خوش نویسی جو ہم سے بچھڑ چکی

تحریرخوش خط ہوتوپڑھنے والابھی توجہ سے پڑھتاہے اورالفاظ سے آپ کی قابلیت کااندازبھی لگادیتاہے۔۔۔۔خوشنویسی لفظوں کاحسن ہے ۔ہمارے گورنمنٹ سکولزتعلیمی میدان میں کسی زمانہ میں ایک مثال رکھتے تھے ۔عمدہ تعلیم وتربیت ،ہم نصابی سرگرمیاں ،اساتذہ کی محنت جیسے عوامل ایک طالب علم کے لیے لاجواب تربیت ہواکرتی تھی۔ایسانہیں کہ آج گورنمنٹ تعلیمی ادارے ویسے نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔تعلیم کا پرائیویٹائزیشن ہونا،طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے گورنمنٹ سکولوں کی ساکھ کونقصان پہنچاہے ۔حالانکہ وہی طالب علم جوگورنمنٹ تعلیمی اداروں سے پڑھ لکھ کرپرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اپنے معلمانہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں ،کی وجہ سے آج پرائیویٹ تعلیمی ادارے ایک سے بڑھ کرایک جدیدنظام تعلیمی دے رہے ہیں۔پرائیویٹ تعلیمی نظام کااتنابڑااثرہمارے گورنمنٹ اداروں پرپڑاکہ آج گورنمنٹ تعلیمی ادارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی نقالی پرمجبورہیں۔تمہیدباندھنے کامقصدیہ ہے کہ پرانے وقتوں میں گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی دیگرتعلیم کے ساتھ ساتھ خوشنویسی پربڑی توجہ دی جاتی تھی اورباضابطہ نصاب تھا یعنی’’ تختی‘‘ کاطرزعمل۔ قاعدہ کلاس سے لے کرپانچویں جماعت تک رائج تختی لکھنالازم قراردیاگیاتھاجوآج پورے پونچھ ڈویژن کے تعلیمی اداروں میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملے گئی۔ سوائے چندایک گاؤں میں آبادگورنمنٹ تعلیمی اداروں کے۔ایک وقت تھااساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین بھی اپنے بچوں کوتختی لکھنے پرزوردیاکرتے تھے کہ آپ کی لکھائی بہترہوگی ۔’’قلم ،دوات اورتختی ‘‘یہ آزادکشمیرکی ثقافت کے عمدہ ترین تعلیمی ہتھیارسمجھے جاتے تھے ۔

آج کاطالب علم’’ سکول تختی‘‘ ہاتھ میں اٹھاناکوفت سمجھتاہے اورشرم بھی محسوس کرتاہے ۔اس کوقدیم تعلیمی نظام سمجھ کرنظراندازکردیاگیا ۔جدیدطرزتعلیم اورطبقاتی تعلیم کے باعث اس عمل کوحقیرنظروں سے دیکھاجارہاہے ۔یہ بات ’’حقیقت ‘‘ہے کہ موجودہ دورکے طالب علموں کے لیے ایساکرنامشکل ہوگیاہے کیونکہ پرانے وقتوں کے مقابلے میں موجودہ طالب علم زیادہ نفاست پسندہیں ۔اورجدیدطلباء کاذہن ایسے کلچرکی جانب مبذول کروادیاگیاہے کہ اردوکے برعکس انگریزی نہایت ہی ضروری ہے اورہماراتعلیمی نظام عالمی معیارکے مطابق ہوناچاہیے۔ ایسی سوچ کولے کرآج ہم نئی نسل کوجہاں لے جاناچاہتے ہیں وہ ہم باخوبی جانتے ہیں۔وقت کے ساتھ تعلیمی نظام میں اتنی جدت آتی گئی اورموجودہ صورتحال یکسرتبدیل ہوگئی ہے ۔وہاں اگرتختی کوبھی جدت دی جاتی تواس کی جگہ قلم ،سیاحی ،اورنوٹ بک لے سکتی تھی لیکن ایسانہیں ہے ۔ایک اچھاخطاط بننے کے لیے لازمی ہے کہ قلم ،سیاحی اورتختی کااستعمال ہوناچاہیے۔ اس کے سواآپ اچھے خوش نویس نہیں بن سکتے ۔ہمارے بیشترتعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ ،پروفیسرز،ٹیچرز کوجب بھی اچھی تحریرلکھنے کی ضرورت آن پڑتی ہے تووہ ضرورخطاط سے رجوع کرتے ہیں۔ ہمارے بیشتراعلیٰ تعلیم یافتہ احباب کی یہ سوچ ہے کہ اگرکوئی تحریرکسی بڑے ادارے کے لیے لکھنی ہوتووہ خصوصی طورپرایسے افرادکوڈھونڈیں گے جواچھے خطاط ہوں تاکہ ان سے خوش خطی سے تحریرلکھوائی جائے ۔ایساکیوں ہے ؟شایدایسانہ ہوتااگرہم اپنے نصاب تعلیم میں خطاطی جیسے عمدہ ’’ترجمان اردو‘‘کوشامل رکھتے۔آج ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص خطاط کامحتاج کیوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟اس کے ساتھ ساتھ اگرپہلی کلاس سے آخری ڈگری تک بھی خطاطی سیکھائی جائے توبیشترطلبہ کاپیشہ بھی بن سکتاہے جس کے ذریعے وہ آنے والے وقت میں اپناروزگارمہیاکرسکتے ہیں ۔پاکستان وآزادکشمیرمیں نامورخطاط اپنے فن کے ذریعے ملک وقوم کوایک پہچان دے رہے ہیں اوردے چکے ہیں۔ لاکھوں ،کروڑوں روپے کے، ہاتھوں خوش خط لکھی تحریریں، فنِ خطاطی کے نمونے ملکی معیشت کومضبوط بھی کررہے ہیں ۔بے شمارلگائی گئیں خطاطی کی نمائشیں عوام الناس میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ خطاطی سے لگاؤکاذریعہ بھی ہے جس کی واحدبنیادتختی تھی۔جس کوہمارے تعلیمی اداروں سے ختم کردیاگیا۔چلوتختی کانظام شایداب رائج کرنامشکل ہولیکن اس کے متبادل بھی کچھ نہیں کیاگیاجس سے اردوزبان کوشدیدنقصان پہنچتاجارہاہے۔

ایک وقت تھاکہ گورنمنٹ تعلیمی اداروں کے پرائمری سیکشن میں تختی لکھی جاتی تھی۔ اس تختی سے ایک توطلبہ کی لکھائی بہترہوتی دوسرااپنی قومی زبان’’اردو‘‘ بولنے، سیکھنے میں مددملتی ۔یہ سوچنے والی بات ہے کہ تختی پرانگریزی زبان کیوں نہیں لکھی جاتی تھی۔۔۔؟کیونکہ اس زمانہ میں پہلی کلاس سے انگریزی پڑھائی نہیں جاتی تھی ۔گزشتہ چند سالوں سے گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں یہ نظام قائم کیاگیاکہ پہلی جماعت سے ہی انگریزی پڑھائی جائے۔ جبکہ پہلے گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں جماعت ششم تک انگریزی زبان کاکوئی عمل دخل نہ تھا۔راقم نے خودجماعت ششم میں جاکرABCپڑھناسیکھی۔۔۔۔اب یہ تبدیلی کیوں آئی اس کی وجہ بھی ہمارے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں۔۔۔۔

طالب علم سکول سے گھرآتے ہی تختی کوسنوارنے ،لکھنے کے لیے مصروف ہوجاتے تھے۔کبھی بیٹری سل توڑکراس سے ’’کالک ‘‘ نکال کرپانی میں بگوئے کراپنے تختی پرلگاتے ،کبھی چولہے پررکھے تیوے کی کالک سے اپنی تختی کوتیارکرنے میں مصروف عمل ہوتے۔اس کی اس لگن اورمحنت کے ساتھ ساتھ اساتذہ کودوسرے دن تختی دیکھائے جانے کاڈربھی ہوتاتھا۔۔۔۔تختی پرکالک لگانے کے بعدبھلے ہاتھ کالے ہوتے ۔تختی کے دونوں اطراف کوتیارکرنے پراس کودھوپ میں گھرکی دیوارکے ساتھ کھڑاکرکے طالب علم قلم اوردوات کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے تھے۔تختی کے سوکھنے پر’’ہُلّا‘‘نامی ایک خودروہرے پتے کوتختی پررگڑکرپھرشیشے کی دوات سے تختی کوچمکانے کے بعد لکھنے کامرحلہ آتا۔ دوات میں مخصوص رنگ کی مٹی کوڈال کرپانی سے گھول دیاجاتابعدازاں ’’نڑ‘‘سے بنائی گئی قلم کے ذریعے تختی پراردوکی کتاب سے وہ کہانی یامضمون لکھاجاتاتھاجواستادنے پڑھایاتھا۔ساتھ میں الفاظ معانی بھی لکھے جاتے تھے۔تختی کی ایک طرف اردوکہانی لکھی جاتی اوردوسری طرف پچاس یابیس تک گنتی لکھ دی جاتی تھی اورایک بارپھرتختی کوسوکھنے لیے دھوپ میں رکھ دیاجاتاہے ۔اگرخرابی موسم کے باعث دھوپ نہیں ہے توبھی تختی کوسکھانے کے لیے یاتوزورزورسے ہوامیں ہلایاجاتاتھایاپھرگھرمیں چولہے پرسکھادیاجاتاتھا۔صبح اسمبلی(پرے) تمام طلبہ کی تختیاں چیک کی جاتی جولائن میں کھڑے اپنی اپنی تختی پہلے ایک طرف دیکھاتے پھردوسری طرف(رازکی بات ہے کہ ایک دن کی لکھی تختی دوسرے دن بھی چل جاتی تھی) ۔۔۔۔ان تمام مراحل سے گزرنے کا مقصدصرف علم حاصل کرناتھا۔آج وہی تختی لکھنے والے طالب علم پروفیسر،ڈاکٹرز،وکلاء،عالم ہیں اورتعلیم کے دیگرشعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔تعلیم کے میدان میں پرائیویٹ ادارے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے یورپ کی تقلیدمیں مصروف عمل نئے نئے حربے سامنے لارہے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومتی تعلیمی ادارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تقلیدمیں آگے بڑھنے کی سہی میں مصروف ہیں۔وہ لطف علم حاصل کرنے کا شایداب بھی ہولیکن ہمارے نصاب تعلیم سے خوشنویسی جیسے سبجیکٹ کونکال دیاگیاہے (جبکہ خطاطی کولازمی مضمون سمجھاجاتاتھا)۔جس کے باعث آج کسی گریجویٹ طالب علم کی لکھی ہوئی تحریرکواگرآپ دیکھیں توآپ کوبھی حیرت ہوگی شاید آپ ایک باراس کی طرف ضروردیکھیں ،شایدآپ اس سے اس کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں بھی پوچھ لیں لیکن اس میں اس کاقصورکم ہوتاہے ہمارے نظام تعلیم کاقصورزیادہ نظرآئے گا۔۔۔۔۔قدیم زمانہ میں طالب علم تختی کولکھنے کے ساتھ ساتھ تختی کے ذریعے انٹرٹین یعنی کھیل کاذریعہ بھی بناتے تھے ،اپنی تختیوں کولڑانایا’’V‘‘شکل میں دوطالب علم تختیاں رکھ کرایک طرف سے ایک طالب علم اپنی دوات نیچے گراتادوسرادوسری طرف سے، اگران میں سے کسی کی دوات ٹوٹ جاتی تومدمقابل طالب علم جیت جاتاتھا۔تعلیمی سرگرمیاں اُس زمانہ میں ایک دلچسپی کاباعث بھی بنتی تھی اورطلباء اس میں محنت لگن بھی رکھتے تھے ۔خطاطی اب ایک پروفیشن بن چکاہے ۔یہ نصاب کاحصہ اب شایدنہ ہولیکن تاریخ اسلام میں بھی اس کی بہت اہمیت تھی اورہے ۔برصغیرمیں عمدہ خطاط گزرے ہیں جن کے فن پارے ،خوشنویسی کے نمونے آج بھی اچھے اندازاورقابل احترام نظروں سے دیکھے جاتے ہیں ۔حضرت عثمان ؓ کے دورمیں قرآن کریم کومرتب کیاگیامختلف صحابہ کرام نے قرآن کریم کی آیات کواپنی خطاطی کے ذریعے لکھنے کاشرف بھی حاصل کیاجن میں زیدبن ثابتؓ،عبداﷲ بن زبیرؓ،سعیدبن العاصؓ،عبدالرحمانؓ بن حارث شامل ہیں۔سلطان ناصرالدین محموداپنے وقت کے عمدہ خطاط وہ کاتب القرآن تھے اوران کاذریعہ معاش بھی یہی تھا۔ آخرمیں اعلی حکام سے کہوں کہ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں ہرقسم کی پوسٹ موجودہے لیکن خطاطی کے استادکی پوسٹ موجودنہیں ہے جس سے ہماری قومی زبان کوشدیدنقصان کاسامناہے ہمیں اس طرف توجہ دینی ہوگی ۔۔۔۔!!!!
Ahsan ul haq
About the Author: Ahsan ul haq Read More Articles by Ahsan ul haq: 10 Articles with 14324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.