سابق امریکی صدر ریگن ہر وقت اپنی جیب میں ایک چھوٹی سی
سونے کی جوتی رکھتے تھے۔ یہ جوتی ان کو صدر بننے سے پانچ سال قبل ان کے ایک
دوست نے دی تھی۔ صدر ریگن کو یقین تھا کہ اس سنہری جوتی میں طلسماتی اثرات
چھپے ہوئے ہیں۔ وہ ان کو ہر آفت سے بچاتی ہے۔ چنانچہ مارچ 1981 میں جب ان
پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تو ان کے خیال کے مطابق اسی جوتی نے ان کو اس سے
محفوظ رکھا تھا۔ یہ بلا شبہ توہم پرستی (Superstition)ہے۔ مگر اس توہم
پرستی کا ایک معلوم سبب ہے اور وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں انسان کے ساتھ جو
واقعات پیش آتے ہیں وہ ایسے پراسرار ہوتے ہیں کہ آدمی پوری طرح ان کی
توجیہہ نہیں کرپاتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ چھپے ہوئے عوامل ہیں جو کسی
کو کامیاب اور کسی کو ناکام کردیتے ہیں۔ کوئی شخص ایک نتیجہ سے دوچار ہوتا
ہے اور کوئی شخص دوسرے نتیجہ سے۔ اور دونوں میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں
میں نہیں بتا سکتا کہ اس کے ساتھ جو ہوا وہ کیوں ہوا۔ ایک بار ایک بڑے تاجر
سے پوچھا گیاکہ تجارت میں کامیابی کا راز کیا ہے۔ وہ کچھ دیر سوچتارہا، پھر
کہا ’’قسمت‘‘۔
دراصل یہ پُراسراریت اس لئے ہے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اﷲ ہے، مگر انسان
چوں کہ غیبی اﷲ کو دیکھ نہیں پاتا اس لئے وہ کسی نہ کسی دکھائی دینے والی
چیز کو اپنا خدا بنا لیتا ہے خواہ وہ سونے کی جوتی یا پتھر کی انگوٹھی ہی
کیوں نہ ہو۔ انسان مجبور ہے کہ وہ کسی کو اپنا خدا بنائے۔ اﷲ کو بنائے یا
اﷲ کو چھوڑ کر کسی اور کو بنا لے۔
توہم پرستی کسے کہتے ہیں؟ توہم پرستی کی تعریف یوں کی جاتی ہے: ایک تصور یا
کچھ لوگوں کا خیال کہ جو واقعات رونما ہوتے ہیں انکے پیچھے کوئی پوشیدہ
طاقت ہوتی ہے یا کچھ لوگ ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں جسکی صحت کے بارے
میں وہ خود بھی نہیں جانتے یا انکے حقیقی ہونے کے اسباب سے ناواقف ہیں اور
انکی حقیقت کو سائنٹفک طریقہ سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ توہم پرستی کے لیے
ایک لفظ ضعیف الاعتقادی بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ توہم پرست یا ضعیف
الاعتقاد افراد اپنے صحیح اور غلط افعال کا ذمہ دار اسی پوشیدہ طاقت کو
ٹھہراتے ہیں۔ یہ رحجان انفرادی طور پر نقصان دہ ہے کیونکہ ایسے افراد حقیقت
سے دور رہتے ہیں اور غیر فطری خیالات کے جنجال میں پھنس جاتے ہیں۔
طلوعِ اسلام کے وقت دنیا کی تمام اقوام کے عقائد میں کم و بیش خرفات اور جن
و پری وغیرہ کے قصے شامل تھے۔ اس زمانے میں ایسی ڈوریوں کو جنہیں کمانوں کی
زہ بنانے کے کام میں لایا جاتا تھا لوگ اونٹوں اور گھوڑوں کی گردنوں نیز
سروں پر لٹکا دیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسے ٹوٹکوں سے ان کے
جانور بھوت پریت کے اثر سے بچے رہتے ہیں۔ اور انہیں کسی کی بری نظر بھی
نہیں لگتی۔ اسی طرح جب دشمن حملہ کرنے کے بعد لوٹ مار کرتا ہے تو ایسے
ٹوٹکوں کی وجہ سے ان جانوروں پر ذرا بھی آنچ نہیں آتی۔
چوتھی صدی میں بورڈیکس کے مارسیلس نے موہکوں کا روحانی علاج بتایا جو آج
بھی یورپی معاشروں میں مانا جاتا ہے۔تم اپنے موہکے کے برابر پتھر کو اپنے
موہکے پر رگڑو پھر اس پتھر کو شاہ بلوط کے پتے میں باندھ کر عام گزر گا ہ
پر پھنک دو۔ جو شخص اس پتھر کو چھوئے گا اس کو موہکے نکل آئیں گے اور مریض
کے موہکے صاف ہو جائیں گے۔توہم پرستی کا شکار لوگ ہمیشہ خوف کی زندگی گزرتے
ہیں اور ہمیشہ الٹاسیدھاسوچتے رہتے ہیں کہ ایساہواتو کیساہوگاایساکرے تو
کیاہوگاویساکرے تو کیاہوگاکوئی سن نہ لے کوئی دیکھ نہ لے کوئی چھونہ لے
فلاں شخص ایساہے فلاں شخص ویساہے فلاں شخص ہمارادشمن ہے فلاں شخص ہم سے
جلتاہے فلاں شخص ہم سے حسد کرتاہے فلاں شخص عمل عملیات کراتاہے فلاں شخص
فلاں آدمی سے ملتاہے جو ٹھیک نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ذات باری تعالیٰ متصرف
حقیقی اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات
بھی وہی ہے۔کسی چیز ، کسی دن، کسی مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام
کرنے کو بْرے انجام کا سبب قرار دینا غلط اور قابل مذمت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی
مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس بارے کتاب و
سنت کے بعض دلائل کا ذکر حسب ذیل ہے:
۱۔ قرآن کریم میں مشرکین عرب کے بدشگونی کے ایک عمل کی تردید یوں کی گئی ہے:
’’اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف آؤ۔ البتہ
نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں ہی
سے آؤ اور اﷲ سے ڈرتے رہو تا کہ تم فلاح پاجاؤ‘‘۔(البقرہ، 189) مشرکین حالت
احرام میں اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہونے کو نحوست اور بدشگونی کا
سبب سمجھتے۔ اس لیے اپنے گھروں کے پیچھے سوراخ کر کے یا پیچھے سے چھت پر
چڑھ کر اندر آتے اور اس عمل کو بڑی نیکی اور عبادت سمجھتے۔ قرآن حکیم نے ان
کے بدشگونی پر مبنی عمل کی تردید فرمائی۔
۲۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا : لا عدوی ولا طیرہ ۔نہ
کوئی تعدیہ ہے (ہر مرض اﷲ کی طرف سے آتا ہے نہ کہ بیمار کے پاس بیٹھنے سے)
اور نہ کوئی بدشگونی۔(صحیح بخاری، کتاب الطب) اس حدیث میں بدشگونی کی نفی
کر دی گئی کہ کسی چیز سے نحوست اور نقصان پہنچنے کا عقیدہ نہ کیا جائے۔
۳۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بدشگونی شرک
ہے ، بدشگونی شرک ہے۔ آپ نے یہ کلمات تین بار ادا فرمائے۔ (سنن ابوداؤد ،
کتاب الطب)
مختلف ایام و مہینوں کو بدشگونی کا سبب قرار دینا شریعت کی خلاف ورزی
ہے۔(i)ماہ صفر کو منحوس قرار دینا درست نہیں۔(ii)ماہ محرم میں شادی بیاہ کو
بدشگونی کا سبب قرار دینا درست نہیں۔ شادی کرنے کے باعث طلاق یا برائی
پہنچنے کا عقیدہ رکھنا غلط ہے۔(iii)اسی طرح مختلف ایام جیسے منگل کے دن
شادی یا بچی کی رخصتی کو بدشگونی قرار دیا جاتا ہے۔ایسے توہمات بھی غلط ہیں
سارے دن اﷲ تعالیٰ کے ہیں۔ (iv)دو بچیوں کے ایک ہی دن نکاح کو بدشگونی کا
سبب قرار دیا جاتا ہے یہ بات بھی بالکل بے اصل ہے۔ ایسے عمل کو کسی بدی سے
منسوب کرنا غلط ہے۔ (v)ایک دن دو خطبوں یعنی عید اور جمعہ کے خطبے کو
حکمرانوں پر بھاری قرار دینے کا عقیدہ رکھنا بھی بدشگونی ہے۔ بلکہ یہ امر
باعث برکت ہے کہ ایک مسلمان کو ایک دن میں دو خطبات سننے کی سعادت میسر آتی
ہے۔ اس سے بدشگونی کا عقیدہ وابستہ کرنا انتہا درجے کی توہم پرستی ہے۔
(vi)کسی آدمی نے کسی خاص جانور یا کسی شخص کو دیکھ لیا اور اس کے بعد کوئی
نا پسندیدہ واقعہ رونما ہو گیا اس واقعہ کو ان چیزوں سے منسوب کرنا بدشگونی
اور توہم پرستی ہے۔ ہماری زندگی میں ضعیف الاعتقادی کے باعث بدشگونی اور
توہم پرستی کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اگر ہمارا اﷲ تعالیٰ کی ذات پر
پختہ اعتقاد ہو ، اس کی قدرت پر یقین کامل ہو تو پھر اس قسم کی توہم پرستی
اور بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ توحید
باری اور اس کے تقاضوں کو کماحقہ ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔
|