دنیا میں انسان کے تین استاد ثابت ہوئے ہیں
سب سے پہلے انسان جب دنیا میں آتا ہے تو ماں کی گود ،گھر کا ماحول اور
والدین اس کے بنیادی اساتذہ ہوتے ہیں دوسرے سکول کالجز و یونیورسٹی میں اسے
تعلیم دینے والے اور’’وقت‘‘ انسان کا تیسرا سب سے بڑا اور اہم استاد ہوتا
ہے ۔ان سب کا اپنا اپنا کام و زمہ داری ہے ،اگر ابتدائی استاد سے کوئی کمی
کوتائی رہ جائے تو پھر دوسرے مرحلے میں بچے پر دوگناہ بوجھ پڑھ جاتا ہے
چونکہ اس کمی کا پورہ کرنا نہایت ضروری ہوگا ورنہ وہ کمزوری عمر بھر اس کے
ساتھ رہتی ہے اور اگر کوئی بچہ کسی وجہ سے پہلے دونوں مراحل میں اہم ترین
بنیادی تربیت سے محروم رہ گیا ۔۔۔ناں ماں کی گود ،گھر کا ماحول اور نہ سوکل
کالج تو پھر اس کاسامنااس کے آخری استاد ’’وقت‘‘سے ہوتاہے۔’’وقت‘‘ جس کا
انداز وطریقہ کاراور تربیت دینے کا ڈھنگ بڑا نرالہ ہوتا ہے وہ انتہائی ظالم
و کٹھور ہوتا ہے وہ جب انسان کی تربیت کرتا ہے اسے سبق پڑھاتا ہے تو اچھے
اچھوں کی چیخیں نکل آتی ہیں ۔ہماری اکثریت اپنے بچوں کو جب وہ تھوڑے سیانے
ہوتے ہیں تب سے چھوٹے موٹے کام کاج ان کے سپرد کر دیتے ہیں انہیں مارکیٹ
بھیجنے لگتے ہیں اور روزمرہ زندگی میں استعمال کی ایشا ء خرید کر لانے
اوربعض اوقات چھوٹے موٹے فنکشن کے اہتمام کی زمہ داری بھی انہیں سونپ دیتے
ہیں اور ان پر فخر بھی کرتے ہیں ۔لیکن ہم انہیں ابتداء سے آخر تک کبھی کسی
ایک چیز کے بارے میں اسکی حقیقی معنوں میں آگاہی و’’بریفنگ‘‘ نہیں دیتے ،کہ
خریداری کیسے کی جاتی ہے چیزوں کی پہچان اور ان کی قیمت کو کیسے سمجھا جا
تاہے چیزوں کی اقسام اور ان کے فوائد کیا ہوتے ہیں اور ہمارے لئے کیا مناسب
ہے اور کیا نامناسب ہے ۔اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ سکول کالج سے
کتابیں تو پڑھ لیتا ہے لیکن عملی زندگی کے رکھ رکھاو نہیں سیکھ پاتا اور
پھر جب اس کی عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے تو اسے قدم قدم پر بہت ہی تکلیف
دہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے اور وہ سب کچھ جو اسے بچپن میں سیکھنا
چاہے تھا اسے اب سیکھنا پڑھتا ہے تو اس کے لئے اسے دن رات محنت و مشقت اور
کٹھن امتحانات سے گزر کر وہ سب حاصل کرنا ہوتا ہے جو اس سے پیچھے چھوٹ گیا
تھا اس عمل میں اس کا اچھا خاصا وقت ضائع ہوجاتا ہے اور یوں وہ ظالم وقت کی
کٹھنایؤں سے لڑتے لڑتے عمر تمام کر دیتا ہے لیکن وہ اس گزرے وقت کو نہیں
پاسکتا وہ جتنی رفتار سے بھاگتا ہے پھر بھی وقت سے پیچھے ہی رہ جاتا ہے اور
اسے وہ راحت نہیں مل پاتی جو اس کا حق بنتا تھا چہ جائیکہ اسے ابتداء میں
بروقت وہ تمام سہولیات مل جاتی تو زندگی کی راحت و سکوں سے لطف اندوز بھی
ہوتا اس لئے کہ کہا جاتا ہے کہ !’’ اگر وقت کا مقابلہ کرنا ہے تو اسے
پیشانی کے بالوں سے پکڑو‘‘ اور پیشانی کے بالوں سے پکڑنے کا ایک ہی حل ہے
کہ انسان اپنی زندگی کے تینوں اساتذہ سے بروقت و مکمل تربیت حاصل کر لے ۔
یہ توعام دنیا کی مثال ہے لیکن جب ہم اپنے تحریکی بچوں کو دیکھتے ہیں تو
کئی ایک سوال راتوں کو سونے نہیں دیتے ۔اس لئے کہ محکوم اقوام کے وہ بچے
جنہوں نے آگے چل کر قوم کو آزادیوں کے اسباق پڑھانے ہوتے ہیں اور قومی حقوق
کو غیر کے ہاتھ سے چھین کر واپس لانے ہوتے ہیں ہم ان کے ساتھ بھی انصاف
نہیں کرتے ۔وہ جب والدین کے ساتھ ہوتے ہیں تو انہیں یہ سکھایا اور پڑھایا
جاتا ہے کہ جناب آپ نے فقط اچھے نمبر حاصل کرنے ہیں اور ڈاکٹر یا انجنئر بن
کر پیسے کمانے ہیں اور ہمارے گھر کے مسائل حل کرنے ہیں اور جب وہ دوسرے
مرحلے میں سکول کالجز کے اساتذہ اور ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم انہیں
یونیورسٹی کے اختتام تک ’’ہم کیا چاہتے ،آزادی ‘‘خود مختاری جان سے پیاری
‘‘ میری قبر پہ لکھنا آزادی ۔۔۔طلبہ یونین کی بحالی ۔۔۔اور مطالعہ کشمیر کی
نصاب میں شمولیت جیسے پر کشش اور خوبصورت نعرے انہیں بطور تحفہ دیدیتے ہیں
،وہ بچے عمر کے اس خاص مرحلے میں اپنی پوری انرجی کے ساتھ یہ نعرے بلند
کرتے ہیں اور ہمارے جلسوں کی رونق بڑھاتے ہیں ہمارے سٹیج سجاتے ہیں اور
ہمیں لیڈر بناتے ہیں ۔یہ تمام نعرے بیشک جائز اور مبنی برحق ہیں لیکن ہم اس
طویل ترین سفر کے اس اہم حصے میں ان بچوں کو ان نعروں تک محدود رکھتے ہیں
انکے پیچھے جو فلسفہ ہے وہ نہیں سمجھاتے ۔۔۔قومی آزادی ضرور مگر اس کے لئے
کس طرح کا راستہ ہونا ہے اور کس طرح کے مصائب کا سامنا کرنا ہے اور قوم کو
کیسے جوڑنا ہے یہ نہیں سمجھاتے ۔۔۔ہم ان بچوں کی تربیت کے لئے باقاعدہ
کلاسز کا اجراء کرنے کو اہمیت نہیں دیتے ۔ہم انہیں کبھی بھی آنیوالے وقت کی
کٹھنائیوں سے آگاہ نہیں کرتے ۔۔اور یوں جب یہ بچے عملی زندگی میں قدم رکھتے
ہیں تو وہاں انہیں یکدم بے شمار اانجانے مسائل کا سامنا ہوتا ہے ۔اور وہ
اتنا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے جہاں بمشکل چند ایک ہی استقامت دکھا پاتے ہیں اور
اکثر وقت کے آگے بے بس ولاچارہو کر سرینڈر کر لیتے ہیں انہیں کچھ سمجھ نہیں
آتی کہ یہ کیا ہو گیا ہے اور وہ اب کیا کریں۔۔۔؟اور اس طرح قوم اپنے
انتہائی قیمتی سرمائے سے محروم ہو جاتی ہے اور پھر ہم نجی محفلوں میں بیٹھ
کر خواہ مخواہ ان سب پر تنقید کرتے رہتے ہیں کہ فلاں نے یہ کیا فلاں نے وہ
کیا ۔۔۔لیکن کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنی زمہ
داریوں کو کتنا نبھایا ۔۔۔اس لئے تمام تحریکی لوگوں سے گزارش ہے کہ اس اہم
ترین معاملے پر غور کیجئے اب بھی وقت ہے کہ تمام آزادی پسند تنظیمیں اپنے
طلبہ کو اپنے جلسوں کی زینت بنانے کے بجائے ان کی تربیت پر دھیان دیں تو
یقینا کل آنے والی جنریشن بہتر نتائج دینے کے قابل ہو سکتی ہے ۔
جوانوں کو مری آہ صحر دے
پھر ان شاھین بچوں کو بال وپر دے
خدایا آرزو مری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے |