پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں۔۔۔۔

بہر حال ایک سال گزر گیا زندہ رہے تو دوسرا بھی گزرجا ئے گا جیسا بھی گزرے اور جس طرح بھی گزرے اس کا احسان ہما رے حکمرانوں کو ہے جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے ہم پر مسلط ہیں۔ کراچی میں آپریشن جاری رہا اور دوسری طرف متحدہ تمام الزامات کے باوجود ضمنی الیکشن اور بلدیاتی الیکشن میں سرخرور رہی جبکہ دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ ،حادثات و سانحات میں ہزاروں بے گناہ افراد اپنے پیاروں سے بچھڑ کر ان کے آنکھوں میں آنسواور دلوں میں غم چھوڑ گئے اگر وطن عزیز کی ترقی اور معاشی خوشحالی پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ان پر تیرگی چھائی رہی اور کوئی قابل ذکر کارنامہ دکھائی نہیں دییا اور محلوں میں رہنے والے جھونپڑیوں کے با سیوں کو تسلیا ں دیتے رہے ،حکمران پہلے کی طرح ترقی ،خوشحالی اور عوامی بہتری کے دعوے کرتے نظر آئے اور سب اچھا ہے کا راگ آلاپتے رہے ،لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں معاشی ترقی کا جائزہ لیا جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں امیر لوگ امیر ترین ہوتے جارہے ہیں جبکہ غریب پہلے سے زیادہ غریب ہوتے جار ہے ہیں بے روزگاری،مہنگائی اور غربت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے اور ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے حکومت نے ابھی تک کوئی ایسا روڈ میپ نہیں بنایا جس پر چل کر نئی آنے والی جنریشن کو بہترین مواقع مل سکیں ابھی تک کسی بھی شعبے میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لا سکے اور نہ ہی نئے سال کیلئے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے ،صرف و صرف پنچاب میں ٹرانسپورٹ کے نظام پر فوکس کیا جارہا ہے میٹرو کے بعد اورنج بس سروس کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں حکومت و قت جس طر ح اربوں ڈالر میٹرو بس اورحالیہ منصوبہ اورینج میٹرو ٹرین کیلئے وقف کر رہی ہے اگر وہ ہی سر مایہ نکاسی و فر اہمی آب ،تعلیم و صحت پر لگاتے تو وطن عزیز میں بسنے والوں کو صحت مند طرززندگی ملتا مگرافسوس کہ حکومت ایسی سوچ نہیں رکھتی، کیونکہ اس طر ح کہ منصوبوں پر شریف برادران کی اتفاق فاونٖڈری کا سریا استعما ل نہیں ہو تا جس کا براہ راست فائدہ ان ہی لوگوں کو پہنچنا ہے جبکہ ابھی حال ہی میں فیس بک کے مالک مارک ژوکربرگ نے فیس بک کے 99فیصدحصص صحت ، تعلیم وٖفلاحی کاموں کیلئے مختص کرنے کا وعدہ کیا ہے اور دوسری طرف یہ ہمارے ایسے حکمران ہیں جو ہر چیز میں اپنا فا ئدہ سوچتے ہیں ،آج جب میں اپنے ملک کے تعلیمی نظام کو دیکھتا ہوں تو سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا،انگلش،اردو،سندھی میڈیم اوراو لیول کے اس طبقاتی نظام سے پڑھ کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والوں میں واضح فرق محسوس کیا جاسکتا ہے،مڈل کلاس کے بچے شازونادر ہی کسی اچھی پوسٹ پر پہنچتے ہیں،ہمارے کچھ مذہبی اورنام نہاد سیکولر لوگ نریندرمودی کے خلاف زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں ،لیکن میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کیااس ملک میں آج تک چائے والا وزیراعظم کی سیٹ تک پہنچاہے؟؟ یا مستقبل میں کوئی امکان ہے؟؟یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ اس نظام کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں اوراس جہالت اور تاریکی سے نکلنے کی کوئی سعی کریں ،وگرنہ اس تاریکی میں ہمارے کئی سال تو کجا کئی صدیاں گزرجائیں گی اور ہم اپنے آپ کو ہی کوستے رہیں گے،لہذا ضروری ہے کہ اس سال ہم تبدیلی کے لیئے جدوجہد کریں تاکہ ان خرافات سے نجات دلائی جاسکے، مسلما نوں کی تا ریخ میں ایسے کئی حکمران گزرے ہیں جن کی مثا لیں رہتی دنیا تک قائم رہیں گی یہاں میں اپنے خلیفہ اول جو مسلمانوں کی تاریخ میں درخشاں ستارے کی مانند ہے بھول نہیں سکتا ،حضرت صد یق ؓ کو جب خلافت دے دی گئی توانہوں نے اپنا کپڑے کا کاروبار ختم کر دیا اس پر سوال پیدا ہوا کہ ان کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے ۔خلیفہ نے کہا کہ مدینہ شہر کے مزدورکی جنتی تنخواہ اور مزدوری بنتی ہے اتنی تنخواہ مقرر کر دی جائے ،کہا گیا کہ یہ تو کم ہو تی ہے اس میں آپ کا گزارہ نہیں ہو گا ۔اس پر خلیفہ نے ایک تا ریخی فقرہ کہا کہ اچھا پھر مز دور کی مزدوری بڑھا دیتے ہیں میری تنخواہ بھی خود بخود بڑھ جائے گی یہ وہ حکمران تھے جن کی حکومت گزشتہ صدی تک دنیا کی سپر پاور رہی ،ہمیں بھی ایسے نہ سہی ان کے پیروکار حکمرانوں کی ضرورت ہے ،لیکن صد افسوس !آج اگران باتوں کو دہرایاجائے تو ان حکمرانوں کا رویہ اس ناخلف اولاد کی طرح ہوتا ہے جواپنے والدین کی کسی بھی بات کوسنناگوارہ نہیں کرتی،بلکہ اپنی ناقابل عمل منطق سنارہی ہوتی ہے، آج کے حکمرانوں کا بھی یہ ہی رویہ ہے،ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے لیکن مجال ہے جووہ علم، شعور و آگہی پھیلانے میں سنجیدہ ہو اب بھی وقت ہے ہمارے نوجوانوں کے پاس کہ وہ خواب غفلت سے اٹھیں اوراپنے حقوق کو پہچانے اورخود اس ملک و قوم کی ترقی میں عملی کرداراداکریں۔

پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمیٹیں۔۔۔۔۔نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتاآتاہے
 

Muzammil Ferozi
About the Author: Muzammil Ferozi Read More Articles by Muzammil Ferozi: 11 Articles with 11267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.