خدمت اور صحت کارڈ قابل تحسین اقدام مگر
(abdulrazzaq choudhri, lahore)
پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کی کل آبادی
کا لگ بھگ دس فیصد حصہ معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ وطن عزیز میں کم و بیش
تین اعشاریہ پانچ بلین افراد سے زائد کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں
جس میں گونگے،بہرے۔پاگل،نابینے اور دیگر اقسام کی معذوری شامل ہے۔اس قسم کی
درپیش صورتحال میں حکومت پنجاب کا خصوصی افراد کے لیے ایک ایسا پروگرام
ترتیب دینا جو خصوصی افراد کی زندگی میں بدلاو کا باعث بن سکے قابل تحسین
اقدام ہے ۔حکومت پنجاب کے مطابق حکومت نے ایک ایسا پروگرام ترتیب دیا ہے
جسے خدمت کارڈ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کے تحت پنجاب حکومت مستحق خصوصی
افراد کی مالی معاونت،مفت فنی تربیت ااور بلا سود قرضوں کی فراہمی کے لیے
ایک کارڈ جاری کرے گی جس سے معذور افراد کو ملک کا فعال اور مفید شہری بننے
میں بھر پور مدد ملے گی۔اس مقصد کے حصول کی خاطر پہلے مرحلے میں دو ارب
روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس سے دو لاکھ کے قریب مستحق خصوصی افراد
مستفید ہوں گے۔ہر خصوصی فرد کو چھتیس سو روپے سہ ماہی ادا کیے جائیں گے تا
کہ وہ معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے اپنے پاوں پر کھڑا ہو سکے۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں خصوصی افراد کو وہ عزت و تکریم حاصل نہیں ہے
جو مقام خصوصی افراد کو مغربی ممالک میں حاصل ہے حالانکہ خصوصی افراد سے
متعلق اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں اور کسی تشریح کی محتاج نہیں
ہیں۔اسلام نہ صرف انسانیت کے احترام پر زور دیتا ہے بلکہ وہ خصوصی افراد پر
بھی بھرپور توجہ دینے کا درس دیتا ہے۔عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے
معاشرے میں معذور افراد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور انہیں عملی زندگی
میں ناکام تصور کر کے اس توجہ سے محروم کر دیا جاتا ہے جس توجہ کے وہ حقیقی
طور پر مستحق ہیں۔یہی سبب ہے کہ معذور افراد اپنی صلاحیتوں کے بھرپور جوہر
دکھا نہیں پاتے اور ان کی توجہ صرف بہن بھائیوں کی خدمت تک ہی مرکوز رہتی
ہے جو کہ سراسر ان کے ساتھ ناانصافی ہے اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے
مترادف ہے ۔تاریخ انسانی گواہ ہے جب بھی معذور افراد پر توجہ دی گئی اور
انھیں زندگی کی دوڑ میں برابر مواقع دیے گئے انھوں نے اپنی صلاحیت کا
بھرپور لوہا منوایا اور بعض مواقعوں پر تو کارکردگی کے اعتبار سے توانا و
تندر ست افراد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اگر خصوصی افراد کو درپیش مسائل پر
اک سرسری نظری دوڑائی جائے تو یہ واضح دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں
خصوصی افراد گونا گوں پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں جس میں سب سے اذیت ناک
پہلو یہ ہے کہ معذور افراد کی شادی بیاہ کے معاملات بڑی پیچیدہ صورتحال
اختیار کر گئے ہیں ۔ عمومی طور پر معذور فرد کی شادی سے اجتناب برتا جاتا
ہے اور عورتیں بالخصوص اس ناانصافی کا زیادہ شکار ہیں اور یہ خواتیں صرف
اپنے خاندان کی خدمت پر ہی مامور رہتی ہیں۔ حکومت کو اس نا انصافی کی جانب
بھی توجہ دینی چاہیے اور جہاں تک ہو سکے اس مسلہ کے حل کی کوئی تدبیر
ڈھونڈنی چاہیے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت کے ایک خوش آئند اعلان کے مطابق غربت کی آغوش میں
پلنے والے خاندانوں کے لیے صحت کارڈ کا اجرا کیا گیا ہے جس سے پاکستان میں
مقیم بتیس لاکھ خاندان مستفید ہوں گے ۔اس پروگرام کے تحت غریب اور مستحق
افراد سات مہلک ترین بیماریوں کا علاج سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں مفت
کروا سکیں گے اور اس مد میں ہر غریب خاندان کے لیے سالانہ تین لاکھ روپے
مختص کیے گئے ہیں ۔اگرچہ یہ پروگرام اپنی افادیت کے لحاظ سے بڑی اہمیت کے
حامل ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جس کے
ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے وہ کون مہیا کرے گا۔
ہم ایک ایسے ملک میں مقیم ہیں جس کے ہسپتالوں میں ایک بستر پر تین مریض
موجود ہیں اور وارڈز بھیڑ بکریوں کے باڑے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ہم ایک
ایسے ملک میں قیام پذیر ہیں جہاں کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز ڈیوٹی دینے سے
گریزاں ہیں اور مریضوں کو اپنے ذاتی کلینک کی راہ دکھاتے ہیں۔اس بیان کردہ
صورتحال کا مذید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عرض کردہ حقائق کا تعلق ملک کے کسی
دور افتادہ علاقے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق تو لاہور جیسے ماڈرن شہر سے ہے
۔آپ کسی دن لاہور شہر کے معروف ہسپتالوں کا وزٹ کیجیے بیان کردہ یہ صورتحال
آپ کی آنکھوں کے سامنے عملی صورت میں رقص کناں ہو گی۔ہسپتالوں کی حالت زار
اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ احاطہ تحریر میں لانا مشکل دکھائی دے رہا ہے
۔سہولیات کی عدم فراہمی کی بدولت درجنوں بچے روزانہ کی بنیاد پر دم توڑ رہے
ہیں ۔حضور والا ایسی صورتحال میں جب مریضوں کے علاج کے لیے آلات میسر نہیں
ہیں۔ جب سہولیات ناپید ہیں تو میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان مریضوں کا علاج
کیسے ممکن ہو سکے گا۔ وہ کون سا الہٰ دین کا چراغ ہے جس کو رگڑنے سے ان کی
بیماری دور ہو جائے گی جب علاج میں استعمال ہونے والی مشینیں ہی ناکارہ پڑی
ہیں۔ ادویات ناکافی ہیں۔ ڈاکٹرز پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے غافل ہیں ان
مسائل کی طرف کس نے توجہ کرنی ہے۔ ان مستقل نوعیت کی مہلک بیماریوں سے نجات
کے کس نے اقدامات کرنے ہیں۔میرا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ صحت کارڈ اور خدمت
کارڈجیسے پروگرام نہیں ہونے چاہییں۔ ان کی افادیت پر سوالیہ نشان نہیں ہے
بس عرض یہ ہے کہ ایسے منصوبے جو محض عارضی ریلیف کا سبب ہیں اور پائیداری
کے اعتبار سے ناقص ہیں ان کی بجائے ایسے اقدامات کا جال بچھایئے جس سے آنے
والی نسلیں بھی استفادہ کر سکیں۔ہسپتالوں میں ہر قسم کی سہولت کی جانب توجہ
دیں ۔ ڈاکٹرز کو ڈیوٹی کا پابند بنائیں۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں اور
پھر ان کو ذاتی کلینکس پر پریکٹس کرنے کی اجازت نہ دیں۔حضور والا ہزراروں
لوگ روزانہ ملک کے دور دراز علاقوں سے علاج معالجہ کی غرض سے لاہو ر آتے
ہیں اور ہسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کی بنا پر مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں
۔ان کا مریض یا تو رستہ میں دم توڑ دیتا ہے یا پھر کچھ دن ٹھہر کر دیہات
میں ہی سسک سسک کر جان کی بازی ہار جاتا ہے ۔ خدا کے لیے ان ہسپتالوں کو
وسیع کرنے کی کوئی تدبیر سوچیے تاکہ دوردراز سے آنے والے مریض کا بر وقت
علاج ہو سکے اور اس کے لواحقین بھی ذلیل و خوار ہونے سے محفوظ رہیں۔اگرچہ
صحت کارڈاور خدمت کارڈ موجودہ حالات کے تناظر میں وقت کی ضرورت ہیں تاہم اب
حکومت کو چاہیے کہ وہ ان پروگرامز پر عمل درامد کے حوالے سے بہترین
انتظامات کرے اور ان کی نگرانی ایسے افراد کے ذمہ لگائی جائے جو ایمان داری
اور حب الوطنی میں اپنی مثال آپ ہوں تاکہ ان پروگرام کے ثمرات کی غریب اور
مستحق افراد تک رسائی ممکن ہو سکے ۔ |
|