جو دم گزر گیا پھر ہاتھ آتا نہیں
وقت پر لگا کر اڑا جارہا ہے۔ سال مہینوں میں، مہینے دنوں میں، دن گھنٹوں
میں گھنٹے منٹوں، سیکنڈوں اور لمحوں میں تحلیل ہوتے چلے جارہے ہیں، ادھر
مہینے کی ابتداء ہوتی ہے ادھر پتہ چلتا ہے کہ کیلنڈر پچیس تاریخ سے تجاوز
کر گیا ہے۔ ابھی ہفتے کا آغاز ہی ہوتا ہے کہ جمعرات سر پر آکھڑی ہوتی ہے،
اس مشینی دور میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ دن کا آغاز کب ہوا تھا اور شام کب
ہوگئی.... بقول کَسے
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عُمر یونہی تمام ہوتی ہے
وقت کو ایک پل بھی قرار نہیں، ایک وقت تھا کہ جب.... ”وقت بہت نازک ہوتا ہے“....
”گیا وقت ہاتھ نہیں آتا“.... ”وقت کو غنیمت جانئے“.... ”آیا وقت ٹلتا نہیں“....
”جاہل وقت گنواتا ہے“.... قسم کے محاورے بڑے عجیب لگتے۔ اب جب خود واسطہ
پڑا تو خواہش ہوتی ہے کہ کاش! وقت کو اپنی مٹھی میں بند کرلیتے، مگر ایسا
ممکن نہیں۔ اس مشینی دور میں گلی محلے کی سطح سے لے کر کرئہ ارضی پر بسنے
والی مخلوق میں پیدا ہونے والے انقلابات کا جائزہ لیں تو لگتا ہے وقت کی
رفتار ہماری سوچ سے زیادہ تیز ہوچکی ہے۔ یہ سائنس کا دور کہلاتا ہے، جدھر
جاﺅ سائنس کی حکمرانی اور مشینوں کی فراوانی ہے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ نامہ و
پیام کے لئے خط و کتابت کا سہارا لیتے، مہینوں میں ڈاک ملتی اور ایک دوسرے
کے احوال معلوم ہو پاتے، پھر فون آگیا، بہت سی دوریاں، دُور ہوگئیں، اس کے
بعد فیکس آگیا، چند لمحوں میں ہزاروں صفحے ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل
ہوجاتے، اب اس کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی ہے بس ایک بٹن کلک کرنے کی دیر ہے
کہ پاکستان بیٹھے بیٹھے کینیڈا جیسے بعید ترین ملک میں اپنے عزیزوں سے
رابطہ ہوجاتا ہے، محض یہی نہیں بلکہ چاہیں تو آپ ایک دوسرے کو دیکھ بھی
سکتے ہیں.... اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرسکتے ہیں۔ چند سال پیشتر
جب یہ نظریہ سامنے آیا کہ کچھ عرصے بعد جنگوں کے لئے بڑی بڑی فوجوں کی
ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی ”قتل عام“ کیا جاسکے گا
تو بہت عجیب محسوس ہوتا تھا مگر اب تو یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ امریکا نے
بحیرہ عرب میں بیٹھ کر افغانستان کو کھنڈر بنا دیا.... اب اسے سائنس کی
ترقی کہا جائے.... انسانی ہنر کا کمال سمجھا جائے یا اسے وقت کی تیز رفتاری
قرار دیا جائے؟.... آج زندگی کی دوڑ میںجو شخص سست رو ہے، ناکام ہے جو تیز
خرام ہے کامیاب ہے۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ یقین کرلیا جائے....
انسان کھو کے وقت کو پاتا نہیں کبھی
جو دم گزر گیا پھر ہاتھ آتا نہیں
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وقت کی رفتار ہمارے قیاس و گمان سے بھی تیز ہوچکی
ہے۔ ابھی تھوڑے دن قبل ہمارے ایک محترم بزرگ ملکی اور عالمی صورت حال کا
جائزہ لیتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے ”دنیا بھر میں رونما ہونے والے
انقلابات سے معلوم ہورہا ہے کہ منشاءالٰہی کے مطابق دنیا کی بساط لپیٹی
جارہی ہے۔ حدیث شریف میں قرب قیامت کی جتنی نشانیاں بیان کی گئی ہیں ان میں
سے اکثر پوری ہوچکی یا اس وقت پائی جارہی ہیں، چند بڑی نشانیاں باقی ہیں جن
کا وقوع ہونا ابھی باقی ہے۔ عالم اسلام اور عالم کفر کے مابین جاری کشمکش
سے اندازہ ہورہا ہے شاید آخری معرکہ قریب ہے جس کی قیادت امام مہدی اور
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کریں گے۔ تفصیلات میں جایا جائے تو ان کے بیان کے
لئے کئی صفحات چاہئیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہر انسان اپنی جگہ حیران و ششدر
ضرور ہے۔ ایک غیر مرئی طاقت بار بار ذہن کے دروازے پر آکر دستک دیتی ہے کہ
کچھ ہونے والا ہے۔ آج کل جس قسم کے بے شمار علمی و عقلی فتنے رونما ہورہے
ہیں ان باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ قرب قیامت
میں فتنے اس طرح برسیں گے جیسے بارش کے قطرے پے در پے برس رہے ہوتے ہیں۔ اس
کے نتیجے میں کیا ہوگا ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ قرب قیامت میں انسان
صبح اٹھے گا تو مسلمان ہوگا اور شام اس حالت میں آئے گی کہ وہ کفر اختیار
کرچکا ہوگا اور ایسا بھی ہوگا کہ شام کو دن بھر کی مسموم فضا کے باعث وہ
کفر اختیار کرچکا ہوگا لیکن صبح ایمان کی حالت میں اٹھے گا۔ مطلب یہ کہ اس
دور میں ایسے ایسے فتنے سر اٹھائیں گے کہ ایمان و کفر میں تمیز کرنا مشکل
ہوجائے گا۔ ممکن ہے جس بات کو انسان عین ایمان سمجھ رہا ہو وہ حقیقت میں
کفر ہو اور جسے کفر خیال کررہا ہو وہ عین ایمان ہو، اس کا عملی مشاہدہ ہم
روز مرہ کی زندگی میں کررہے ہیں۔ ان حالات میں ایک مسلمان کے لئے فکر کرنے
کی سب سے بڑی بات یہی ہے کہ وہ اپنے ایمان کی فکر کرے۔ ایمان کی فکر یہ
نہیں کہ کلمہ طیبہ پڑھ لیا اور سمجھ لیا کہ ہم پکے ٹھکے مومن بن گئے۔ نہیں
! اس کلمے کے تقاضوں کو بھی پورا کیا جائے اور اس مختصر زندگی کو قیمتی
بنالیا جائے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ دو نعمتیں ایسی ہیں
جن کے بارے میں لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ایک نعمت ”فراغت“ ہے اور دوسری
”صحت“ ہے، کہ انسان سوچتا ہے ابھی تو وقت ہے پھر کسی وقت فلاں کام کرلوں گا،
مگر یہ ایک دھوکہ ہوتا ہے۔ اس سے بھی واضح انداز میں ایک دوسری حدیث میں
ارشاد فرمایا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ
چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت جانو! بڑھاپے سے قبل جوانی کو، بیماری سے
پہلے صحت کو، مال داری کو محتاجی سے پہلے، اور فرصت کو مشغولی سے پہلے اور
اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔“
آج ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ بے قیمت چیز ”وقت“ ہے۔ جہاں چاہا کھو دیا،
جہاں چاہا برباد کردیا، اسے لہو و لعب میں، بے معنیٰ اچھل کود میں، دنیا
بنانے کی تگ و دو میں، ٹی وی کے سامنے گھنٹوں بیٹھنے میں، غیبتوں کا انبار
لگانے میں، اور نہ جانے کن کن خرافات میں برباد کیا جارہا ہے۔ اللہ کرے
ہمارے دلوں میں وقت کی قدر و قیمت کا احساس پیدا ہوجائے ورنہ تو یہ حال
ہوگا....
مجھ کو غفلت نے خبر ایامِ فرصت کی نہ دی
آہ جب جاتے رہے دن تب میں پچھتانے لگا |