اسلام کیسے پھیلا؟؟
(Muhammad Ilyas Ghumman, )
حیرت ہے کہ بعض لوگ ابھی تک یہ کہہ رہے ہیں
کہ اسلام کوتلوار کی قوت سے پھیلایا گیا ۔ کچھ عرصہ قبل جرمن یونیورسٹی میں
پوپ بینی ڈکٹ نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اسلام بزورشمشیر پھیلایا گیاہے
۔ اگرچہ اس اعتراض کا جواب اسرائیلی دانشور Arenry Un نے اپنے مضمون
Mohammads Sword میں تفصیل کے ساتھ دیا ہے :’’تلوار کے ذریعے دین )اسلام (پھیلانے
کی کہانی ایک گھڑی ہوئی بدترین روایت ہے ‘ ایک ایسا غیر حقیقی قصہ جو یورپ
میں مسلمانوں کے خلاف بڑی جنگوں‘ عیسائیوں کی اسپین کی بازیابی‘ صلیبی اور
ترکوں کی جو تقریبا ویارا کو فتح کرچکے تھے ‘ پسپائی کے دوران وضع کیاگیا۔“
اسلام کی حقانیت کی شہادت دیتے ہوئے تھامسن لکھتا ہے کہ ’’اس بات کو بہت
ہوا دی گئی کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دین کو تلوار کے ذریعے
پھیلایا ہے ۔ اگر دین تلوار کے ذریعے پھیلا تھا تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ
تلوار آئی کہاں سے تھی۔ ہر نئی رائے آغاز میں صرف ایک اکیلے شخص کے ذہن میں
جنم لیتی ہے ۔ ابتداء میں صرف ایک شخص اس رائے پر یقین رکھتا ہے ۔ ایک آدمی
ایک طرف ہوتا ہے اور ساری انسانیت دوسری طرف۔ ان حالات میں وہ اکیلا شخص
تلوار لے کر کھڑا ہوجائے اور اپنی رائے کی تبلیغ تلوار کے زور سے شروع کردے
تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکے گا۔ “(آن ہیروز اینڈ ہیروورشپ‘ ص 396)
اسلام وہ مذہب ہے جس نے اپنی حقانیت اور صداقت تھوڑے ہی عرصے میں سارے عالم
پر ثابت کر دی ہے ۔یہ جابرانہ قوت، حاکمانہ جبر واکراہ اور ظالمانہ طریقے
سے نہیں بلکہ اس نے اپنے ذاتی کمالات ، محاسن و اخلاق ، طریقہ تعلیم ، طرز
عمل اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کے بل بوتے ساری قدیم
و جدید روایتوں کا سینہ چاک کرتے ہوئے تہذیب و تمدن ، امن و سکون اور انصاف
و عدل کی ایسی بنیاد ڈالی کہ نوع بشر کی فکری ، روحانی ، بدنی اور مالی
حفاظت اپنے ذمہ لے لی ۔
سب سے پہلے اسلام نے جس جگہ ڈیرہ ڈالا وہ عربوں کے سنگ دل اور عرب کی
سنگلاخ زمین ہے جہاں ظلم و تشدد، وحشت وسربریت ، بدامنی و بے حیائی ، خوف و
ہراس محو رقص تھے ۔ انسانی جان ، عزت ،آبرو اور اس کے مال کو چاروں طرف سے
خطرات نے گھیر رکھا تھا ۔ اسلام نے آ کر ان سب کو محفوظ کر دیا ۔ پھر یہ
عرب کے کچے پکے گھروں میں داخل ہوتا چلا گیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے عرب کی
سرحدوں کو عبور کرتا ہوا روم ، شام ، مصر ، عراق اور دیگر بلاد عجم میں
فاتحانہ شان سے داخل ہوا ۔
عربی و عجمی ، کالے گورے ، حسب ونسب اور قومیت کے باہمی تفاخر کو پاؤں تلے
روند کر مسلسل آگے بڑھتا رہا۔ اسلام کا یہ سفر؛ بعض غیر مسلم مفکرین اور
تاریخ نویسوں کو ذہنی طور پر تھکاتا رہا ۔نتیجتاً انہوں نے اسلام کے محاسن
، تہذیب و تمدن ، اخلاق کریمانہ رواداری و محبت اور طریقہ تعلیم و تربیت کو
الفاظ کا ایسا لباس پہنایا کہ جس سے بددیانتی اور خیانت کی بو بلکہ بھبکے
آنے لگے ۔ اور یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی کہ اسلام نے جبر واکراہ کی
بدولت صدیوں کا سفر طے کیا ۔ دیگر اقوام کو تلوار کے زور پر اپنے زیر نگیں
کیا یہ تاریخ کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے ۔
اسلام اپنی ابتدائی عمر کے 13 سال مکہ کے ظالم سرداروں کے ہاتھوں ہونے والے
مظالم پر صبر کرتا رہا ۔ اس کے نام لیواؤں پر دھرتی کا ہر ظلم شکلیں بدل
بدل کر روا رکھا جاتا رہا ، آج تلک ملی کی سر زمین وہاں کے تپتے صحراء اور
پہاڑوں کے پتھروں مشرکین کے ظلم کی روداد سنا رہے ہیں ،انہوں نے اہل اسلام
کو ہر وہ دکھ دیا جو ان کے نفس کا خدا چاہتا تھا ۔ گھروں اور غاروں میں
روپوشی کے باوجود بھی جب مظالم کم نہ ہوئے تو ہجرت کے احکام اترنا شروع
ہوئے ۔ کبھی حبشہ اور کبھی مدینہ کے سفر ، تنگدستی ،عسرت اور جان لیوا
مصائب و تکالیف نے جینا مشکل کر دیا ۔
انہی حالات میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے مقدس مشن اسلام کو مسلسل آگے
بڑھاتے رہے ایام حج میں آپ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جو قبائل حج کرنے کے
لیے آتے آپ ان کو ملتے اور دعوت اسلام دیتے ۔ اسلام کی خوبیاں بیان کرتے
اور انہیں بتاتے کہ میں آخری نبی ہوں ۔ ایک بار مدینہ طیبہ کے چند لوگ آئے
آپ علیہ السلام نے حسب عادت شریفہ ان کے سامنے اسلام کے محاسن بیان کیے
چونکہ ان آنے والے لوگوں نے مدینہ کے یہودیوں سے یہ بات سن رکھی تھی کہ ایک
نبی عرب میں مبعوث ہونے والے ہیں انہوں نے آپس میں کہا کہ یہ وہی نبی ہے جن
کے بارے میں کتب سابقہ میں شہادتیں موجود ہیں یہ لوگ مدینہ طیبہ پہنچے آپ
علیہ السلام کا تذکرہ گھر گھر ہونے لگا ۔ آئندہ برس 12 آدمی مدینہ سے آئے
اور عقبہ پر آپ علیہ السلام کو ملے آپ نے ان کو دعوت اسلام دی انہوں برضا و
رغبت اسے قبول کیا ۔
آپ علیہ السلام نے اپنے جلیل القدر صحابی حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ کو
ان کے ساتھ روانہ فرمایا تاکہ وہ اہل مدینہ کو اسلامی احکامات کی تعلیم دیں
اور قرآن کریم سکھلائیں۔چنانچہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ مدینہ طیبہ
میں حضرت اسعد بن زرارہ رضی اﷲ عنہ کے ہاں مقیم ہوئے اہلیان مدینہ حضرت
مصعب کے اردگرد اسلام میں داخل ہونے اوردین سیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں
جمع ہونا شروع ہوگئے ۔ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر مدینہ طیبہ کے سردار
تھے انہیں یہ ناگوار گزرا ، غصہ آیا ۔ چنانچہ سعد نے اسید کو کہا کہ جاؤ ان
کو روکو اسید نے آکر حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ کو سختی سے کہا : تم
ہمارے نوجوانوں کو کیوں پھسلا رہے ہو؟ یہاں سے چلے جاؤ۔ حضرت مصعب رضی اﷲ
عنہ نے نہایت تحمل ، بردباری اور حوصلے سے جواب دیا کہ آپ ہماری بات سن لیں
اگر پسند آئے تو قبول کر لیں ۔ اسید نے کہا کہ ٹھیک ہے سناؤ ۔ تم ان کو کس
چیز کی تعلیم دے رہے تھے ؟ حضرت مصعب رضی اﷲ عنہ نے اسلام کی خوبیاں اور
احکام بیان کیے ۔
ان کو سن کر اسید ؛ حضرت اسید رضی اﷲ عنہ بن گئے ۔ اور کہا کہ مدینہ طیبہ
میں ایک سردار اور ہیں اگر وہ مسلمان ہوگئے تو سمجھو کہ پھر کوئی بھی اسلام
سے خالی نہ رہے گا ۔ اتنی بات کہہ کر حضرت اسید واپس لوٹ گئے ۔ سعد نے دور
سے دیکھتے ہی اندازہ لگا کر کہا کہ اسید پہلے جیسا نہیں لگ رہا ۔ حضرت اسید
نے آکر سارا معاملہ بتایا اس کے بعد حضرت سعد بھی آکر حلقہ بگوش اسلام
ہوگئے ۔
شام ڈھلی ……حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے اسید رضی اﷲ عنہ کو اپنے ہمراہ لیا اور
اپنی قوم کو اکٹھا کر کے فرمایا تم مجھے کیسا سمجھتے ہو؟ سب نے بیک زباں ہو
کر کہا : تم فضیلت والے ہو ہمارے سردار ہو ۔ حضرت سعد نے فرمایا کہ جب تک
تم قبیلہ بنی عبدالاشہل والوں میں سے کوئی ایک بھی مسلمان ہونے سے باقی رہا
میں تمہارے مردوں اور خواتین سے گفتگو کرنا حرام سمجھتا ہو۔ یہ بات سننی
تھی کہ سارا قبیلہ مشرف باسلام ہوگیا ۔ حضرت مصعب مسلسل اسلام کی تبلیغ و
تلقین میں مصروف عمل رہے اور انصار کے اکثر قبائل میں اسلام پھیل گیا ۔
آئندہ برس مدینہ کے 70 مسلمان ذوالحجہ کے مہینے میں مقام عقبہ پر حضرت رسول
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم آپ کی ایسی
حفاظت کریں گے جیسے ہم اپنے بچوں اور عورتوں کی کرتے ہیں ۔ دو ماہ بعد ربیع
الاول میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔
ہجرت سے پہلے پہلے مدینہ طیبہ میں اسلام مستحکم ہو چکا تھا ۔ یہاں کے
باسیوں کو کسی نے زبردستی تلوار کی نوک پر مسلمان ہونے کے لیے مجبور نہیں
کیا تھا ۔یاد رکھیں اسلام چودہ صدیوں سے جیسے پھیل رہا ہے ویسے ہی پھیلتا
رہے گا ۔ یہ تشدد پسند مذہب نہیں بلکہ امن پسند دین ہے ۔ باقی اس میں بھی
کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہر مذہب اور اسلام نے بھی اپنی حفاظت کے لیے تلوار
کا سہارا لیا ہے تاکہ کوئی اسے تر نوالہ سمجھ کر ختم کرنے کی جسارت نہ کرے
اور جو لوگ اپنی سازشوں سے اسے نقصان پہنچانے کے مذموم منصوبے بنا رہے تھے
اور آنے والے وقت میں اس چراغ کو گل کرنے کے تانے بانے بن رہے تھے اسلام نے
آگے بڑھ کر ان کے عزائم کو ناکام بنایا ہے ۔ |
|