مثال!

 ہم نے آگے جانا تھا، منور حسین سندھا کا سکول راستے میں پڑتا تھا، ہم نے انہیں اتارا اور واپسی پر ساتھ لینے اور ان کا سکول دیکھنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔ واپسی پر سکول آئے تو عجیب منظر دیکھا، گیٹ کے باہر تک چھڑکاؤ ہوا ہوا تھا،سکول کے اندر باقاعدہ رکاوٹ اورآنے والوں کے نام کی انٹری کا بندوبست تھا، ایک طرف سائکلوں اورموٹر سائکلوں کی نہایت سلیقے سے لمبی قطار تھی۔ بائیں ہاتھ گراؤنڈمیں مکمل فرنیچر کے ساتھ دو کلاسیں علم کے حصول میں مصروف تھیں، آگے ایک دو جگہ پر بچے ٹیسٹ دے رہے تھے۔ کچھ ڈیسک اور بنچ رنگ کئے جارہے تھے، (ہیڈماسٹر صاحب نے بتایا کہ یہ سکول ملازمین ہیں جنہیں فراغت تھی) ان کا سکول جنوبی پنجاب کی ایک پسماندہ تحصیل لودھراں میں ہے، شہر سے زیادہ دور تو نہیں، مگر خالص دیہاتی ماحول میں واقع ہے،ڈاکٹر منور کو یہاں آئے ہوئے ایک سال سے کم عرصہ ہوا ہے۔ انہوں نے ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، اب وہ یہاں ہیڈماسٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے دفتر میں داخل ہوئے تو وہ کسی بھی اچھے ادارے کے دفتر سے کم نہ تھا۔ کچھ ہی دیر میں ایک دھوتی پوش فرد اندر داخل ہوا ، اس نے کچھ فائلیں الماری میں رکھیں،ایک آدھ کام اور کیا اور باہر چلا گیا۔ منور صاحب نے بتایا کہ یہ فرد سالہاسال سے درجہ چہارم کا ملازم ہے، مگر اس نے کبھی سکول میں قدم نہیں رکھا تھا، کیونکہ اسے مقامی ایم پی اے نے بھرتی کروایا تھا، اس کی زمین بھی ہے، یہ صرف تنخواہ لینے کی حد تک ملازمت کررہا تھا۔ جب سے وہ سکول میں آئے ہیں، انہوں نے ریکارڈ دیکھا تو یہ فرد بھی سکول کے ملازمین میں موجود تھا، جب اسے بلوایا گیا تو اس نے خود آنے کی بجائے ایم پی اے سے فون کروایا، مگر ہیڈماسٹر صاحب کے قانونی دباؤ پر اسے سکول آنا پڑا۔

جب سے موجودہ ہیڈماسٹر صاحب نے سکول میں سربراہی کے فرائض سنبھالے ہیں، انہوں نے آتے ہی اساتذہ کو حاضری کو یقینی بنایا، کیونکہ بعض اساتذہ بھی ایسے تھے جو یا تو کسی سیاست دان کے نام پر سکول سے غیر حاضر رہ کر تنخواہ وصول کرتے تھے، یا پھر یونین بازی وغیرہ کے سہارے اپنا دباؤ بنا کر رکھتے تھے، مگر نئے ہیڈماسٹر کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی۔ اس کے بعد انہوں نے ہر کلاس کی الگ سے حاضری منگوائی تو معلوم ہوا کہ ہر کلاس میں کم سے کم پندرہ بیس ایسے بچوں کے نام موجود ہیں جن کا سکول میں کوئی وجود ہی نہیں۔ اس جعلی بھرتی کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ’اوپر‘ سے داخلوں کا دباؤ ہوتا ہے، اس لئے ای ڈی اور ایجوکیشن اور ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر وغیرہ کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے۔ منور صاحب نے جعل سازی کو ختم کرکے اصل بچوں کے نام لکھنے کی روایت قائم کی۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ نئے داخلوں کے موقع پر سکول کی اصل حاضری اس جعل سازی والے زمانے کے قریب پہنچ گئی۔ منور صاحب نے ہمیں سکول کا وزٹ کرواتے ہوئے بتایا کہ سکول میں کوئی بھی افسر کسی بھی وقت آجائے، سکول کے کسی کونے میں کاغذ کا کوئی ٹکڑا گرا ہوا دکھائی نہیں دے گا۔ سکول کا کوئی استاد تو دور کی بات ہے کوئی ایک بچہ بھی میری چٹ کے بغیر سکول کے گیٹ سے باہر نہیں جاسکتا۔ سکول میں ڈسپلن مثالی ہے جبکہ مار نہیں پیار کے سرکاری حکم پر مکمل عمل درآمد کیا جارہا ہے۔

سکول عمارت کے آخر میں انہوں نے ہمیں کچھ کمرے دکھائے، جن کی چھتیں اتار دی گئی تھیں اور دیواریں گرادی گئی تھیں ، ملبہ کو سلیقہ سے الگ الگ کر کے رکھا جارہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے سکول کے لئے چند لاکھ روپے دیئے ہیں، ٹھیکیدار سے بات کی گئی ہے ، مگر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم خود اپنی نگرانی میں کمرے بنوائیں گے، جن پر ٹھیکیداری نظام سے بہت ہی کم لاگت آئے گی۔ جس سے تمام بچوں کے لئے کلاس روم بھی تعمیر ہوجائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ بے شمار بچے سکولوں سے باہر بھی موجود ہیں، جنہیں سکول لانے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے، مگر اس میں ان پڑھ والدین بھی بہت بڑی رکاوٹ ہیں، ان کے رویے بھی قابلِ افسوس ہوتے ہیں۔ سکول کے اساتذہ کو پڑھانے، ڈسپلن قائم کرنے اور بچوں کی تربیت وغیرہ کے معاملات کے لئے قائل کرنے میں کافی مشکلات پیش آئی ہیں، منور صاحب کی مستقل عادت ہے کہ وہ تیس کلومیٹر سے زائد سفر کرکے سکول وقت سے آدھ گھنٹہ قبل پہنچ جاتے ہیں۔ سکول سے نکلنے وقت ہم لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ کوئی دیانتداری سے کام کرنے والا ہو تو سکول مثالی ہوسکتا ہے، خواہ وہ دیہات میں ہو یا شہر میں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 431879 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.