سیکھنے کا عمل اور مفید گُر - قسط ۱

"ہائیڈروجن اور اسلم نان والا"

میں جب نوویں جماعت میں پہنچا تو اِس خیال سے کہ بچہ نئے مضامین (فزکس، کیمسٹری) سے ڈر ہی نہ جائے، اماں نے ابا جان سے کہا کہ شروع کے کچھ باب وہ خود پڑھا دیں۔ یہ بظاہر عام سی بات میری زندگی کے اہم ترین واقعات میں سے ہے کیونکہ اِس کے بعد لگ بھگ دو ماہ کے عرصے میں جو نشستیں ابو کے ساتھ ہوئیں اُنہوں نے آئیندہ خود سے پڑھنے اور سمجھنے کے لئے ایسا تیار کیا کہ پی ایچ ڈی ختم ہونے تک دوبارہ کبھی کسی سے پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی (بس کتاب ہو اور حوالے ہوں)۔ سلسلہ 'دلچسپیاں' کے اِس تھیم کے حوالے سے ارادہ ہے کہ جو ابو سے سیکھا اور جو خود بعد میں عادات میں شامل کیا اُس کا قسط وار ذکر کیا جائے، اِس امید کے ساتھ کہ شاید پڑھنے والوں کو بھی اِس میں کچھ مفید لگے (بالخصوص طلبہ کو)۔

آج کے بنیادی نکتے پر بات کرنے سے پہلے سیکھنے کے عمل کے بارے میں مختصراََ کچھ کہنا چاہوں گا۔ میری رائے میں اِس عمل کے تین اہم پہلو ہیں

- استطاعت
- محنت
- ٹکنیک

اِس بات سے قطع نظر کہ کسی کی سیکھنے کی فطری استطاعت کتنی ہے (اور اِس سے بھی قطع نظر کہ فطری استطاعتوں میں فرق ہوتا ہے یا نہیں) ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے ہاتھ میں بہرحال محنت اور موثر محنت (یعنی درست ٹکنیک کے ساتھ محنت) ہی ہیں جن میں ہم خود کو بہتر کر سکتے ہیں۔ اِس قسط وار سلسلے میں بنیادی طور پر تیسرے نکتے (ٹکنیک / موثر محنت) پر بات کرنے کا ارادہ ہے۔

اِس وضاحت کے بعد آتے ہیں پہلے گُر اور ابو کے ساتھ نشستوں کی طرف۔

ایک بات جو شروع ہی میں میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ ابو کے لئے یہ ناکافی تھا کہ کسی کانسیپٹ کی تعریف سمجھ لی جائے۔ مثلاََ اگر موضوع ہائیڈروجن ہے تو یہ جان لینا ناکافی ہے کہ یہ ایک عنصر (ایلیمنٹ) ہے اور اِس کا کیمیکل فارمولا کیا ہے، بلکہ اِس کی کہانی اور اِس کے نام کی کہانی جاننا بھی ضروری تھا کہ اِس کا نام آخر ہائیڈروجن ہی کیوں ہے (اسلم نان والا کیوں نہیں؟)، اور اِس کے بارے میں انسان کو کب اور کیسے پتا چلا؟۔ ہائیڈروجن تو ایک مثال ہے، پر معاملہ یہاں تک تھا کہ پہلی نشست میں بات کتاب کے ٹائیٹل سے شروع ہوئی کہ اِس مضمون کا نام کیمسٹری ہی کیوں ہے؟ (یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اگرچہ مغربی ٹیکسٹ بکس میں ایسی باتیں خوب شامل کی جاتی ہیں، ہمارے بورڈ کی ٹیکسٹ بکس میں عموما ایسی تفصیلات ناپید تھیں)۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اِس جان پہچان کا فائدہ کیا ہے؟

اِس کے لئے فرض کریں کہ کسی سٹیشن پر آپ کی مجھ سے چند لمحوں کے لئے ملاقات ہو جاتی ہے۔ میرے ساتھ میرے تین دوست ہیں جنہیں آپ نہیں جانتے۔ میں جلدی سے تعارف کرواتا ہوں کہ یہ سلیم، سہیل اور اسلم نان والا ہیں۔ ساتھ آپ کے مسکرانے پر فورا بتا دیتا ہوں کہ 'نان والا' اِس لئے کہ اسلم میاں سکول بریک میں کھانے کے لئے ہمیشہ گھر سے نان لایا کرتے تھے، سو ہم نے انکو نان والا کہنا شروع کر دیا۔ اب اگر آپ کی دوبارہ کبھی اِن تنیوں سے ملاقات نہ بھی ہو تو اِس بات کا کافی امکان ہے کہ اِن تینوں میں سے اسلم نان والا آپ کو زیادہ بہتر طریقے سے یاد رہے گا۔ اب ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ نام میں ہی ایک کہانی موجود ہو، پر جہاں ہو وہ آپ کے سیکھنے کے عمل میں مددگار ہو گی (کیونکہ انسانی ذہن 'دلچسپ' باتوں کو زیادہ بہتر طریقے سے نوٹ کرتا ہے)۔ سمجھنے کی غرض سے ہائیڈروجن کی طرف واپس آئیں تو یہ لفظ "ہائیڈرو" (پانی سے متعلق، جیسے ہائیڈرو پاور) اور "جن" (پیدائش سے متعلق، جیسے جَنریشن، جَنریٹر) کا مجموعہ ہے جس کے معنی بنتے ہیں "پانی پیدا کرنے والا"۔ یہ تو نام کے معنی ہو گئے، اب اِس کی کہانی یہ ہے کہ ہائیڈروجن دریافت کرنے والوں نے یہ نوٹ کیا تھا کہ اِسے آگ لگانے سے پانی بنتا ہے (اور اب ہمیں معلوم ہے کہ مناسب مقدار میں آکسیجن کی موجودگی میں ہائیڈروجن کو آگ لگائی جائے تو دونوں گیسیں مل کر پانی کے مالیکیول بناتی ہیں)۔ اِس طریقے سے لفظوں کی جڑ اور وجہ تسمیہ تک پہنچے کے عمل کو انگریزی میں Etymology اور اردو میں علمِ اشتقاق یا اشتقاقیات کہا جاتا ہے، اور ہمارا پہلا گُر بھی اسی عمل کے گِرد ہے: میں سمجھتا ہوں کہ اشتقاق کا شوق اور اِس عمل میں دلچسپی کسی بھی سیکھنے والے کے لئے ایک بے حد مفید اور موثر ہتھیار ہے۔ اِس کی مدد سے عموماََ الفاظ اور ان کے پیچھے کانسیپٹس سے آپ کی 'دوستی' سی ہو جاتی ہے، جو کسی بھی رٹے سے زیادہ دیرپا ہوتی ہے۔

بات بہتر طریقے سے ذہن میں بٹھانے کے لئے ہم اشتقاقیات کی ایک اور مثال دیکھتے ہیں۔

فرض کریں کہ آپ پہلی بار اٹلانٹک اَوشَن کے بارے میں سُنتے ہیں۔ اب اگر آپ میں اشتقاقیات کا شوق موجود ہے تو آپ یہ جاننا چاہیں گے کہ اِس کا نام 'اٹلانٹک' ہی کیوں ہے۔ تلاش پر آپ کو معلوم ہو گا کہ شمال مغربی افریقہ میں سمندر کے کنارے کنارے ایک اٹلس نامی پہاڑی سلسلہ ہے۔ تاریخی طور پر اِس سلسلے کے ساتھ ساتھ چلتے سمندر کو اٹلانٹک سِی کہا جاتا تھا جو نام بعد میں پورے اوشن (بحر) کو دے دیا گیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پہاڑی سلسلے کا نام 'اٹلس' کیوں ہے؟ تو آپ میں سے جو یونانی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ اٹلس ایک یونانی دیوتا ہے جس نے افلاک کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور قدیم یونانیوں کے مطابق وہ اِنہی پہاڑوں میں کہیں پایا جاتا تھا۔ اور دیوتا کا نام اٹلس کیوں ہے؟ تو زباندانوں کی ایک رائے یہ ہے کہ اٹلس جن یونانی الفاظ سے نکلا ہے اُن کے معنی 'بوجھ اٹھانا' ہیں (اِس سے آگے آپ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ بوجھ اٹھانے والے کے لئے وہ الفاظ کیوں ہیں جو ہیں، تو ہو سکتا ہے اُس کا جواب بھی مل جائے یا ہو سکتا ہے نہ ملے، بہرحال اب تک ہمیں "اٹلانٹک" کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہو چُکا ہے)۔

آخر میں یہ اشارہ کہ آپ کو عموماََ وکیپیڈیا اور دیگر آنلاین لغات میں Etymology کا سیکشن مل جائے گا، اِس پر غور کی عادت ڈالیں۔ جلدی میں ہوں تو گوگل سرچ میں مطلوبہ لفظ لکھ کر آگے Etymology لکھ سکتے ہیں، مثلاََ سرچ بار میں لکھیں

Pacific Etymology

ہوم ورک:

- اٹلانٹک اوشن کو اردو میں ہم بحرِ اوقیانوس کہتے ہیں۔ یہ اوقیانوس کیا بلا ہے؟
- پسیفک اوشن کا نام پسیفک کیوں ہے؟
- لفظ "اٹلانٹک" کے بارے میں جاننے کے بعد اگر کوئی آپ سے کہے کہ اٹلانٹک اوشن آسٹریلیا کے گِرد بحر کا نام ہے، تو کیا یہ بات ذہن میں کھٹکے گی؟ کیوں؟

Ibnay Muneeb
About the Author: Ibnay Muneeb Read More Articles by Ibnay Muneeb: 54 Articles with 64882 views https://www.facebook.com/Ibnay.Muneeb.. View More