سچ بولنا ہی نہیں سچ سننا بھی سیکھیں
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
اساتذہ اور والدین بچے کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہمیشہ سچ بولو، بچہ کوئی شرارت کرکے سچ بتا دیتا ہے کہ یہ شرارت اس نے کی ہے تو اساتذہ اور والدین بچے کو دُھنک کر رکھ دیتے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے ہم غیر محسوس طور پر بچے کو جھوٹ کی ترغیب دیتے ہیں۔سچ بولنا آسان لیکن سچ سننا بہت مشکل کام ہے۔ کوشش کریں کہ ہم مشکل کام کرسکیں۔ |
|
|
ہم بہت عجیب و غریب لوگ ہیں۔ ہم اکثر و
بیشتر ایک دوسرے کو سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اساتذہ اور والدین بچوں
کو، دوست ایک دوسرے کو، بلکہ مخالفین بھی ایک دوسرے کو سچ بولنے کی تلقین
کرتے ہیں ۔ لیکن یہ بڑا عجیب معاملہ ہے کہ ہم سچ سننا نہیں چاہتے چاہتے
ہیں،نا عجیب سی بات! یا کم از کم کھری بات اور صاف گوئی ہمیں پسند نہیں
آتی ہے اور جب کوئی فرد صاف، کھری بات کرے تو ہم اس کو بے مروت، مغرور
وغیرہ کے القابات سے نوازتے ہیں -
چلیے اس بات کو میں اپنے تجربات کی روشنی میں بیان کرتا ہوں۔میں ایک اسکول
میں ملازمت کرتا ہوں۔ ابتدا میں اس اسکول کے استقبالیہ پر میری ذمہ داری
تھی، روزانہ درجنوں افراد اسکول میں داخلے کی معلومات کے لیے آتے تھے۔
اسکول میں داخلے شروع ہوتے ہی اس تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ داخلے کے لیے
آنے والے افراد سے ہم پوری معلومات حاصل کرتے کہ ان کی رہائش کہاں ہے؟ بچے
کی تاریخ پیدائش ، عمر وغیرہ کی معلومات حاصل کرکے ہم انہیں بتاتے تھے کہ
ان کے بچے کا داخلہ ہوسکتا ہے یا نہیں۔ جن لوگوں کو ہم منع کرتے تھے ان میں
سے 75سے 80 فیصد کا یہ اصرار ہوتا تھا کہ ہم کچھ گنجائش نکالیں۔ جب ہم
انہیں بتاتے کہ ہم اسکول کی پالیسی اور طریقہ کار کے مطابق آپ کو درست
معلومات دے رہے ہیں، تو پھر ایسے افراد کی خواہش ہوتی تھی کہ اچھا ہم
انتظار کرلیتے ہیں شاید کچھ موقع مل جائے۔ ہم انہیں بڑی نرمی سے یہ بتاتے
تھے کہ دیکھیں، ہم نے آپ کو بالکل درست اور ٹھیک بات بتا دی ہے۔ آپ
انتظار کرکے اپنا وقت ضائع کریں گے اور ایسا نہ ہو کہ آپ کے بچے کا کسی
اور اسکول میں بھی داخلہ نہ ہوپائے۔ لیکن اس صاف اور سچی بات کو عموماً لوگ
پسند نہیں کرتے اور ہمیں مغرور، بے مروت اور نخرے والا کے خطابات سے
نوازتے۔
ایک دفعہ تو یہ بھی ہوا کہ ایک صاحب بچی کے داخلے کے لیے آئے، ان کی بچی
کا فارم جمع کرکے اسسمنٹ وغیرہ کیا گیا اور ان کو صاف گوئی سے بتا دیا گیا
کہ دیکھیں 80فارم ہیں اور صرف 30یا 32داخلے ہونگے۔ اس لیے رجسٹریشن فارم
داخلے کی ضمانت نہیں ہے۔ اتفاق سے ان کی بچی کا نام نہیں آیا۔ انہوں نے
ہمیں کہا کہ آپ لوگ کوشش کریں، ہم نے انہیں اپنی مجبوری بتائی، انہوں نے
ہمارے ایگزیکٹو ڈائریکٹر صاحب سے بات کرنے کی خواہش کی، ہم نے فون پر ان کی
بات کروا دی۔ ایگزیٹو ڈائریکٹر صاحب نے بھی ان کی پوری بات سنی اور پھر
معذرت کرلی۔ لیکن انہوں نے از خود یہ کہا کہ ہم انتظار کرلیتے ہیں شاید کچھ
گنجائش نکل آئے۔ ہم نے ان سے واضح طور پر کہا کہ آپ کی مرضی ہے ورنہ
ہمارے پاس اب گنجائش نہیں ہے۔وہ صاحب چلے گئے لیکن مختلف ذرائع سے سفارشیں
لگاتے رہے، قصہ مختصر کہ دو ماہ بعد جب سیشن کا آغاز ہونے والا تھا اس سے
دو دن قبل وہ موصوف تشریف لائے اور کہا کہ ہمیں داخلہ فارم دیدیں اور آپ
کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر صاحب سے ہماری بات ہوچکی ہے ،انہوں نے ہی کہا ہے کہ
آپ فارم لے لیجیے۔ ہم نے سر سے بات کی تو انہوں نے اس بات کی تردید کی اور
کہا کہ میں نے کسی کو بھی داخلہ فارم دینے کی کوئی ہدایت نہیں ہے۔ جب ہم نے
ان سے یہ بات کہی تو آپ کو پتہ ہے موصوف کیا کہنے لگے؟
وہ صاحب جو تین ماہ سے ہمارے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ بچی کا داخلہ اسی اسکول
میں کرانا ہے اور جو ہر قسم کی سفارش لگا چکے تھے، اب موصوف فرمانے لگے کہ
’’آپ کا اسکول اتنا اچھا بھی نہیں کہ یہاں بچے کو داخل کرایا جائے، اس کا
نظام ٹھیک نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ ۔ ‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’صاحب یہ بات آپ
اس لیے کہہ رہے ہیں کہ آپ کی بچی کا داخلہ نہیں ہوا، ورنہ ابھی آپ اسکول
کی تعریفیں کررہے ہوتے۔‘‘ فرمانے لگے کہ جی نہیں میں بالکل ٹھیک کہہ رہا
ہوں۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی اور میں فون سننے لگا تو کہنے لگے ’’ آپ
اتنے مصروف بھی نہیں ہیں لیکن میرے سامنے اپنے آپ کو دکھا رہے ہیں اور خود
کو مصروف ظاہر کررہے ہیں، اور آپ نخرے دکھا رہے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ
جناب اب میں آپ کی کسی بات کا جواب نہیں دوں گا کہ کیوں کہ اب آپ بلا وجہ
الجھنے کی باتیں کررہے ہیں۔ بہر حال کافی کچھ کہنے کے سنانے کے بعد وہ صاحب
رخصت ہوئے۔
یہ ایک مثال ہے۔ اب دوسری جانب دیکھیں آپ کے ساتھ بھی اکثر و بیشتر یہ
معاملہ ہوتا ہوگا کہ آپ کے کوئی دوست ، احباب، رشتہ دار اآپ سے کسی کی
نوکری، سفارش یا کسی کام کا کہتے ہونگے۔ اور یقیناً آپ حتی الامکان کوشش
بھی کرتے ہونگے، یقیناً بہت سے لوگوں کو آپ کی ذات سے فائدہ بھی پہنچا
ہوگا۔ لیکن بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ آپ سے کوئی ایسا کام کہہ دیا جاتا جو
آپ کی بساط، آپ کی پہنچ سے دور ہوتا ہے۔ اب اگر آپ منع کریں تو بہت کم
ایسا ہوتا ہے کہ متعلقہ فرد آپ کی معذرت، آپ کا عذر قبول کرے۔ لوگ سمجھتے
ہیں کہ آپ ازارہ انکساری ایسا کہہ رہے ہیں، حالانکہ آپ اچھی طرح جانتے
ہیں کہ جو توقع مجھ سے باندھی جارہی ہے، جو امید مجھ سے لگائی جارہی ہے، جو
کام مجھ سے کہا جارہا ہے ، میں وہ کام نہیں کرسکتا۔ لیکن جب آپ یہ بات
براہ راست اور صاف گوئی سے کہہ دیں تو کوئی یقین نہیں کرتا۔کبھی سوچا ہے کہ
اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے کہ ہم سچ سننا
نہیں چاہتے۔ہم صاف گوئی برداشت نہیں کرپاتے ۔ یا پھر ہم اپنی توقع کے خلاف
کوئی بات سن نہیں پاتے ہیں۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے۔ اوپر بیان کی گئی صورتحال میں اگر آپ کسی کو
بھی صاف منع نہ کریں، بلکہ اسے آسرا دیں، اسے اپنے گھر اور دفتر کے چھے
سات چکر لگوائیں، ہر ملاقات میں کہیں کہ یار بس میں کوشش میں لگا ہوا ہوں،
بہت جلد تمھارا کام ہوجائے گا، اس کے بعد ہفتہ دس دن بعد اسے منع کردیں تو
یہ فرد مطمئن ہوجائے گا کہ آپ نے بڑی کوشش کی ۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ
آپ کو پہلے دن سے پتا تھا کہ آپ یہ کام نہیں کرسکتے لیکن یہ صاف گوئی ،
یہ سچائی بہت کم لوگ ہی برداشت کرپاتے ہیں۔
اب ایک اور بات دیکھیے۔ اساتذہ اور والدین بچے کو تلقین کرتے ہیں کہ ہمیشہ
سچ بولو، چاہے کچھ بھی ہوجائے۔بچہ والدین اور استاد کی یہ نصیحت پلے سے
باندھ لیتا ہے۔اب بچہ کوئی شرارت کرتا ہے، والدین یا اساتذہ پوچھتے ہیں کہ
سچ سچ بتائو یہ کس نے کیا ہے؟ بچہ سچ بتا دیتا ہے، اور اس کے بعد کیا ہوتا
ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس موقع پر بچے کو کوئی سزا دیے بغیر محض نصیحت
کرکے چھوڑ دیا جائے۔ورنہ زیادہ تر مواقع ہر اساتذہ اور والدین بچے کو دُھنک
کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے اس طرزِ عمل سے بچے کو کیا پیغام جاتا ہے ؟ یہی کہ
آئندہ سچ نہیں بولنا بلکہ شرارت کرکے الزام دوسروں پر لگا دینا چاہیے۔ اس
طرح ہم غیر محسوس طور پر بچے کو جھوٹ کی ترغیب دیتے ہیں۔وجہ یہی ہے کہ ہم
صرف سچ بولنے کی تلقین کرنا جانتے ہیں ،لیکن سچ سننا نہیں چاہتے۔ سچ سننا
زیادہ مشکل کام ہے۔ کوشش کریں کہ ہم یہ مشکل کام بھی کرسکیں۔ |
|