بعثہ الازہر کی علمی و دعوتی سرگرمیاں

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ماضی کی طرح حالیہ سال میں بھی جامعہ ازہر نے اپنے ماہرین اساتذہ کا وفد بھیجا ہے جو ان شا اﷲ آئندہ پانچ سال تک اپنی تعلیمی و علمی اور دعوتی خدمات پیش کرتارہے گا۔ان اساتذہ میں علم تفسیر،علم حدیث ،علم سیرت و تاریخ ،علم فقہ و اصول فقہ اور عربی ادب و بلاغت جیسے مختلف شعبہ جات کے ماہرین شامل ہیں۔جامعہ ازہر کے اساتذہ جہاں پر طلبہ کی علمی و تحقیقی میدان میں مدد و رہنمائی کرتے ہیں اسی طرح وہ گاہے بگاہے طلبہ کی فکری بلندی اور دین کی درست تفہیم ،زندگی میں مختلف پیش آمدہ مسائل کا حل ،دشمنان اسلام و مستشرقین و مستغربین کے اسلامی تعلیمات پر اعتراضات کے ذریعے مسلمانوں کے ایمان کی چولیں ہلانے کے لئے شکوک و شبہات پیداکرنے کی کوششوں کے رد ود و مقابلہ کرنے کا لائحہ عمل سے واقف کرانے کے لئے خطبات جمعہ، سیمینار زاور ورکشاپس کابھی اہتمام کرتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ اسلامی یونیورسٹی کے اندر اور باہر مختلف الخیال علماء و مفکرین اور تعلیمی اداروں اور مساجد و مدارس کا دورہ بھی کرتے رہتے ہیں۔اس تحریر میں بعثہ ازہر کی علمی و دعوتی سرگرمیوں کی اختصارکے ساتھ تفصیل قارئین کے ذوق مطالعہ کے لئے پیش خدمت ہے۔

بعثہ ازہر کی جانب سے سب سے پہلا پروگرام امام ابوحنیفہ بلاک اسلامی یونیورسٹی میں مورخہ 21-10-15کو ’’سنت نبوی کی تفہیم ‘‘سے متعلق سمینار منعقد کیا گیا جس میں کلیہ اصول الدین کے شعبہ حدیث کے اساتذہ ڈاکٹرمحمد عبدالظاہراور ڈاکٹر محمد الوردانی نے علم حدیث کا تعارف،علم حدیث و علم سیرت میں فرق اور علم حدیث کی اہمیت و افادیت ، اس کی درست تفہیم ، منکرین سنت کے اعتراضات کا مکمل علمی جائزہ لیتے ہوئے رد پیش کیا۔انہوں نے ذکر کیا کہ مستشرقین متعدد اعتراض کرتے نظر آتے ہیں جیسے منٹگمری واٹ اعتراض کرتے ہوئے کہتاہے ’’کہ نبی کریم ؐ کے بعثت سے قبل غار حرا میں رب کریم کی عبادت کرنے نہیں جاتے تھے اور نہ ہی انہیں تلاش حق تھی بلکہ وہ غربت و افلاس سے تنگ آکر اہل مکہ سے چھپنے کے لئے غار میں جاتے تھے‘‘۔اس کے جواب میں ڈاکٹر محمد عبدالظاہر نے کہا کہ اول بات تو یہ ہے کہ بعثت سے قبل متعدد ایسی شخصیات موجود تھیں جو بتوں کی عبادت پر یقین نہیں رکھتے تھے اور ان کو حنفاء کہا جاتاتھا جن میں ورقۃ ابن نوفل ،زید بن عمرو،عثمان بن الحویرث اور عبیداﷲ بن جحش شامل تھے،تو ایسے میں تعجب کی بات نہیں کہ نبی کریم ؐ غار میں تلاش حق میں نہیں بلکہ کسی اور غرض و مقصد کے لئے جایا کرتے تھے۔دوسری بات یہ ہے کہ حضور اقدس ؐ نے غار حرا میں جانا جب شروع کیا تو اس وقت آپؐ کی شادی ہوچکی تھی اور شادی بھی حضرت خدیجہ بنت خویلد کی ساتھ ہوئی تھی جو مکہ کی مال دار ترین خاتون تھیں تو اس سے بھی مٹگمری واٹ کے موقف کی نفی ہوجاتی ہے۔

دوسرا پروگرام امام ابوحنیفہ بلاک اسلامی یونیورسٹی میں مورخہ 4-11-15کو ’’قرآن مجید کے بارے میں شبہات‘‘سے متعلق انعقاد پذیر ہوا جس میں کلیہ اصول الدین کے شعبہ علم تفسیر کے استاذ ڈاکٹر عبدالمحسن نے موضوع کی مناسبت سے گفتگوکی ۔اس میں انہوں نے ذکر کیا کہ اﷲ تعالی نے انسانیت کی رہنمائی کے لئے اپنی آخری کتاب قرآن مجیدکو نازل کیا ،قرآن حکیم میں نوع بشر کی تمام مشکلات و پریشانیوں اور ضروریات کو اختصار کے ساتھ بیان کردیاگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اﷲ جل شانہ نے اپنے کلام میں صرف علوم شرعیہ کو بیان نہیں کیا بلکہ اس میں علم فلک،علم تاریخ ،علم حساب ،علم جغرافیہ سمیت متعدد علوم کا ذکر کردیا ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اسلام میں دینی و دنیاوی علوم کی کوئی ثنویت نہیں ہے ۔ڈاکٹر عبدالمحسن نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ قرآن چونکہ تمام علوم کا سرچشمہ ہے اور اس میں اجمالی طور پر تمام علوم کا ذکر کردیا گیا ہے لہذا اس کی تفسیر و شرح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مفسر قرآ ن کو علم دنیاوی پر بھی دسترس حاصل ہونی چاہیے ۔اسی طرح انہوں نے کہا کہ علم تفسیر میں داخل ہونے والے کو یہ جان لینا چاہیے کہ کلام الٰہی کے مقاصد ومطالب کی شرح کرتے وقت ذمہ داری کا احساس رکھنا ہوگا کیوں کہ اﷲ کے کلام میں کسی بھی قسم کا تغیر و تبدل ،یا تحریف و ترمیم اور اس کے بارے میں شک و شبہ کو جنم دینے کی صورت میں دنیوی و اخروی ذلت مقدر بن جائے گی۔

تیسرا پروگرام امام ابوحنیفہ بلاک اسلامی یونیورسٹی میں مورخہ 18-11-15کو’’اسلامی دعوت کے اسالیب و سائل ‘‘کے عنوان سے منعقد کیا گیا ۔جس میں کلیہ اصول الدین کے شعبہ دعوت اور اسلامی ثقافت کے استاذ ڈاکٹر محمدی حضیری عبدالبصیر نے خطاب کرتے ہوئے ذکرکیا کہ دنیا میں اسلام کی دعوت تلوار کے زور سے نہیں پھیلی بلکہ مسلمانوں نے جہاد میں بھی کیا تواس میں تین شرائط پیش کرتے تھے کہ یا تو اسلام قبول کرلیں یا جزیہ دیں اور آخری درجہ میں جہاد کی بات کی جاتی،کیوں کہ مسلمانوں کا مقصد اصلی یہ ہوتاتھا کہ اسلام کی دعوت سارے عالم میں منتقل کی جائے چونکہ اس دین متین کی بعثت روز امر تک کے لئے ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فارس کے عسکری جرنیل رستم نے جب حضرت ربعی بن عامرؓ سے فارس میں آنے کی غرض و غایت پوچھی تو انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ ’’ہمیں اﷲ نے بھیجاہے انسانوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر ایک خدائے واحد کی بندگی میں لے آئیں ، ادیان و مذاہب کے جور و ستم سے اسلام کے عدل کی طرف بلائیں اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر انسانیت کو دنیا کی وسعت میں منتقل کریں‘‘۔لہذا یہ بات کہنا غلط و بے بنیاد ہے کہ اسلام طاقت سے پھیلا ۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی دعوت کو تمام اقوام تک پہنچاناملت اسلامیہ کے افراد پر لازم ہے چاہے ان کو اس کے لئے جدید سے جدید اور الکٹرانک و پرنٹ اور سوشل میڈیاکا ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے اور اسی طرح مساجد و مدارس اور جامعات سے بھی اسلامی کی حقیقی دعوت اور پیغام منتقل کیا جائے تاکہ کائنات دنیوی کا کوئی کچا پکا گھر مشرق و مغرب میں اسلام سے لاعلمی و ناواقفیت کا اظہار نہ کرسکے۔

چوتھا پروگرام ابن خلدون اور امام ابوحنیفہ بلاک کے مابین واقع سبزہ زار میں مورخہ 2-12-15کو ’’محفل حسن قرأت ‘‘کا اہتمام کیا گیا ۔جس میں مصر کے مشہور و معروف قراء حجاج رمضان الھنداوی،ڈاکٹر رضا جمعہ منصور ،محمد علی الطاروطی اور پاکستان کے عطاء الرحمن عابد و افریقہ کے محمد زبیر اور برطانیہ کے محمد ایوب آصف نے خوبصورت و دلکش اور درد مندانہ انداز میں تلاوت کلام مجید سے طلبہ کے دلوں کو نور کی برسات سے منور کیا۔ قرآن حکیم کے فضائل اور اس کی تلاوت و سماعت کی اہمیت کو بعثہ الازہر کے اساتذہ ڈاکٹر محمدی حضیری عبدالبصیر،ڈاکٹر محمد اعبدالظاہر،ڈاکٹر حسن عبدالباقی نے بیان کیا ۔اسٹیج پر پروگرام کے منتظمین ڈاکٹر عبدالقادر ہارون ڈپٹی سٹوڈنٹ ایڈوائزر،ڈاکٹر بشیر خان نائب صدر اسلامی یونیورسٹی اورڈ اکٹر عبدالمحسن جمعہ سمیت یونیورسٹی کے تمام مصری و پاکستانی اساتذہ نے شرکت کی۔

پانچواں پروگرام امام ابوحنیفہ بلاک اسلامی یونیورسٹی میں مورخہ 16-12-15کو’’شریعت اسلامی میں آسانیاں‘‘کے موضوع پر ایک علمی و تحقیقی سمینار منعقد ہوا۔جس میں کلیہ شریعہ کے استاذ ڈاکٹر محمود حربی نے اسلامی شریعت و فقہ کی اہمیت اور اس میں فراہم کی گئی رخصتوں کا جائزہ پیش کیا ۔انہوں نے کہا کہ اسلام وہ دین متین ہے جس میں پاپائیت و نام نہاد مذہبی ذمہ داروں کا کوئی تصور نہیں ہے جس کے سبب مسلمانوں اور انسانو ں کے لئے بے حد آسانی پیدا ہوگئی ہے کہ انسان سے اگر کوئی غلطی یا گناہ سرزد ہوجاتاہے تو وہ رب کریم کے حضور صدق دل سے توبہ کرلیتاہے تو اس کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں جب کہ مسیحی مذہب کے علمبردارمذہبی سکالر مطالبہ کرتے تھے کہ ان کے سامنے گناہوں کا اعتراف کیا جائے اور پھر جرمانہ و ہدیہ دے کر گناہ و غلطی سے معافی مل جائے گی،اس عمل سے انسانوں کی عزت و عظمت خاک میں مل جایا کرتی تھی ۔ڈاکٹر محمود حربی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا ہے کہ روزے کو وقت جوکہ سابقہ ادیان میں رات و دن پر محیط ہوتاتھا کو کم کرکے غروب آفتاب تب کردیا ہے،اسی طرح نماز کی ادائیگی کے لئے قیام میں اگر مشکل پیش اتی ہوتو بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اسی طرح اﷲ جل شانہ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے قبولیت صدقہ سے متعلق حکم دیا کہ اس کو نکالتے وقت نیت خالص ہونی چاہیے اور گوشت و خون سے خدا کو سروکار نہیں چاہوتو خود کھالویا غربا میں تقسیم کردو مگر قبولت و ثواب و اجر میں کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی۔

بعثہ ازہریہ نے طلبہ کی علمی و دعوتی تربیت کرنے کے ساتھ طالبات کو بھی اسلامی تعلیمات کی حقیق روح سے واقف کرانے کی سعی کی جس میں سے ایک پروگرام اسلامی یونیورسٹی کی مرکزی سنٹرل لائبریری میں مورخہ23-12-15 کو ’’سیرت نبی ؐ مؤرخین کی روایات اور مستشرقین کے شبہات کے مابین‘‘کے موضوع سے منعقد ہوا ۔جس میں کلیہ اصول الدین کے شعبہ سیرت و تاریخ کے استاذ ڈاکٹر عبدالرحمن حماد نے موضوع کی مناسبت سے خطاب کیا ۔انہوں نے اس لیکچر میں مستشرقین کا تعارف اور ان کے اسالیب اور ان کے مطالعہ اسلام کے نقصانات ومضمرات کو مفصلاً بیان کیا۔اور انہوں نے بعض مستشرقین کے اعتراضات جو سیرت نبیؐ پر کئے گئے ہیں ان کا جواب پیش کیا۔

قسم السیرۃ والتاریخ کے اساتذہ نے کلیہ اصول الدین کے طلبہ کی عربی بول چال اور کتابت کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کمی کودور کرنے کی خاطر عربی بول چال اور عربی میں لکھنے اور پڑھنے کی تربیت دینے کے لئے دوماہ کا مکمل فری عربی زبان دانی کورس کا اہتمام کیا ۔ اس کورس کے آخر میں امتحان کا انعقاد کیا گیا تھا رزلٹ کے نتیجہ میں دس طلبہ میں قیمتی انعامات تقسیم کیے گئے اور باقی شرکائے کورس کو شرکت کورس و امتحان کی اسناد جاری کی گئیں۔اس کورس کے انعقاد کے بعد طلبہ کے لئے اب کوئی بہانہ یا حیلہ باقی نہیں رہا کہ وہ عربی میں کمزورہوں اب اگر کمزوری کا شکوہ طلبہ کی زبان پر جاری ہوتاہے تو یہ کوتاہی خود طلبہ کی ہی ہو گی۔اساتذہ قسم السیرۃ والتاریخ نے آئندہ سمسٹر میں بھی عربی زبان دانی کورس کے انعقاد کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے ،اس فرصت و سہولت سے فائدہ اٹھانا تمام پاکستانی طلبہ پر خصوصا ً اورباقی طلبہ پر عموماً لازم ہے۔

بعثہ ازہر کے اساتذہ جہاں پر تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں وہیں پر معاشرتی و معلوماتی اور تبادلہ خیالات کے لئے مختلف مدارس و جامعات اور مساجد کا دورہ کرتے ہیں جہاں پر وہ عام انسانی زندگی میں پیش آنیت مسائل سے واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ ان کے حل کے لئے تجاویز پیش کرتے ہیں ۔اس سلسلہ کا ایک مطالعاتی وفد پاکستان کے سب سے قدیم یتیموں کی پرورش کرنے والے ادرہ انجمن فیض الاسلام فیض آباد راولپنڈی گیا جس میں ڈاکٹر عبدالمحسن جمعہ ،ڈاکٹر ولید محمد ابراہیم ،ڈاکٹر عبدالرحمن حماد،ڈاکٹر ممدوح الشعراوی اورڈاکٹر محمد عبدالظاہر شریک تھے۔جہاں پر اساتذہ کا استقبال انجمن فیض الاسلام کے نائب صدر پروفیسر نیاز عرفان نے کیا ۔بعثہ کے وفد نے انجمن فیض الاسلام کی تاسیس اور غرض و غایت اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد،انجمن کے شعبہ جات و ذیلی اداروں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ہی انجمن میں اسلامی تعلیم و تربیت اور عربی زبان کی تعلیم سے متعلق پروفیسر صاحب سے استفسار کیا تو جس کے جواب میں پروفیسر نیاز عرفان صاحب نے بتایا کہ تقریبا ایک ہزاریتیم طلبہ یہاں زیر تعلیم ہیں اور ان طلبہ کو میٹرک و ایف اے تک یہاں تعلیم دی جاتی ہے اور بعد میں تعلیم جاری رکھنے کی خواہش رکھنے والے طلبہ کویونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مصروفات بھی دہیے جاتے ہیں،اسلامی تعلیم میں شعبہ حفظ و ناظرہ کا انتظام موجود ہے اور عربی زبان سے متعلق جو کتب فیڈرل بورڈ کے نصاب میں متعین ہے اس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے تاہم فی الحال علیحدہ کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔۔انجمن کے صدر میاں محمد صدیق نے بتایا کہ اس ادارہ کو جلانے تمام منتظمین فری میں کام کرتے ہیں اور انجمن کے جنرل سیکرٹری راجہ فتح خان گذشتہ پچاس سال سے اپنی خدمات انجمن میں پیش کئے ہوئے ہیں بوجود اس کے کہ وہ دونوں پاؤں سے معزور ہیں اور چلنے پھرنے سے عاجز ہیں اس لئے ان کی رہائش بھی انجمن کے مرکزی دفتر میں ہے۔ڈاکٹر عبدالمحسن نے منتظمین انجمن سے سوال کیا کہ اساتذہ ازہر انجمن کے ساتھ کس اعتبار سے تعاون کرسکتے ہیں جس کے جواب میں جنرل سیکرٹری نے کہا کہ ہم ان شا اﷲ اپنی مشاورتی اجلاس میں اس امر سے متعلق غور کریں گے اور فیصلہ سے متعلق آپ کو آگاہ کریں گے ان شا اﷲ۔

اسی طرح بعثہ ازہر کے اساتذہ ڈاکٹر عبدالمحسن جمعہ اور ڈاکٹر ولید محمد ابراہیم نے مدرسہ رحمانیہ ، جامع مسجد علی المرتضیٰ جی چودہ بالمقابل خیابان کشمیرکا دورہ کیا ،جہاں پر اساتذہ کا استقال مدرسہ کے مہتمم قاری محرم علی شاہ اور ناظم قاری عمر شاہ نے کیا ۔اس ملاقات کے دوران مدرسہ و مسجد کی خدمات و تعارف پر بات چیت ہوئی ۔ڈاکٹر عبدالمحسن جمعہ نے ’’سیرت النبی ؐ قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘کے موضوع پر جمعہ کا خطبہ پیش کیا۔جس میں بیان کیا گیا کہ حضوراکرمؐ کی حیات مبارکہ قرآن مجید کی عملی تصویر تھی اور اسی کو صحابہ کرامؓ نے بھی اختیار کیا ۔آج ملت اسلامیہ پر لازم ہے کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا و عقبیٰ کی کامیابی و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اتباع نبویؐ اور اتباع صحابہ ؓ کو اختیار کریں۔

مندرجہ بالاسرگرمیوں کا ذکر بالاختصار کردیا گیا ہے وگرنہ خطبات جمعہ اور دیگردعوتی و معاشرتی سرگرمیوں کی مکمل تفصیلی رپورٹ کے لئے تو سجلات درکار ہیں۔تمام سیمینارز و کورسز میں شریک طلبہ میں انعامات بھی تقسیم کیے گئے تھے۔بعثہ ازہر کی ان کامیاب خدمات پر ان کے شکر گزار ہیں کہ وہ علم کی نشرو اشاعت کے ساتھ ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کی فکری و نظریاتی اور اخلاقی و اصلاحی تربیت کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔

atiq ur rehman
About the Author: atiq ur rehman Read More Articles by atiq ur rehman: 125 Articles with 132022 views BA HONOUR ISLAMIC STUDIES FROM INTERNATIONAL ISLAMIC UNIVERSITY ISLAMABAD,
WRITING ARTICLES IN NEWSPAPERS SOCIAL,EDUCATIONAL,CULTURAL IN THE LIGHT O
.. View More