بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

دل ارمانوں کی نگری ہوا کرتے ہیں ۔ان میں خواہشوں کے شہر بسے ہوتے ہیں۔اور اگر یہ شہر اور نگر وفود ایمان سے لدے ہوں تو زبانوں پر حق اور سچ اگنے لگتا ہے ۔ پھر سچے جذبے بول اٹھتے ہیں ،پھر نازک اندام عورتیں بھی خوف و خطرہ کو اتار پھینک کر اپنی چاہتوں کا برملااعلان کرتی ہیں ۔ بے لوث ایمانی جذبات کی حرارت اور انمول تعلقات کی تمازت لیے ہر بات دل میں اتر جاتی ہے ۔ پاکستان کی محبت کے احساسات کے تموج سے مزین یہ ترانہ شاعری کی کسی بھی صنف سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ تو شاعری کے قریب قریب بھی کوئی شے نہیں ہے۔ جس نے بھی یہ ترانہ لکھنے کی جسارت کی ہے اس نے کسی سر ،لے اور دھن کو زہن میں رکھ کر لفظ کر جوڑ دئیے ہیں یہ ترانہ جو کشمیری لڑکیوں نے جذبات میں ڈوب کر پڑھا ،انسانیت سوز مظالم سہتے وہ شرم و حیا سے لدے آبگیلے جو بلند حوصلگی اور بلند ہمتی کی ایک ایسی تابندہ مثال ہیں کہ شاید اتنے طویل عرصے تک کسی نے بھی یو ں دردوالم جھیل کر اپنے جنون اور وفاکشی کو نبھایا ہو۔ ان کے دل کے صحنوں میں پاکستان کی محبت کے پھول یوں مہکتے ہیں کہ آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہیں۔

پہاڑوں سا عزم اور استقامت رکھنے والی ان ذی وقار خواتین کے لبوں پر یہ ترانہ ’’نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے ‘‘دلوں کو جھنجھوڑ رہا ہے ۔مکمل طور پر برقع میں ملبوس اور اس پر مستزادپاکستانی پرچموں کی چادر ان کی پاکستان اور اسلام کے ساتھ بے پایاں محبت کی آئینہ دار ہے ۔ میرا مطلوب ان اشعار کو شاعری کے قواعد کسی بحر، علم، تقطیع، ردیف، قافیہ سمیت دیگر عروضی قوائد کے پلڑے میں ڈال کر ان کا وزن اور چھان پھٹک کرنا ہر گز نہیں ہے کیونکہ یہ محض جذبات کا اظہار ہے جو دل کی گہرائیوں سے اس طرح نکلے ہیں کی دلوں کو ہلادیتے ہیں ۔اگرچہ یہ ترانہ شاعری کی کسی بحر کی ربط و ضبط کو قدغنوں سے مکمل طور پر آزاد ہے مگر کشمیری بہنوں کی زبانوں سے یوں لفظ لفظ ادا ہوتا ہے کہ جو بحر قلب و جگر میں تلاطم برپا کر دیتا ہے اتنا خلوص اس قدر وارفتگی اور اس قدر جنون کی وہ خواتین آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے زیر تسلط علاقے میں پاکستانی پرچم تھامے اور مکمل حجاب پہنے ہوئے دو قومی نظریے کو پاکستان کی بقا اور سلامتی کا ضامن بتلا رہی ہیں ۔ جی ہاں یہ انہی درد کے مارے گھرانوں کی خواتین ہیں جن کے والدین کو سفاکیت کے ساتھ ماردیا گیا۔ یہ انہی خاندانوں کی شہزادیاں ہیں جن کے بھائیوں کو بھارتی فوجی اٹھالے گے اور برسوں بیت جانے کے باوجود وہ گھر لوٹ کر نہیں آئے ۔یہ وہی بے بس بہنیں ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں وہ قرض اتارے ہیں جن کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔لیکن قربانیوں کے جاں سوزسلسلوں سے گزر کر بھی ان کے دلوں میں پاکستان کی محبت میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے ۔ ان کی محبتوں کی درخشندگی ہے کہ یہ پاکستان کی تحمید اور توصیف میں ترانے پڑھتی ہیں ۔خدایا یہ کیسی محبتوں کے دیپ جلائے بیٹھی ہیں ۔ کہ ان کے سہاگ اجڑ گئے ۔ ان کی ہری بھری گودسے بچے چھین کر دردوالم جھولی میں بھر دئیے گئے ۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ مصائب و آلام کی آماجگاہ بنا دیا گیا،مگر آفرین ہے ان کی چاہتوں کی حلاوت اور نظافت پر تحسین ہے ان کی استقامت اور شہامت پر،بے پایاں داد ہے ان کی ہندوؤں کے خلاف عداوت اور بغاوت کے جذبات پر کہ گولیوں کے سامنے بھی پاکستان زندہ با د کے نعرے لگاتی ہیں چاہتوں کے یہ اندازتو کسی افسانوی اور رومانوی لوک کہانی میں بھی دکھائی نہیں دیتے۔

ناظرین میں آپ کو بتا تا چلوں کہ ا س وقت اسلامک ریلیف اینڈ ریسرچ ٹرسٹ کے مطابق مقبوضہ وادی میں بیواؤں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ چکی ہے ۔ جن میں بارہ ہزار نیم بیوائیں کہ جن کو برسوں گزر جانے کے باوجود آج تک پتہ نہیں چلا کہ ان کے سہاگ زندہ بھی ہیں یا آزادی کی گزرگاہوں میں ظلم سہتے دفن ہو گئے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ دولاکھ پچیس ہزارسے زائد بچے یتیمی کی زندگی میں دھکیل دئیے گئے اس قدر گمبھیر اور دل گیر قربانیوں کے موزی سلسلوں سے گزر کر بھی ان کے دلوں میں اہل پاکستان کی محبت ہمکتی اور دمکتی رہی،یہ دندناتی فوج کے سامنے گولیاں اگلتی بندقوں کے مقابل سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔جذبوں کی اس بے کرانی تو شاید ہم پاکستانیوں کے سینوں میں بھی نہ ہو کہ اسلحہ اور بارود کے سامنے بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہکلاتے بھی نہیں ۔کشمیر کی سر سبز سحر انگیز وادیوں میں بلبلیں اور قمریاں نواسنج ہوتی ہیں جو دلوں کوموہ لیتی ہیں ۔ کشمیر کا چپہ چپہ دل لگی اور دل بستگی کی بے شمار رونقین پیش کر رہا ہے ۔

مگر میری بات پھر بھی ان کشمیری بہنوں اور بیٹیوں کی طرف ہے جن کی زبان پر پاکستان کی ایسی محبت دکھائی دیگی جو شا ید دنیامیں کہیں بھی نہ نظر نہ آئے ۔ ان ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے دلوں کی منڈیروں پر ہماری محبتوں کے ایسے گلاب دکھائی دیں گے جو ہمارے بعض مصلحت کیش لوگوں میں بھی نظر آتے ۔ لاریب جسموں کو زنجیر بپا کیا جا سکتا ہے ہاتھوں اور پاؤں میں بیڑیاں پہنائی جاسکتی ہیں مگر جذبوں کو پابند سلاسل نہیں کیا جا سکتا ۔یہاں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اہل کشمیر کی محبت کو سمجھ ہی نہ پائے ۔ وہ صبح سے لے کر شام تک نقدوجرح کے پاپڑ بیلتے رہتے ہیں وہ ہر وقت یہی پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ کشمیر ی سپوتوں کے معرکوں سے اہل کشمیر عاجز آچکے ہیں ۔ ایسے لوگ مسرت عالم کو دیکھ لیں جو لاکھوں کے مجمع کے سامنے ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کے نعرے لگاتا ہے ۔ اگر پھر بھی کشمیریوں کے دلوں کی آوازسمجھ نہ آئے تو کشمیری بہنوں کی زبانوں پر وہ ترانہ سن لیں جو انہوں نے چودہ اگست کے دن پڑھا ہے خدا کے لئے اب تو ان ماؤں بہنوں کے حق میں اپنی آواز بلند کیجئے اب تو مذموم پروپیگنڈا مہم کو بند کر دیجئے کہ وہ مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں زبان حال سے فریاد کناں ہیں ۔
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زباں میں کیا ؟
 
Muhammad Riaz Prince
About the Author: Muhammad Riaz Prince Read More Articles by Muhammad Riaz Prince: 107 Articles with 93001 views God Bless You. Stay blessed. .. View More