خود کشیاں اور ذمہ داری!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
اُس نے دریائے چناب میں چھلانگ لگا
دی، لوگ اسے دیکھتے ہی رہ گئے، وہاں اس کو کوئی نہ جانتاتھا، کسی سے اس کی
واقفیت نہ تھی، تاہم انسان ہونے کے ناطے لوگوں نے اس کو بچانے کی کوشش کی،
مگر کامیابی نہ مل سکی، نوجوان دریا میں ڈوب گیا، ساتھ ہی اس کے ارمان، اس
کی خواہشات اور حسرتیں بھی دریا برد ہوگئیں۔ اس کے دامن میں مایوسیوں کا
ایک بڑا ذخیرہ بھی تھا، جسے سنبھال کر رکھنا اس کے لئے مشکل ہورہا تھا،
پریشانیوں کا اضافی بوجھ بھی اس کو اٹھانا پڑ رہا تھا، جو اس کے ناتواں
کندھوں کی استطاعت سے زیادہ تھا۔ ڈگری بھی اس کے لئے ایک عذاب بن چکی تھی
کہ اگر وہ کم تعلیم یافتہ ہوتا تو مایوسی بھی کم ہی ہوتی، ایم اے تک پڑھنا
اور وہ بھی فلسفہ میں۔ کون نہیں جانتا کہ ایک فلسفی کے نظریات کیا ہوتے ہیں،
حقیقی فلسفی سوچتا کس طرح ہے، اس کا زاویہ نگاہ کیا ہوتا ہے؟ وہ تصورات کی
دنیا میں رہتا ہے، خیالوں میں گم رہتا ہے، تصورات میں ہی زندگی گزارنے کے
تانے بانے بُنتا ہے۔ یہ ایک فلسفی تھا، اس نے ملازمت حاصل کرنے کے لئے
سرتوڑ کوشش کی، جہاں معقول ملازمت کے مواقع دکھائی دیئے، درخواست گزار دی،
مگر روایت کے مطابق کہیں بھی اس کی دال نہ گلی، چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کے
حصول کے لئے بھی زیادہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فہرست ہی تیار ہوجاتی۔ پیسے
نہ ہونے کی بنا پر کاروبار کرنا بھی اس کے لئے ممکن نہ تھا، جب مایوسیوں کا
بار بڑھتا رہا، پریشانیوں میں اضافہ ہوتارہا، تو فیصلہ کن دن آگیا۔
اس نے پریشانیوں اور مایوسیوں سے نجات پانے کا فیصلہ کرلیا ، وہ دریائے
چناب پر گیا، چند لمحے رک کر اپنی توانائیاں جمع کیں، اپنے ذہن کو زندگی کے
آخری اور اہم ترین فیصلے کے لئے تیار کیا اور آنکھیں بند کرکے چھلانگ لگا
دی۔ پانی تک پہنچنے کے دوران نہ جانے اسے کتنے خیال آئے ہونگے،ممکن ہے اس
نے یہ محسوس کیا ہو کہ اس کا یہ فیصلہ مناسب نہیں، اسے کچھ دن اور بھی
نوکری کی تلاش کرنی چاہیے تھی، ممکن ہے کچھ بن جاتا، اسے دوستوں کے مشورے
بھی یاد آئے ہونگے، جو انہوں نے ملازمت وغیرہ کے لئے اس کو دیئے ہونگے، مگر
اب کیا ہوسکتا تھا، کہ تیر کمان سے نکل چکا تھا، اب واپسی ممکن نہ رہی تھی،
اب اس کی منزل قریب تھی، اب وہ اپنے پریشان ماضی سے نجات پا چکا تھا۔ وہاں
اس کا کوئی جاننے والا نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اسے دریا سے نکال تو
لیا، مگر اس کی پہچان کا معاملہ کچھ ٹیڑھا تھا، تاہم کوشش کے بعد معلوم ہوا
کہ اس کا نام سلیمان ہے اور وہ پاک گیٹ ملتان کا رہائشی ہے۔ اس کے گھر سے
ہی معلوم ہوا کہ وہ تعلیم یافتہ تھا، زندگی کے فطری تقاضے نبھانے کے لئے
اسے روز گار کی تلاش تھی، معاملہ طعن وتشنیع تک پہنچ چکا تھا۔ حالات کی
سختیاں برداشت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں، زمانہ ایسا آچکا ہے کہ بے
روز گاری تو دور کی بات ہے ، کم آمدنی سے بھی کام نہیں چلتا، کمر توڑ
مہنگائی نے ناک میں دم کر رکھا ہے، عام تنخواہ دار یا چھوٹے کاروبار والے
لوگ سخت پریشان ہیں۔ قناعت پسندی انسان کی فطرت میں تو شامل ہوسکتی ہے، مگر
دنیا کی رفتار قناعت پسندی جیسے پرانے نظریات کو روندتی ہوئی آگے گزر گئی
ہے، ویسے بھی جب اشیائے ضرورت کی قیمتیں ہاتھ سے نکل رہی ہوں ، گھر کا خرچہ
پورا نہ ہوتا ہو، بجلی کے بل اور کرایہ مکان وغیرہ کی کہانی بھی قابو میں
نہ ہو تو کہاں کی سادگی اور کیسی قناعت پسندی؟
فیصل آباد کے مضافات کی تیس سالہ عائشہ بی بی نے ا پنی تین بیٹیوں کو گندم
میں رکھنے والی زہریلی گولیاں کھلا دیں، سب سے چھوٹی سات ماہ کی بیٹی کو اس
نے دودھ کے ساتھ گولی کھلائی۔ بعد ازاں عائشہ بی بی نے خود بھی زہریلی
دوائی نگل لی۔ چاروں ہسپتال پہنچائے گئے، چھ سالہ بسمہ اور سات ماہ کی نور
فاطمہ اپنی ماں کے ساتھ ہی موت کی وادی میں اتر گئیں، تاہم ایک بیٹی موت و
حیات کی کشمکش میں ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ بچیوں کا والد عمارت بنانے والا
مستری تھا، کچھ غربت آڑے آئی، یقینی طور پر کچھ ’’بچیوں‘‘ کا طعنہ بھی وجہ
بنا ہوگا، گھر میں لڑائی رہتی تھی، ظالم باپ نے یہ نہ جاناکہ جن تین بچیوں
نے اس کے لئے آخرت میں سرخروئی کا اہتمام کرنا ہے، وہ انہی کو طعنہ بناتا
ہے۔ یہاں معاملہ ایک سلیمان کا نہیں، نہ ہی کسی ایک عائشہ بی بی کی بات ہے،
نہ جانے کتنے سلیمان اور کتنی عائشائیں روزانہ غربت ، ظلم اور ناانصافی کی
بھینٹ چڑھتی ہیں، یہ سب کچھ ہمارے معاشر ے میں معاشی عدم توازن کا شاخسانہ
ہے، ذمہ دار حکومت اور ہم خود ہیں۔ |
|