نیا سال نئے تقاضے

بقول شاعر
زندگی درد کے طوفان میں بیت گئی
آرزو ہے میری کشتی بھنور سے نہ گذرے
کیا خبر کسی کو ہمارے دل کی
ہر دن ہر لمحہ بیقراری سے گذرے
31دسمبر کی وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے جب احسن ، ندیم اور میں مال روڈ پر رات تقریبا 11 بج کر 55 منٹ پر جی پی او چوک میں اکٹھے ہوئے تھے ۔ دوپہر کا کھانا بھی احسن کے گھر کھایا اور پروگرام بنایا کہ اس بارنئے سال کو کس انداز سے خوش آمدید کرنا ہے ، کاش اُس دن ہم ندیم کی بات مان لیتے تو آج اس حال میں نہ ہوتے ، میں نے کہا آج رات ہم مل کر کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھایں گے اور واپسی پر پاک ٹی ہاؤس چائے کی چسکیوں سے نئے سال کو خوش آمدیدکہیں گے اس پر ندیم نے کہا نہیں ہم اس بار ہمارے گھر اکٹھے ہونگے اور امی کی ہاتھ کی تلی ہوئی مچھلی اور گرما گرم سوپ پئیں گے اور گھر کے احباب کو ساتھ ملا کر خوب ہلہ گُلہ کرکے نئے سال کو خوش آمدید کہیں گے لیکن میں اور احسن بضد تھے نہیں ا س بار ہم باہر جاکر ہی انجوائے کریں گے۔بس پھر کیا تھا ہم نے اپنی اپنی موٹر سائیکل لی اورجی پی او چوک میں اکٹھے ہوگئے اس بار ہم بجائے خوش ہونے کے بہت دکھی تھے ہماری ساری خوشیاں ماند پڑ گییں، ہم تینوں دنیا سے بے خبر جیسے ہی 12 بجے ایک بلند نعرہ لگایا ہیپی نیو ائیر(Happy New Year) اور موٹر سائیکل کو کِک مارتے ہوئے تیزی سے اپر مال کی طرف دوڑنے لگے ، میں نے دونوں دوستوں کو منع کیا ہم میں سے کوئی بھی ویلنگ نہیں کرے گا مگر جوانی کی مستی میں چور ہم کہاں ماننے والے تھے ، جب ہم نہر پر پہنچے تو احسن نے کہا آؤ تھوڑی ویلنگ کر لیں ندیم بار ہا منع کرتا رہا مگر میں اور احسن دونوں نے تیز دوڑاتے ہوئے ویلنگ شروع کر دی کیا خبر تھی آج کی یہ غلطی زندگی بھر کا روگ بن جائے گی ابھی تھوڑا ٓگے ہی گئے تھے کہ احسن کی موٹر سائیکل فٹ پاتھ سے ٹکرا گئی اور وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور ہمارے سامنے ہمارا دوست دم توڑ گیا اور اس طرح زرا سی لا پرواہی کی وجہ سے ہم اپنے بچپن کے جگری دوست کو کھو دیا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے جوانی کے نشے میں چور نہ جانے کتنی ماؤں کے لخت ِجگر اس رات جُد ا ہو جاتے ہیں خوشیاں غم میں بدل جاتی ہیں کہتے جانے والا تو چلا ہی جاتا ہے مگر اس ماں سے پوچھیں جس نے ایک ایک دن اپنے بیٹے کو بڑا ہوتا دیکھا ہوتا ہے اس بوڑھے والد سے درد وچھوڑا پوچھیں کیا ہوتا ہے جو اسے لمحہ لمحہ جوان ہوتے دیکھتا ہے اور زندگی بھر اسے رلاتا ہے اس بہن سے پوچھیں جس کی کتنی خواہشیں دم توڑ جاتی ہیں بہن کے کتنے خواب چکتا چور ہو جاتے ہیں ۔بقول شاعر:۔
رخصت ہوا جو سال تومحسوس یہ ہوا
ہر ماہ حسرتوں کالہو چوستا رہا۔

نیا سال ہمیشہ ایک نئے عہد کا تقاضہ کرتا ہے اس وقعہ سے ہمیں خاص کر نوجوانوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ایسے واقعات محض کہانیاں نہیں ہوتے بلکہ ان کے اندر ایک سبق ہوتا ہے اور ہمارے نوجوانوں کو اپنی زندگی کے ساتھ جُڑے ہوئے لوگوں کا بھی خیا ل رکھنا چاہئے کہ ان کی زرا سی لا پرواہی ان کو اور ُا ن کے والدین کے لیئے کتنی ازیت کا سبب بنتی ہے ۔کوئی بھی ایسا کام کرنے سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہیے کیا یہ کام اسلا م کے منافی تو نہیں اگر منافی ہے تو اس کے کرنے سے دینا اور آخرت دونوں برباد نہ ہو جایں جو لوگ اسلام کے مزاج سے واقف ہیں اُن کو ویسے بھی پتہ ہے بطور مسلم ہمارا نیا سال کب شروع ہوتا ہے لوگ اپنے کیلنڈر کی بنیا د کسی ایسے واقعے سے لیتے ہیں جو ان کے لیئے اک نئی تاریج رقم کرے کیونکہ عیسوی سال کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش سے لی جاتی ہے اور ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش ایک تاریخی اور معجزانہ واقعہ ہے ۔اسی طرح ہمارے سا ل کے آغاز بھی تاریخی حثیت رکھتا ہے اسلام مقاصد کا دین ہے اور مقاصد کے حصول پر ہی زور دیتا ہے یہ پیدایش ،ا موات یا واقعات کو اہمیت دینے کا دین نہیں اسلام میں اہمیت ان مقاصد کی ہے جو حضور ﷺ اور دوسر ے انیباء علیہ السلام نے حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر چیز کی قربانی د ے کر حاصل کی اور اﷲ تعالیٰ نے جتنے تہوار عطا کیے ان کے پیچھے ایک قربانی چھپی ہوتی ہے عید الفطر تقوی ٰ اور ہدیت ملنے کی خوشی کا نام ہے عید ِقرباں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماٰعیل علیہ السلام کی اﷲ کی محبت میں عظیم قربا نی کا نام ہے لیلتہ القدر کتا بِ ہدایت ملنے کی خوشیاں منانے اور اﷲ کا شکر بجا لانے کی رات ہے یعنی جس اہم دن اور رات پر غور کر لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ مقاصد ِ دین کو حاصل کرنے کے ہی متعلق ہو گی چونکہ دین اسلام کی اصل ہی ان کا مقا صد ہے جن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ دین عطا کیا۔

اسلام ہمیں نیکی اور پرہیزگاری کا درس دیتا ہے ، اسلام کی ابتداء ہی قربانی سے ہوئی ہمار ا نیا سال محرم کے مہینہ سے شروع ہوتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس مہینہ میں ایک عظیم قربانی نواسہ ِرسول ﷺ نے دی اور یوں آ ج یہ دین ہم تک پہنچا مگر افسوس ہم غیر کے طریقہ پر چل پڑے اور اسلامی اقدار کو بھُلا بیٹھے نیو ائر نایٹس (new year nights)منائی جاتی ہیں جہاں قوم کی بیٹیوں کی عزتوں کی بولیاں لگتی ہیں شراب اور رقص و سرور کی محافل کا بند وبست کیا جاتا ہے اور اسلام اقدار کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے اور لوگ بڑے فخر سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں ۔ آج ہم گناہ کو گناہ بھی نہیں سمجھتے بلکہ ایسے کام کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں ، ہم تو اتنے لاپرواہ ہو گئے ہیں اور آخرت کو تو جیسے بھول ہی گئے ہوں ، نیوائر نائٹ تو کیا ہم تو 12ربیع الاول کی رات کو بھی نیوائر نائٹ سمجھ کر گذارتے ہیں اسلام میں بازار کو اچھی جگہ نہیں کہا گیا اور اسی رات دیکھا گیا ہے کہ ہمارے نوجوان ہندی گانوں پر رقص کر رہے ہوتے ہیں اور جو ہماری مایں بہنیں دیکھنے جاتی ہیں ان کی عزتوں کے ساتھ بھی مزاق کیا جاتا ہے ۔ کیا اسلام ہمیں یہ سبق دیتا ہے ۔ ڈھول کی تھاپ پر کیک کاٹا جاتا ہے خیر میرا مقصد نئے سال پر کچھ کہنا تھا۔اس رات ہوٹلوں میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور بکنگ بھی مہنگی ہونے کے باوجود رش لگا ہوتا ہے ۔ آج ہمارا دشمن ہمیں کمزور کرنے کے لیئے نئے نئے حربے اختیا ر کر رہا ہے اور بظاہر لگتا بھی ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو رہا ہے ہماری نئی نسل اس بے راہ روہ کا شکا ر ہو رہی ہے ، رات کو ویلنگ کرنا ، راتوں کو دیر سے گھر آنا معمو ل بن گیا ہے ۔ اگر کسی کو کوئی نصیحت کی جائے تو اسے دکیا نوس کہتے ہیں اگر کوئی نماز پڑھنے کی تلقین کرے تو اسے پینڈو یا مولوی کہ دیا جاتا ہے ۔اگر کسی بہن کو دوپٹہ لینے کا کہا جائے تو بجائے بات ماننے کے کہتی ہیں آپ کو اسلام کی زیادہ سمجھ ہے ۔ معاشرہ اس قدر تباہی کی طرف جا چکا ہے کہ اگر کو ئی نیکی کی یا ہدایت کی بات کرے تو اسے غلط سمجھا جاتا ہے ۔ایسی صورت حال میں ہم قصور وار حکوتوں کو سمجھتے ہیں حالانکہ بطور انسان اور سب سے بڑی بات بطور مسلمان ہم سب کی زمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد ماحول پرنظر رکھیں ۔ معاشرے کو درست کرنے کا کام سب سے پہلے اپنے گھر سے شروع کرنے کی ضرورت ہے اور اس بھی کہیں زیادہ ہمین کو اپنے آپ کو درست کرنے کی ضرورت ہے ہمیں اﷲ نے اپنے گھر کا سربراہ مقرر کیا ہے اور ہم سے روز قیامت اس کیا حساب مانگا جائے گا۔ ہماری بیٹی ، بہیں گھر سے تیار ہو کر جاتی ہے ہمیں پتہ ہونا چاہیے وہ کہا ں جا رہی ہے ہمیں ان کے دوستوں کا پتہ ہونا چاہیے ۔ ہماری اولاد ہمارا کل ہیں اور اگر آج ہم نے اپنے کل کو درست نہ کیا تو کل بہت بھیانک ہو گا۔
اور احسن جیسے ویلنگ کے واقعات ہوتے رہیں گے اور ماؤں کے لخت جگر فٹ پاتھوں پر مرتے رہیں گے۔ہمیں سوچنا ہوگا کب دن ہو گاکیونکہ دن نہیں ہورہا۔ آؤ اک وعدہ کریں
گذرے ہوئے لمحوں کو بھول کر نیک تمناؤں کے ساتھ امن کی اک مثال قائم کریں
آؤ مل جُل کر اک اچھے سال کا آغازکریں
M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 54946 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More