اسوہ نبی ﷺ! قیامت تک محیط ہے
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
ولادت با سعادت کے حوالے سے لکھنا بھی کسی
سعادت سے کم نہیں آپ ؐ کی ذات اقدس وہ ہستی ہے کہ جو وجہ تخلیق کائنات بنی
نور کا ایک سیل بے کراں تھا جو کہ ظلمت کے اندھیروں کو بہا کر لے گیا سیرت
و کردارؐ کے حوالے سے اور موجودہ حالات و واقعات و معمولات کے بارے چند
مشاہدات اور گزارشات عرض کرنے کیلئے قلم زنی کررہا ہوں ہمارے ہاں کچھ ایسی
باتیں روایات اور رسومات سرایت کرتی جارہی ہیں جن سے اجتناب برتنا ضروری ہے
مثلا ہم لوگ نماز جنازہ کے حوالے سے بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔کام
کاج ،کاروبار چھوڑ کر حتی کہ دوسرے شہروں کا سفر کرکے فرض کفایہ کی ادائیگی
کا تردد کرتے ہیں ہمارا مقصد اجر وثواب بھی ہوگا لیکن دنیا داری نبھانے کی
خاطر لواحقین کو چہرہ دکھانا زیادہ مطلوب ہوتا ہے حالانکہ ہی نماز وہ فرض
ہے کہ جسے اگر مرنے والے کیلئے اس کے جاننے یا نا جاننے والے چند لوگ بھی
ادا کرلیں تو پورے علاقہ شہر ملک حتی کہ دنیا کی طرف سے ادا ہوجاتی ہے اور
نہ پڑھنے والے کو کوئی گناہ نہیں ہوتا جبکہ وہ فرض عین جسے نماز کا نام دیا
گیا ہے اس میں ہم انتہائی سستی کاہلی لاپرواہی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے
ہیں جو کہ قطعا اور کسی بھی حالت میں قابل معافی نہیں۔ نماز جنازہ کیلئے
نماز فرض چھوڑ دیتے ہیں اور پھر ہم عشق رسول کا دم بھی بھرتے ہیں تو کیا
خیال ہے ہمارے اس عمل سے سرور دو عالم آقائے نامدار ﷺکی روح مبارک خوشی
محسوس ہوتی ہوگی۔ اسی طرح ایک شخص اپنے مالک سے اصرار کررہا تھا کہ مجھے
جلوس میلاد میں شرکت کرنا ہے چھٹی دی جائے وہاں پر موجود ایک اﷲ کے بندے نے
ملازم سے سوال کیا کہ بھائی آج آپ نے کتنی نمازیں ادا کی ہیں تو کہنے لگا
کہ وہ جی میرے کپڑے خراب ہیں میں نے کوئی نماز ادا نہیں کی۔ اﷲ اکبر!ہم کس
طرف جارہے ہیں کہ وہ اعمال جن کی شدت سے ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے نبی
مکرم ﷺ سے لیکر صحابہ کرام تابعین تبع تابعین ولی اﷲ علمائے تک کسی کو بھی
کسی بھی حالت میں معاف نہیں ترک کرنے کی اجازت نہیں ۔عشق نبی بلاشبہ روز
قبر اور روز قیامت شفاعت کا باعث بنے گا لیکن یہ شفاعت ایک حقیقی امتی ہونے
کی بنا پر مشروط ہے حقیقی اور سچا عاشق و امتی ہونے کیلئے ضروری ہے کہ
انسان اپنے محبوب کیلئے وہ تمام اعمال و افعال کرے جس سے اسے خوشی راحت اور
فرحت محسوس ہوتی ہو۔ہم سارا سال خلاف شرع امور سرانجام دیتے ہیں قطع رحمی
غیب سود زنا حرام خوری حقوق کا غصب کرنا بدزبانی کرنا صبرو تحمل کا دامن
چھوڑ دینا صوم و صلوۃ کی پابندی نہ کرنا اوامر سے پہلوتہی برتنا اور نواہی
کی طرف رغبت ہونا جیسے اعمال ہماری زندگیوں پر حاوی ہیں اور پھر زبان پر
عشق نبی ﷺکے دعوے بھی ہیں۔ نہیں نہیں ایسا عشق کسی کام کا نہیں۔ ہمیں اپنی
خواہشات اور معیارات اپنانے اور اختراع کرنے کی بجائے والی مدینہ، شہ ہر دو
سرا، سرور کائنات احمد مجتبی ﷺکی خواہشات اور سنن کے مطابق اپنی زندگیوں کو
کردار و اعمال کو کاروبار و معیشت کو سیاست و حکومت کو ، درس و تدریس کو
صحت و بیماری، معاشرت و سماجیات کوشادی بیاہ دکھ سکھ کو تعلیمات نبوی ﷺکے
مطابق ڈھالنا ہوگا-
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جی اس وقت کے حالات اور تھے اب کے حالات قطعی مختلف
ہیں ترجیحات بدل چکی ہیں زمانے یکسر تبدیل ہوچکے ہیں لیکن اگر بنظر غایت
دیکھا جائے تو جو اسوہ ہمیں دیا گیا ہے بتایا اور پڑھایا گیا ہے آج بھی اسی
طرح نافذ العمل کیا جاسکتا ہے آپ ﷺ کی بہت سی سنن ایسی ہیں جو صرف ہماری
توجہ اور غور کی طالب ہیں اور دور جدید کے مطابق ہے اور وہ سنن اگر ہماری
زندگیوں میں اب بھی شامل ہوجائیں تو اس سے زیادہ کامیابی اور رہنمائی کا
ذریعہ ممکن ہی نہیں۔چودہ سو سال قبل رہنمائی اوربہار کے خوشگوار جھونکے کی
مانند بعثت فرمانے والے ہستی نے اپنے کردار و سیرت کے ایسے خوشنما پھول
بکھیرے کہ دور جدیدمیں بھی اس کی کرنیں اسی طرح درخشندہ و جاویداں ہیں جسٹس
ریٹائرڈ محبوب احمد کے بقول’’ اس کائنات رنگ و بو میں بہت سی بہاریں مہکیں
اورخزاں کا شکار ہوگئیں بہت سے سورج ابھرے اور فنا کے گھاٹ اتر گئے بہت سے
چاند چمکے اور پھر گہنا گئے بہت سے پھول کھلے ، پھر مرجھا گئے ہاں ایک بہار
ایسی کہ جسے جان بہاراں کہیے خزاں اس کے قریب نہ آسکی ایک سراج منیر ایسا
کہ غروب کی سیاہیاں اس سے آنکھیں نہ ملاسکیں ہاں ہاں طلعت و زیبائی کا ایسا
پیکر کہ کوئی دھندلکا سایہ اس کے جلوؤں کو گہنا نہ سکا ایسا رشک گلستان کہ
جس کے تلوؤں کو چوم لینے کا شرف رکھنے والی پتیاں بھی مرجھانے سے محفوظ
رہیں وہ جان بہاراں سراج منیر بدر فلک رسالت فخر گلزار نبوت ہمارے آقا
ہمارے مولی ہمارے ہادی ہمارے رہبر حضرت محمد ﷺ ہیں جو ہرمومن کی نظر کا نور
وح کا قرار اور دل کاسرور ہیں‘‘ بقول شاعر
جب تک طلوع مہر رسالت ہوا نہ تھا
تہذیب زندگی سے کوئی آشنا نہ تھا
آدم سے لیکر حضرت موسی کے عہد تک
کس کی زباں تھی جس پہ تیرا تذکرہ نہ تھا
سبحان اﷲ میری جان میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔جب میلاد مصطفی ہوئی تو اس کی
منظر کشی مولانا شبلی نعمانی ؒ کچھ یوں کرتے ہیں’’اس رات کسری کے چودہ
کنگرے گر گئے آتش کدہ فارس بجھ گیا دریائے ساوہ خشک ہوگیا لیکن سچ یہ کے
ایوان کسری ہی نہیں بلکہ شان عجم، شوکت روم، او چین کے قصرہائے فلک بوس گر
پڑے، آتش کدہ فارس ہی نہیں بلکہ آتش کدہ کفر آذرکدہ گمراہی سرد ہو کر رہ
گئے صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی بت کدے خاک میں مل گئے شیرازہ مجوسیت بکھر
گیا نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کرکے جھڑگئے توحید کا غلغلہ اٹھا
چمنستان سعادت میں بہار آگئی آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئی،اخلاف
انسانی کا پرتو قدس سے چمک اٹھا یعنی یتیم عبداﷲ جگرگوشہ آمنہ اشہ حرم
حکمرا ن عرب فرماں روائے عالم شہنشاہ کونین ﷺ عالم قدس سے عالم امکان میں
تشریف فرما ہوئے‘‘ میری نبی کی خوبیاں اور اوصاف بیان سے باہر ہیں بقول
شاعر
تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا
ہوگئیں زندگیا ں ختم اور قلم ٹوٹ گئے
حاصل مضمون یہ ہے کہ حقیقی عاشق وہی ہے جواپنے محبوب کے کردار میں ڈھل جائے
اس کی شباہت اس میں نظر آئے اسے دیکھ کر اس کا محبوب یاد آجائے دعا ہے کہ
اﷲ باری تعالی ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے
جو راہ طریقت پہ ان کی چلا
اسے اپنی منزل کی حد مل گئی |
|