میں کہ فطرت کا لا ابالی، زمانے کا مردہ

یہ نظام قدرت ہے کہ ہر شے کو اس کے متضاد کی وجہ سے قائم رکھا گیا ہے۔ اسی متضاد کی وجہ سے ہر شے کا وجود اور حیثیت ہے۔ اگر متضاد نہ ہو تو ہر شے اپنی حیثیت اور پہچان کھو بیٹھے۔ اگر غور کیا جائے تو ان دونوں متضاد پہلوؤں کا نچوڑ یہ ہوتا ہے کہ، “فرمانبرداری یا بغاوت“، مثبت یا منفی، تعمیری یا تخریبی، کوئی بھی نام دے دیں مگر نچوڑ وہی ہے، فرمانبرداری یا بغاوت۔

معمولات میں واسطہ پڑنے والی چیزوں میں ہمیں یہی نظر آتا ہے، جسے ہر دیکھنے والا محسوس کر سکتا ہے۔ سائنسی حوالوں سے انھیں ایٹم کے ذرات کہیں یا کوئی اور نام دے دیں مگر وہ نام کہ جس سے ہر انسان سمجھ سکے وہ یہی ہے، “فرمانبرداری یا بغاوت“۔

دراصل بغاوت کا مطلب صرف یہ نہیں کہ کسی حکم سے رو گردانی کرنا بلکہ بغاوت کا اصل مطلب یہ ہے کہ اپنی فطرت کے خلاف جانا۔ اگر فطرت پر غور کیا جائے تو ہر شے بلا واسطہ یا بالواسطہ دوسری اشیاء کو نفع پہنچانے کا کام کرتی ہے۔ ہماری آنکھ جہاں تک دیکھ سکتی ہے اور ہماری سوچ جہاں تک جا سکتی ہے، ہر شے میں ہمیں ایک ہی جیسی فطرت نظر آتی ہے۔ ہماری آنکھ کھلتی ہے تو ہمیں کائنات میں پھیلی ان گنت مخلوقات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ پھر مشاہدے میں یہی آتا ہے کہ ہر چیز اپنے معمول کے مطابق اپنے کام میں مصروف ہے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر۔ سورج ہر روز اپنے وقت پر ایک ہی جگہ سے طلوع ہوتا ہے اور ایک ہی جگہ غروب ہوتا ہے، رات کو ستارے اپنے وقت پر چمکتے ہیں، چاند اپنے معمول پہ بڑھتا اور گھٹتا ہے، پانی اپنے اصول پہ بہتا ہے۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ سورج مغرب سے نکلا ہو اور مشرق میں غروب ہوا ہو، یا صبح کی بجائے رات کو نکلا ہو۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ستارے رات کی بجائے صبح چمکتے ہوں، چاند چودہویں کی بجائے اٹھائسویں کو جوبن پہ ہو۔ پانی بلندی کی طرف بہنا شروع کر دے۔ ہر چیز فطرت کے وضع کردہ اصولوں پر گامزن ہے۔

پھر ہم تھوڑا سا اور غور کرتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ ہر شے سے ہم کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہم یا کائنات میں پھیلی کوئی بھی شے لیکن ہر چیز کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ہم سے ہے اس لئے ہر شے کا فائدہ ہمیں ہی ہے۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو ہمیں روشنی، حرارت اور کئی اور فوائد ملتے ہیں، رات آتی ہے تو سکون اور چین کی نیند ہمراہ لئے آتی ہے۔ پانی بہتا ہے تو ہماری زمینوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ غذا دے دیتا ہے۔ ہم اس کا رخ موڑ کر اپنے اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہم کسی بھی شے سے تب تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب تک وہ شے اپنی حد میں رہ کر اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔ سورج اپنی حد میں رہ کر صبح سے شام تک کا سفر طے کرتا ہے تو ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پانی اپنی حد میں رہ کر بہہ رہا ہے تو ہمیں فائدہ پہنچ رہا ہے۔

لیکن اگر یہی سورج اپنی حد کو توڑ دے، فطرت سے منہ موڑ لے اور نیچے آ جائے تو روئے زمین پر کوئی شے اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے۔ یہی پانی جو شرط حیات ہے، اگر اپنی حد کو توڑ دے اور سیلاب کی شکل اختیار کر لے تو کئی زندگیوں کو بے رحمی سے روند کر چلا جاتا ہے۔ کائنات کی ہر شے اپنی حد کے اندر رہ کر ہی ایک دوسرے کے لئے فائدہ مند ہے، لیکن فطرت سے رو گردانی یعنی بغاوت کر لے تو پھر ایک شے دوسری کا وجود ختم کر سکتی ہے۔

پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کسی فطرت کے تابع نہیں یا انسان کی کوئی حد نہیں۔ انسان کی فطرت بھی وضع ہے اور فطری حد بھی۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم ہر شے کی حدود جانچ لیتے ہیں، ہر شے کا مقصد معلوم کر لیتے ہیں لیکن اپنی حدود کی نہ جانچ کر سکے نہ اپنے مقصد کو سمجھ سکے۔ جس کے جی میں جو آتا ہے کر گزرتا ہے اور پھر سب بیٹھ کر معاشرے میں پھیلی بد امنی اور بد نظامی کو روتے ہیں۔ کوئی دہشت گرد کہلوا کر دوسرے کا وجود مٹانے کی کوشش کر رہا ہے تو کوئی سپر پاور کہلوا کر سر اٹھانے والوں کو کچل رہا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط بلکہ سوال تو یہ ہے کہ ہمارے سامنے کون صحیح اور کون غلط کا سوال ہی کیوں اٹھ رہا ہے؟ کیا ہم روز فطرت سے سبق نہیں لیتے؟ اگر نہیں لیتے تو پھر ہم کہاں کے عاقل اور کہاں کے “اشرف المخلوقات“؟ ہم اگر اپنی فطرت، اپنی حدود اور اپنے مقصد کو نہیں سمجھ سکتے تو ہم سے چھوٹی مخلوق تو کوئی نہیں ہے۔ روز ہمارے ہاتھوں کسی نہ کسی کا وجود مٹ رہا ہے اور ہم بھول بیٹھے ہیں کہ جو بغاوت ہم نے فطرت کے خلاف شروع کر رکھی ہے، اگر ہر شے بغاوت پہ اتر آئے تو سب سے پہلے تباہ ہونے والی مخلوق “انسان“ ہی ہوگا۔

اب سوال ہے کہ ہم نے فطرت کے خلاف بغاوت کیوں کر رکھی ہے؟
درحقیقت فطرت سے بغاوت کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کا مقصد سمجھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ یہی مقصد دراصل ہماری فطرت اور حد وضع کرتا ہے جسے ہم سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔ ہر ایک اپنی زندگی کا مقصد خود بنا کر سفر کر رہا ہے اور اس مقصد کے راستے میں آنے والے دوسرے انسان کو نجانے کتنی بار نقصان پہنچا کر اپنی منزل پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا ایسا مقصد انسان کا ہو سکتا ہے؟ کیا فطرت ایسا مقصد انسان کے کئے وضع کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ جب انسان ایک جیسے ہیں تو مقاصد الگ کیسے ہو سکتے ہیں؟ غور تو کریں سمجھ میں آتا ہے کہ ہر انسان کا مقصد ایک ہی ہے، جو مشترکہ ہے اور وہ ہے: “جینا“

مگر ہمیں حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ ہم میں ہر ایک مردہ ہے۔ کیونکہ ہم میں کچھ وہ ہیں جو ماضی کی ناکامیوں کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو مستقبل کی کامیابیوں کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں، یعنی ہم یا ماضی میں جی رہے ہوتے ہیں یا مستقبل میں، جبکہ جینے کا وقت تو حال ہے، جس میں ہم سب مردہ ہوتے ہیں۔ اور مردہ دوسرے کے لئے وبال ہی ہوتا ہے، سود مند کسی صورت نہیں اور خاص کر ان کے لئے کہ جو کسی حد تک جی رہے ہوتے ہیں۔ ہم زمانے کے مردے ایک دوسرے پر اور ان پر بوجھ بنتے چلے جا رہے ہیں تو لازم ہے کہ وہ ہمیں دفنا دیں یا جلا دیں۔

جب ہم گزرتے ہوئے ایک ایک پل کو اپنی نظر میں رکھیں اور اس پل میں ہونے والے ہر عمل کو اپنی نظر میں رکھیں اور یہ سمجھ جائیں کہ اس پل میں ہمیں کیا کرنا ہے یا وہ پل ہم سے کیا تقاضہ کر رہا ہے تو سمجھ لیں کہ ہم جی رہے ہیں لیکن اگر ہماری سوچ گزرے ہوئے پل یا آنے والے پل پر ہوگی تو جو پل اس وقت ہمارے پاس ہوتا ہے وہ گزر جاتا ہے اور ہم اس پل میں مرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنے ہر پل اور ہر عمل پر نظر رکھنے والا کبھی کسی دوسرے کا گریبان نہیں پھاڑتا کیونکہ اسے اپنا گریبان سیدھا کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ اور اگر ہر شخص ایسا کرے تو کون بد امن ہو، کون دہشت گرد اور کون سپر پاور؟ پھر معاشرہ صحیح معنوں میں برابری پر آ جائے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ہر پل میں جیو، یہ اتنا آسان نہیں لیکن خدارا کچھ پل تو جی لیں۔ اگر ایک پل کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے تو خدا کی قسم انسان بھوک اور نیند کو بھول جائے۔ ایک لمحہ کتنا قیمتی ہے؟ کیا ساری دنیا کی دولت دے کر بھی گزرے ہوئے پل کو واپس لایا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، تو پھر ہم اگر زندہ ہوں اور ہوش میں ہوں تو اتنی قیمتی چیز کو کیسے ضائع ہونے دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کو ضائع کرنے کی کوشش میں ہم خود کو ضائع کر رہے ہیں اپنی ہی فطرت کے متضاد سے۔ اور وہ جو ایک پل کے لئے جینا سیکھ لیتے ہیں ہم جیسے فطرت کے لا ابالی اور زمانے کے مردوں کو گاڑھ کر چلے جاتے ہیں۔
Nisar Zulfi
About the Author: Nisar Zulfi Read More Articles by Nisar Zulfi: 5 Articles with 5856 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.