پاکستانی بن کے بھی دکھائیں

قائد اعظم محمد علی جناح ایک دن تقریر کرنے کے لیئے آنکھ میں لینز لگا رہے تھے کہ گر گیا، سامنے وایسرائے ہند لارڈ ماوئنٹ بیٹن بیٹھے تھے اور لینز گراسکی طرف کر چلا گیا، بیٹن صاحب کہنے لگے کہ جناح اپکو تو بڑا ناز ہے کہ میں کسے کے سامنے جھکتا نہیں آج اپکو لینز اٹھانے کے لیئے میرے سامنے جھکناہی پڑیگا اور لوگوں کو دکھائی دیگا کہ جناح بیٹن کے سامنے جھک گیا۔۔۔۔۔قائد کی غیرت دار طبیعت کیسے یہ گوارا کرتی کہ وہ مسلمانوں کا لیڈر ہو کے ایک بندے کے سامنے جھکے ، فورا اپنی جیب سے دوسرا لینز نکالا اور تقریر کرنے لگے۔۔۔۔یہ قائد اعظم کی خوداری کی ایک عمدہ مثال تھی۔ جو وہ ایک لینز کے لئے تک جھکنا گوارا نہ کیا۔۔۔

ڈاکٹر رحمان ملک کے نامور ڈاکٹرز میں شمار کیئے جاتے ہیں ایک صاحب ان کے پاس ائے اور اپنا مسئلہ اسکے سامنے بیان کرنے لگے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کی اسکا علاج یہیں پاکستان میں کرتے ہیں مگر وہ صاحب اعتبار نہیں کر گئے اور سیدھا باہر سے علاج کروانا بہتر سمجھا وہاں جاکر اس صاحب کو دھچکا سا لگا جب اسے وہاں کے ایک مشہور ہسپتال نے ڈاکٹر رحمان کو ریفر کیا جو وہاں پر ڈاکٹر کے طور پرکام کرتا تھا۔۔۔ یہ کیا تھا یہ باہر کی دنیا کا ایک پاکستانی پر اعتماد تھا جو ایک پاکستانی کا پاکستانی سے اٹھ چکا تھا ۔۔۔۔

آپ نے حال ہی میں برازیل میں ہونے والے فٹ بال وڑلڈ کپ دیکھی ہونگی اسمیں استعمال کی جانی والی فٹ بالز پاکستان کے شہر سیالکوٹ کی بنی ہوئی تھی اور اگر ہمیں مقابلے میں کسی دوسرے ملک کی فٹبالز رکھ دی جائے تو ہم بڑے فخریہ انداز سے باہر کے اشیاء کو ہی ترجیح دینے اور ایک ہمارے لہجے میں ایک غرور سا ، ایک اعتماد سا بھی ہوگا۔۔۔۔

یہ ایک فیشن سا بن گیا ہے کہ میں فلاں ملک کا سامان استعمال کر رہا ہوں حالانکہ وہ کوالٹی میں اتنی ذیادہ اچھی نہیں ہوتی اگر ہم اپنے مقامی مارکیٹ پر اعتماد کریں اور وہ ہمیں اعتماد کا موقع بھی دیں تو ہم میں بہت سارا پوٹینشل ہے، کہ ہم ان جیسی ہزاروں اشیاء کو عمدہ کوالٹی میں بنا سکتے ہیں جس سے ہم اپنے گاہک کو اعتماد میں لے سکتے ہیں، ملک کا پیسہ باہر جانے سے بچا سکتے ہیں،ہم اپنی جی ڈی پی بہتر بنا سکتے ہیں، ہم بے روزگاری میں کمی لا سکتے ہیں، امن کی فضاء کو ہوا دے سکتے ہیں، خوشحالی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں ، اپنے انے والوں نسلوں کو ایک بہتر فضا میں سانس لینے کا موقع دے سکتے ہیں،۔۔۔۔۔۔دوسری طرف باہر کیدنیا ان ہی پاکستانیوں سے کتنے فائدے لے رہی ہے۔۔۔ ہزاروں ،لاکھوں ڈاکٹر، انجنئیر،باہر کے ممالک میں اپنی خدمات سر انجام دے رہیں ہیں۔۔۔۔حتی کہ بم ڈسپوزیبل سکواڈ میں بھی پاکستانیوں پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔۔۔

ہم میں بہت سارا ٹیلنٹ بھرا پڑا ہے۔۔۔ اور اسی ٹیلنٹ کو مناسب حوصلہ کی بھی ضرورت ہے ، بہت سارے پاکستانی اپنے ملک ہی میں رہ کر پاکستان کی خدمات کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری گورنمننٹ انکو سما نہیں سکیتں ، ایسے لوگ پاکستان کے ہیرے ہیں ، انکو اپنے مٹی سے یقیننا پیا ر ، محبت،ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے لیکن بہت ساری مجبوریاں نے انکو دیار غیر میں پھنسا دیا ہے، انکی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے ان کو حل کرتے ہوئے انکا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے انکو اپنی ہی ملک میں مواقع دیئے جائیں۔۔۔ تاکہ وہ ایک خودار، باعزت، با اعتماد شہری بن سکیں، اور اس ملک کی ترقی میں بھر پور حصہ لیں۔

کل قائداعظم ایک لینز تک کے لیئے جھکنا گوارا نہیں کرتے تھے، کیونکہ اس نے اپنی انا، اپنی خوداری اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔۔ آ ج ہمارے لیڈرز اپنی انا ، اپنی خوداری بیچ کر کبھی امریکہ کے تلوے چاٹتے ہیں، کبھی بھارت سے بھیگی بلی بن جاتے ہیں، امت مسلمہ کی کھل کر حمایت بھی نہیں کر سکتے، اور ظالم کی کھل کر مسلمانوں پر ظلم کی مخالفت بھی نہیں کر سکتے ۔کیوں۔۔۔کیوں کہ ہم نے اپنے قائدین ، اپنے بزرگوں، اپنے ا سلاف کی ا قوال و افعال بھلا دیئے ہیں ۔جو اسلام ہمیں خوداری کا درس دیتا آیا ہے ، جو اقبال نے اسے سادہ لفظوں میں اتارا ہے، ہمیں اس خودی کو پیدا کرنا ہوگا، ہمیں باہم اعتماد کی فضاء بحال کرنی ہوگی، پھر دیکھتے ہیں کون ریمنڈ ڈیوس ولن کی طرح دندناتا پھرتا ہے۔۔۔ کون ہمارے فیصلے سمندر پار سے کرتا ہے،۔۔۔کون عافیہ صدیقی کو بھرسوں یرغمال رکھ کے وحشیانہ سلوک کرتا ہے۔۔۔کون امت مسلمہ کو باری باری ٹارگٹ بنا تا ہے۔۔۔

چلو دوسروں کی خطاوں کو فراموش کر کے آج اس مبارک مہینے سے ، جس میں قرار داد پاکستان منظور ہو ئی ، سے یہ عزم کریں کہ ہم اپنے ملک کو خودار بنائیں گے، اس ملک پر اعتماد کرینگے اور دوسروں کو اپنے اپ پر اعتماد والا بنائینگے۔اپنی ملک کی بنی ہوئی اشیاء کو ترجیح دیں۔چین ہم سے بعد میں آزاد ہوا آج وہ ترقی کے انتہا پر ہے، چینی بڑے خودار واقع ہوئے ہیں ، وہ کسی ناگہانی آفت پر کسی سے امداد لینا بھی نہیں لینا چاہتے، اسکی مصنوعات سے دنیا بھری پڑی ہیآج جو وہ ترقی کی راہ پر چل پڑے ہیں ، شائد اسکی ایک وجہ انکی خوداری بھی ہو۔۔ پاکستانی بنئیے اور بن کے بھی دکھایئے۔۔۔۔اپنی ملک ہی کی مصنوعات کو ترجیح دینی چاہیئے۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ کہ اعتماد کا فقدان ہے، گاہک کو اعتماد میں لینا ہوگا۔۔۔۔اور گاہک کو اعتماد کرنا ہوگا ۔اس سے ملک کا پیسہ ملک ہی میں چکر لگاتا رہیگا ،۔۔یہ ملک ہر طرح سے زرخیز ہے، اس کو ذرا سی '' نمی '' دے کر اپ ہزاروں من فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔وطن کی مٹی سے محبت کایہ ایک طریقہ ہے جس سے ہم اجتماعی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔۔

خدا کرے میرے ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے ،کھلا رہے صدیوں
یہاں سے خزان کو گزرنے کی مجال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا عوج کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے میرے ایک بھی ہم وطن کے لیئے
حیات جرم نہ ہو ذندگی وبال نہ ہو
MUHAMMAD KASHIF  KHATTAK
About the Author: MUHAMMAD KASHIF KHATTAK Read More Articles by MUHAMMAD KASHIF KHATTAK: 33 Articles with 80435 views Currently a Research Scholar in a Well Reputed Agricultural University. .. View More