تحریر :زینب ملک ندیم
ہر شے زندگی میں بہت عزیز ہوتی ہے -اور والدین کیلئے تو سب سے عزیز ان کی
اولادہوتیہے -اولاد کو ایک بھی کانٹا چبھ جائے تو تکلیف ہوتی ہے بچوں کی
تکلیف والدین کیلئے سوہان روح ہوتی ہے -ہر بچہ والدین کیلئے ایک جیسی حثیت
رکھتا ہے ان کا پیار پیار محبت کے پیڑ سے پیوست رہتاہے-ماں راتیں جاگتی ہے
اپنے بچے کو اپنی آغوش میں سلاتی ہے باپ اپنے بچوں کیلئے چھاؤں ہوتا ہے اور
اگر--------
وہی بچہ باپ کے ہاتھوں میں جہان فانی سے کوچ کر جائے باپ پر کیا گزری
ہوگیہم تو صرف الفاظ لکھ سکتے ہیں ،ہمیں اذیت نہیں لکھنی آتی اذیت سے تو وہ
باپ ہی آشنا ہے جو بچی کو ہاتھوں میں لیے بیب یارومددگار دوڑ تا تھا چاہتا
تھا کہ کیسے کئیں سے کوئی معجزہ ہوجائے کوئے مسیحا آجائے مگر کوئی نا آیا
کیونکہ مسیحا تو وہ ہوتے ہیں نا جو قوم کی حفاظت کرتے ہیں ہر انسان کی مدد
کرتے ہیں حضرت عمر جیسے مگر آج کے مسیحا وہ تو اپنی اعلی شاندار گاڑیوں میں
بیٹھے اپنی شان و شوکت پر شیخیہی بگاڑتے ہیں -یہ حقیقت تو تلخ ہے مگر بڑے
لوگوں کیلئے
"کوئی مرتا ہے تو مرے ان کی شخصیت پر کیا اثر"کیونکہ اتنی آبادی سے ایک
انسان کم ہوگا تو انہے کیا فرق کیا پڑے گا -فرق پڑے بھی کیوں وہ انسان
تھوڑی ہیں انسان کے بھیس میں بھیڑئیے اور درندے اور بیحس سر کش خود سر سے
لوگ ہیں -وہ نہیں جانتے ہر ان کی طرح ہر ماں کیلئے ان کا بیٹا بلاول ہر
بیٹی مریم نواز جیسی ہے مگر انہے کوئی فرق نہی پڑتا ان کا پروٹوکول ان
کیلئے زیادہ اہم ہے پیچہے کیا گزر جاتی وہ کیا جانیں -چند تعزیتی الفاظ کہ
دینے سے سب کچھ ٹھیک نہیں ہوجاتا جس خاندان کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے
وہی جانتا ہے -الفاظ ساتھ نہیں دیتے ہر نیا واقعہ دیکھ کر دل خون کے آنسو
روتا ہے -اور سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہوتی ہے جب ہر قصہ منوں مٹی تلے
دبا دیا جاتاہے ہر معاملا ایسے بھولا جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی با افسوس یہ
خبر بھی چند دن فرنٹ پیج ہر رہے گی اور پھر وقتی ایکشن لیا جائے گا مگر پھر
کیاہوگا پرانے حادثوں کی مانند یہ حادثہ بھی دب جائے گا پرانے اصول دوبارہ
لاگو ہوجاتے گیں-تف ہے ایسی قوم اور ایسی انسانیت پر آج کے بے حس انسانوں
کے ہونے سے اچھا تو موزیم میں سجے ہوئے سٹیچو ہیں جن کودیکھ کر کم از
کم.انسان کو تفریح تو ملتی ہے - |