے۔ دھتکارنے والے اور بحث کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی کرے بھی تو کیا۔ ہماری نگا ہ میں تو یہ لوگ شاید ہی پورے دن میں دو تین سو روپے سے زیادہ اکٹھا کرپاتے ہوں۔لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ شاید دس سے بیس فیصد لوگ ایسے ہوں جو اتنی کم مقدار پیسے کماتے ہوں ورنہ تو باقی سب کی آمدنی پانچ سو روپے سے دو تین ہزار روپے تک یا زیادہ ہوتی ہے۔اور وہ واقعی آمدن ہوتی ہے۔کیونکہ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ روٹی اور کپڑا بھی یہ مانگتے ہیں۔کھانے کے وقت میں کسی بھی ہوٹل کے سامنے اپنا ٹھیہ لگا لیتے ہیں۔کپڑوں میں موسم کے مناسبت سے مانگتے ہیں۔ساتھ میں کمبل یا لحاف سردیوں میں ضرور طلب کرتے ہیں۔ تو جو کچھ انھوں نے کمایا ہوتاہے وہ آمدنی میں ہی شمار ہو سکتاہے۔

اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ بھکاری ایک جگہ مستقل ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔ ایسے بھکاریوں میں زیادہ تر معذور نظر آتے ہیں یا پھر کوئی چرسی یا ہیروئن پینے والا بیٹھا ہوتا ہے۔ اب وہ معذور کس حد تک معذور ہوتے ہیں یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔لیکن ان میں سے شاید کوئی تین سے پانچ فیصد واقعی معذور ہوتے ہیں لیکن پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ خود معذور ہوتے ہیں یا انکو بھیک مانگنے کی خاطرمعذور بنایا جاتا ہے۔ کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اپنی اسکی کٹی ہوئی ٹانگ کو سامنے رکھ کر لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے رحم پیدا کرتا ہے اور ان سے بھیک لیتا ہے۔بدلے میں دعائیں دیتا ہے۔ تو کوئی اپنے کٹے ہوئے یا ٹیڑے میڑھے بازو کو دوسرے ہاتھ سے تھامتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ آتا جاتا ہے ، بغیر صدا لگائے یتیم صورت بنائے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ کوئی صدا لگا تا ہے ’’ آنکھوں والو! آنکھیں بڑی نعمت ہیں‘‘۔ تو جھٹ سے لوگ جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنے اپنے ظرف کے مطابق اسکے ہاتھ میں ریزگاری یا نوٹ رکھ دیتے ہیں مبادا انکی آنکھوں کو نظر لگ جائے۔

میری ذاتی طور پر کئی بھکاریوں سے کافی دیر تک بات چیت ہوتی رہی ہے۔اپنے بچپن میں جب میں شاید پانچویں یا چھٹی جماعت کا طالب علم تھا، ایک بھکاری کو تو باقاعدہ کھانا تک کھلاتا رہا۔ اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر اسکے منہ میں ڈالتا رہا۔ اسکے منہ سے ٹپکتی رال کو صاف کرتارہا تھا۔ اور دنوں یا ہفتوں نہیں بلکہ دو تین سال تک اسکے ساتھ اسی طرح پیش آتا رہا۔ اسکا فائدہ یہ ہوا کہ اس سے بہت سی باتوں کا پتہ چلا تھا۔اسکا نام رحمت تھا۔ اسکو شاید کبھی فالج ہوا ہوگا (بعد میں پتہ چلاتھا کہ حقیقت کچھ اور تھی) جسکی وجہ سے اسکے ہاتھ اور پاؤں بیکار ہو گئے تھے۔ ہاتھوں کو تو پھرکسی حد تک حرکت دے لیتا تھا۔ لیکن ٹانگوں کو گھسیٹنا پڑتا تھا۔کسی اﷲ کے نیک بندے نے اسکو ایک تین پہیوں والی بڑی سائیکل ، جس طرح کی آج کل چنگ چی رکشہ ہوتا ہے، خرید کر دے دی تھی جسکو ایک ہاتھ سے تھامے دوسرے ہاتھ سے چلاتا تھا۔ صرف اسکواوپر بٹھانے کے لیے دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑتی تھی۔کبھی کبھی اسکے ہاتھوں کی طاقت جواب دے جاتی تھی تو کوئی راہ گیر سائیکل کو کچھ فاصلے تک دھکا لگا دیتا تھا۔ اسی طرح کبھی خود چلاتے ہوئے تو کبھی دوسرے لوگوں کی مدد سے وہ اپنے گھر اور گھر سے اس مخصوص جگہ تک آتا جاتا تھا۔ ایک بات جو کم از کم مجھے عجیب لگتی تھی کہ جب وہ گھر کے قریب پہنچتا تھا تو ہمیشہ کسی نہ کسی طرف سے ایک لمبا تڑنگا آدمی اسکو فوراً گھر کے اندر لے جاتا تھا۔ تین چار دفعہ تو میں نے اس کو خود دیکھا تھا کیونکہ محلے کی کرکٹ ٹیم کبھی ایک محلے میں میچ کھیلنے جاتی تھی تو کبھی دوسرے میں۔اور میں بھی اس ٹیم کا ایک ممبر ہوتا تھا۔تو کئی دفعہ رحمت کے محلے میں بھی ہم میچ کھیلنے گئے تھے۔

یوں تین سال گز گئے۔ایک دن دوپہر کا کھانا کھلاتے ہوئے میں نے اس سے اس شخص کے بارے میں پوچھا تو پہلے تو بات کو ٹال گیا۔ لیکن میرے اصرار پر بہت احتیاط سے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے جو بات بتائی اس وقت تو مجھے اس پر یقین نہ آیا۔ گھر آکر جب میں نے وہ بات اپنے والد محترم کو بتائی تو انھوں نے رحمت کی طرف میرا جانا بند کر دیا۔ بہت پوچھا تو بھی کچھ نہ بتایا۔ تو تین ہفتوں کے بعد جب والد صاحب نے تھوڑی نرمی برتی تو میں پھر رحمت کی طرف چل دیا۔لیکن اس بار تو اسکا حلیہ ہی بگڑا ہوا تھا۔چہرے پر زخموں کے مندمل ہوتے نشانات تھے ۔سر پر دائیں جانب کان سے تھوڑا اوپر ایک عدد گومڑ ابھرا ہوا تھا۔بازوؤں اور پنڈلیوں پر بھی زخموں کے نشانات تھے۔ میرے پوچھنے پر اس نے صرف اتنا کہا کہ یہ اس دن مجھ سے بات کرنے کی سزا تھی۔ اور دوبارہ اسکو اس جگہ پر آئے ہوئے صرف چاردن ہوئے ہیں۔کیونکہ اسے زیادہ باتیں کرنے سے منع کیا گیا تھا جب کہ وہ اصلیت بتا بیٹھا تھا۔

اس نے جو بات بتائی تھی وہ یہ تھی کہ اسکو فالج نہیں ہوا تھا بلکہ اسکے چند سگے رشتہ داروں نے اسکو نا معلوم وجہ سے زہر دینے کی کوشش کی تھی۔ ڈاکٹروں کی محنت اور بروقت علاج سے گو اسکی زندگی تو بچ گئی تھی لیکن اسکا اثر اسکے پٹھوں پر مختلف صورتوں میں ہوا تھا۔ اور اسکی حالت یوں ہوگئی تھی جیسے فالج کے شدید حملے سے گذرا ہو۔اسکو بات کرتے ہوئے بھی مشکل پیش آتی تھی کیونکہ اسکا منہ تھوڑا ٹیڑھا ہو گیا تھا اور اسکے منہ سے رال بھی ٹپکتی تھی۔اسنے بتایا تھا کہ اسکا علاج علاقے کے ایک بظاہر شریف نظر آنے والے شخص نے کرایا تھا۔ اسکے علاج پر اس وقت کے لحاظ سے کافی خرچ آیا تھا۔ چونکہ علاج کے بعد اسکی ظاہری حالت ایسی ہو گئی تھی کہ اب وہ کوئی کام کاج نہ کر سکتا تھاتو اس شخص نے کوئی دو تین مہینے تک اسکا بوجھ برداشت کیا۔ اسکو اپنے دوکمرے والے مکان میں جگہ دی۔ لیکن ایک دن کہنے لگا کہ اسکے پا س کوئی حرام کے پیسے نہیں ہیں جو وہ اس پر لٹاتا رہے۔رحمت نے اس شخص سے کہا کہ اسکی حالت سے تو وہ واقف ہی ہے کہ وہ کچھ کر بھی تو نہیں سکتا اور نہ ہی اسکا آگے پیچھے کوئی ہے۔تو اس شخص نے جس کا نام پرویز تھا ، اصلیت دکھا دی۔کہنے لگا کہ پھر اسکا تو ایک ہی حل ہے کہ وہ بھیک مانگے کہ اسکی ظاہری حالت دیکھ کر ہی لوگ اس پر ترس کھائیں گے اور اسکو بہت بھیک ملے گی۔ خود بھی کمائے ، کھائے اور اسکو بھی کھلائے۔رحمت کے بقول اس نے بہت سوچا لیکن کوئی اور راستہ نظر نہ آیا۔ مجبوراً اسکو یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ آج اس دشت کی سیاہی میں اسکو دس سال ہو گئے تھے۔

اس شخص کے متعلق جو سائیکل کو آخری لمحے میں گھر کے اندر لے جاتا تھا رحمت نے بتایاکہ اسکا نام سلیم تھا اور وہ پرویز کا تنخواہ دار تھا۔جسکی ذمہ داری تھی کہ وہ رحمت پر اور اور جیسے مزید پانچ افراد پر نظر رکھے کہ کہیں وہ بھاگ نہ جائیں۔ میں یہ سن کر بہت حیران ہوا تھا۔ میں نے رحمت سے پوچھا کہ پانچ افراد کون ہیں اور کہاں ہیں؟ رحمت نے کہا کہ پرویز نے نے جانے کہاں کہاں سے ایسے افراد ڈھونڈ کر لائے ہیں جو ایک تو معذور ہوں اور دوسرا انکا کوئی والی وارث نہ ہو۔پرویز ان سب سے بھیک منگواتا تھا۔سلیم جیسے اس نے تین چار اور بندے ملازم رکھے ہوئے تھے جنکا کام رحمت اور دوسرے بھکاریوں پر نظر رکھنا ہوتا تھا۔میرے پوچھنے پر کہ سلیم تو کبھی بھی اسکے قریب نظر نہیں آیا تو رحمت نے جواب دیا کہ وہ قریب ضرور ہوتا تھا لیکن ہمیشہ کسی نہ کسی آڑ میں بیٹھا ہوتا تھا کہ کسی کو علم نہ ہو سکے کہ اسکا رحمت سے کوئی تعلق واسطہ ہے۔ ایک دن رحمت نے بڑے کرب سے بتایا کہ اس پرویز جیسے نجانے کتنے لوگ اس ملک میں اپنے گھناؤنے پنجے پھیلائے ہوئے ہیں۔جو ننھے معصوم بچوں سے لیکر ساٹھ ستر سال کے بوڑھوں تک سے مختلف طریقوں سے بھیک منگواتے ہیں۔اور خود ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔ رحمت نے پرویز کے متعلق بتایا کہ پرویز کبھی جو دو کمروں کے مکان میں رہتا تھا آج اسکا ایک کنال پر مشتمل شہر کے پوش علاقے میں ایک تین منزلہ بنگلہ ہے۔دس دس مرلہ کے دو گھر اور کوئی سات آٹھ دکانیں کرائے پر اٹھائی ہوئی ہیں۔اور یہ سب کچھ اس نے ہمارے بھیک میں مانگے ہوئے پیسوں سے بنایا ہے۔

اس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں رحمت نے بتائی تھی۔ جب میں نے ہوش سنبھالا۔ کسی کو کچھ سمجھانے کے قابل ہوا تو جب کسی بھکاری کو دیکھا تو رحمت ایک دفعہ ضرور یاد آیا۔یاد اسلیے کہ انٹر کرنے کے بعد ہم نے وہ شہر چھوڑ دیا تھا اور اپنے آبائی شہر میں سکونت اختیار کر لی تھی۔میں نے اکثر اوقات لوگوں سے بھکاریوں کے متعلق باتیں کیں۔ انھیں اپنے تجربے سے آگاہ کیا۔ لیکن کبھی کسی نے میری ایک نہ سنی۔بلکہ جواب میں صرف یہ ہی کہا کہ بھائی یہ لوگ بھی خدا کی طرف سے ایک امتحان ہیں۔ میں بھکاریوں تک سے باتیں کرتا رہا بلکہ اب بھی کبھی کبھی موقع ملے تو ضرور کرتا ہوں۔اکثر یہ محسوس ہوتا تھا کہ کچھ بھکاری بات کرتے کرتے ادھر ادھر ضرور دیکھتے تھے۔ بلکہ چند ایک تو بات کرتے کرتے اچانک بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ تو تب رحمت کی بات یاد آتی تھی کہ وہ خود اپنی خوشی سے یا مرضی سے بھیک نہیں مانگتے تھے بلکہ ان سے بھیک منگوائی جاتی تھی۔

سوال یہ ہے کہ اگر عام عوام اس بات سے واقف نہیں تو پھر تو ٹھیک ہے لیکن ان کو اس بات کا علم ہے تو پھر وہ انھیں بھیک کیوں دیتے ہیں۔ وہ اس سماجی بیماری کا کوئی مستقل حل کیوں نہیں نکالتے۔وہ کیوں ووٹ مانگنے والوں کو نہیں کہتے کہ پہلے شہر کے رؤسا کو غریب کرو جو بھیک کے پیسوں سے امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں پھر ووٹ مانگو۔لیکن نہیں۔ کیونکہ جب کتی (بچ) ہی چوروں سے ملی ہوئی ہو تو اﷲ ہی مالک ہے۔ حکمران پرویز جیسے لوگوں کو کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچا سکتے۔کیونکہ ان کی دال روٹی بھی چلتی ہے۔ ان زبردستی کے بھکاریوں کے لیے کوئی دارلکفالہ قسم کا ادارہ کیوں نہیں بنایا جاتا جہاں بڑوں کو مخلتف ہننر سکھائے جا سکتے ہیں ، انکے ہنر کو استعمال کر کے انکے بنائی ہوئی اشیاء کو بازار میں فروخت کیا جا سکتا ہے اور آمدنی کا ایک حصہ انکے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاسکتا ہے۔کتنی ہی بڑی عمر کے بھکاری ایسے ہوتے ہیں جو پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ وہ بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو مختلف قسم کے فنون سکھائے جا سکتے ہیں۔ تا کہ کل جب وہ میدان عمل میں نکلیں تو اگر وہ سرکاری ملازمت نہ حاصل کر سکیں تو کم از کم محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال سکیں۔مخیر حضرات بھی یہ کار خیر انجان دے سکتے ہیں۔ زیادہ نہیں اگر ہر امیر آدمی صرف ایک ایک بھکاری چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا کے سر پر ہاتھ رکھ دے تو معاشرہ اس لعنت سے انتہائی قلیل عرصے میں پاک ہو سکتا ہے۔دنیا میں بھی انہیں کامیابی ہی نصیب ہو گی اور آخرت میں تو ہے ہی۔
Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 71325 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More