تحریر……علامہ ڈاکٹرسیدمحمدوقاص ہاشمی
جا نناچاہیے کہ علم حا صل کر نا ہر مسلمان پر فر ض ہے …… اس لئے کہ علم بڑ
ی دولت اور عظیم روشنی ہے…… اﷲ تعا لیٰ نے حضو ر نبی کر یم ﷺ پر جو سب سے
پہلی وحی بھیجی اس میں بھی آ پ ا کو ( اقر أ ) یعنی پڑ ھنے کا حکم دیا گیا
ہے ……چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: ’’پڑھئے! اپنے رب کے نام سے، جس نے سب کو
پیدا کیا جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھئے اور تمہارا
رب ہی سب سے بڑاکریم ہے، جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ، انسان کو وہ علم
سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘……(سورۃالعلق آیت 1-5)
اس لئے معلم انسانیت حضور نبی کریم ﷺ اﷲ تعالیٰ سے مال ودولت میں زیادتی کی،
جاہ ومنصب اور دنیاوی زندگی کی نہیں بلکہ صرف اورصرف ’’علم‘‘ میں اضافے کی
دعا مانگتے ہیں…… رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً……’’اے اﷲ! میرے علم میں اور اضافہ
عطا فرما‘‘۔(سورۂ طہٰ: 114)
٭تعلیم ِکتاب و حکمت اور بعثت نبوی :
قرآن و حدیث میں ’’تعلیم ِکتاب و حکمت‘‘ کو آپ ﷺ کے مقاصدِ بعثت میں سے
بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب حضور سید عالم ﷺ اس بزم عالم میں رونق افروز
ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنی بعثت مبارکہ کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ ……انما بعثت
معلما…… یعنی’’میں بہ طورِ خاص معلم (پڑھانے والا) بناکر مبعوث ہوا ہوں‘‘۔(سنن
دارمی: جلد 1صفحہ 84)
علم چونکہ ایک عظیم منصب ہے اور اس کو حاصل کرنا مسلمانوں کی بنیادی ذمہ
داری قرار دی گئی ہے، لہٰذ ا اس کی تبلیغ اور ترویج و اشاعت بھی مسلمانوں
پر ضروری ہے جس کی اولین ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اسلامی
حکومت کا یہ اولین فریضہ ہے کہ وہ عوام کو علم حاصل کرنے کیلئے زیادہ سے
زیادہ سہولتیں فراہم کرے اور علم کو ہر ایک کیلئے عام کرے۔
٭ریاستِ مدینہ اور الصفہ اکیڈمی کا قیام:
چنانچہ حضور سید عالم ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست ’’مدینہ منورہ‘‘ کے قیام کے
موقع پر سخت دشواریوں کے باوجود ایک دارالعلوم (تعلیمی ادارہ) یعنی اسلامی
تاریخ کی پہلی یونیورسٹی ’’ الصفہ یونیورسٹی‘‘ قائم فرمائی، جہاں لا تعداد
تشنگانِ علم و معرفت نے براہِ راست فیض نبوت حاصل کیا او ردنیا بھر میں علم
کی شمعیں روشن کی۔ آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہر مسجد مرکز علم و معرفت بن
چکی تھی اور علم حاصل کرنے کا ذوق عام ہو چکاتھا۔
علم کی اہمیت، عظمت اور فضیلت کے پیشِ نظر حضور سید عالم ﷺ نے اس کی تبلیغ
اور ترویج و اشاعت کی ابتداء فرمائی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے مسجد نبوی ﷺ میں ایک
عظیم الشان علمی درسگاہ بہ نام ’’الصفہ‘‘ قائم فرمائی ……جس میں صحابۂ کرام
ث دن رات علم و معرفت اور قرآن و حدیث سیکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ اس
درسگاہِ صفہ کی نگرانی بھی رسول کریم ﷺ خود فرما یا کرتے تھے۔ اسی طرح جنگِ
بدر کے دن خواندہ (پڑھے لکھے) کافر قیدیوں کا یہ فدیہ مقرر کیا گیا تھا کہ
وہ انصار کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔(مجمع الزوائد: جلد 4 صفحہ172)
ویسے تو علم کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً علم کلام ، علمِ منطق، فلسفہ،
سائنس، ریاضی، بیالوجی، علمَ صرف، علمَ نحو، تاریخ و سیرت، علمِ بیان و
معانی، علمِ طب وغیرہ اوریہ تمام علوم محمود و مستحسن ہیں۔لیکن ان تمام
علوم میں سب سے افضل و اعلیٰ اور تمام علوم کا مرکز و منبع علمِ دین(قرآن و
سنت اور احکامِ شریعت کا علم) ہے۔ اور یہ کہ دینی علوم ’’ علوم عالیہ ‘‘ہیں
اور عصری علوم’’ علوم آلیہ‘‘ ہیں اور عصری علوم کے ذریعے علوم عالیہ کا
حصول ممکن ہے اور علوم دینیہ پر دنیوی اور اُخروی فوزو فلاح اور نجات کا
دارومدار ہے اور یہی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک رفعت و بلندی کا سبب ہے۔
اس لیے حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ علمِ دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر
فرض ہے۔ علم چوں کہ اﷲ تعالیٰ کی صفتِ جلیلہ ہے تو جو شخص اِس صفتِ جلیلہ
سے متصف ہو گا،وہ اﷲ تعالیٰ کو پوری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہو گا اور
جو شخص جتنا زیادہ علم و معرفت رکھتا ہو گا، وہ اتنا ہی زیادہ اﷲ جلّ شانہ‘
کو محبوب ہو گاکہ علم کی روشنی کے ذریعے ہی جہالت اور گمراہی کو دور کیا جا
سکتا ہے۔اس لیے کائنات کے عظیم ترین معلّمِ کامل حضورسیّد عالم ﷺ نے حصولِ
علم کو اور اِس کی ترویج و اشاعت کو دینی فریضہ قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ کاارشادِ
گرامی ہے کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پرفرض ہے‘‘۔(شعب
الایمان جلد ۲ صفحہ ۲۵۲)
٭معلّم اور متعلّم کی عظمت وفضیلت:
قرآن مجید میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے متعدد آیات ِ مبارکہ میں علم والوں کی
عظمت و شان اور فضیلت و اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’ تم میں سے جو کامل ایمان والے اور علم والے
ہیں، اﷲ تعالیٰ (قیامت کے روز)اُن کے درجات بلند فرمائے گا‘‘․․․․․ (سورۃ
المجادلہ: آیت11)
٭ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشادِ خداوندی ہے : ’’(اے حبیبﷺ ) آپ فرما
دیجئے کیا جو لوگ جانتے ہیں اور جو لوگ نہیں جانتے ، وہ برابر ہیں
؟‘‘․․․․․(الزمر ،آیت۹)
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اسلام پر جب بھی کوئی کٹھن آیا ، اﷲ تعالیٰ کی
مخلوق نے جب بھی اپنے مالک و خالق کی نافرمانی کی ، تو علمائے کرام اور
فقہائے عظام نے اُسی وقت مخلوقِ خدا کی راہنمائی اور پیشوائی کر کے اُنھیں
صراطِ مستقیم پر گامزن کر دیا۔ خود بھی اپنے خالق و مالک سے ڈرے اور لوگوں
کو بھی تقویٰ و پرہیزگاری کا سبق دیا․․․چنانچہ اﷲ جلّ شانہ‘ کا ارشاد ہے……
’’اُس کے بندوں میں سے خاص وہی اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں،جو علم والے
ہیں‘‘۔۔۔(سورۃ الفاطر:آیت28)
٭ اسی طرح ارشادِ خداوندی ہے: ’’پس (اے لوگو!) تم علم والوں سے پوچھو، اگر
تم کسی چیز کا علم نہیں رکھتے‘‘․․․․․․․․(النحل:آیت43)
٭ سورۂ آل ِعمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اﷲ نے گواہی دی کہ اُس کہ
سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور فرشتوں اور علم والوں نے بھی (یہی
گواہی دی) ، دراں حالیکہ وہ قائم بالعدل تھے‘‘․․․․․․(آل ِعمران:آیت18)
اﷲ تعالیٰ نے اپنی واحدانیت اور بندگی سے پہلے اپنی شہادت کا ذکر فرمایا،
پھر فرشتوں کی شہادت کا ذکر فرمایااور پھر صاحبانِ علم کی شہادت کا ذکر
کیااور یہ اہلِ علم کی بہت بڑی عزت افزائی اور سعادت ہے۔
٭ ’’اور یہ مثالیں ، جن کو ہم لوگوں (کی ہدایت)کے لیے بیان فرماتے ہیں، اُن
کو صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں‘‘․․․․(العنکبوت:آیت43)
٭معلّم اور متعلّم کی عظمت وفضیلت بزبان احادیث:
اسی طرح علم دین حاصل کرنے والوں کی عظمت اور فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور
نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ : ’’جو شخص علم کی طلب میں نکلے ، وہ لوٹ
کر آنے تک اﷲ تعالیٰ کے راستے میں ہے‘‘․․․․․(جامع ترمذی، مشکوۃ)
٭حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد
فرمایاکہ : ’’اﷲ تعالیٰ جس شخص کے لیے خیرو بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے،تو
اُس کو دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے ‘‘۔ ․․․․․(صحیح بخاری ،مشکوۃ
المصابیح)
٭ حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بیان
فرمایا:’’صرف دو چیزوں(اور دوشخصوں) میں رشک کرنااچھا ہے۔ ایک وہ شخص جس کو
اﷲ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اس کو نیکی کے راستے میں خرچ کرتا ہو…… اور
وہ شخص جس کو اﷲ نے (علم اور)حکمت سے نوازاہو اور وہ اُس کے مطابق فیصلہ
کرے اور اُس کی تعلیم دے‘‘․․․․․․․(صحیح بخاری٭صحیح مسلم)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایاکہ:
’’ہر چیز کا ستون ہوتا ہے اور اسلام کا ستون دین کی فقہ(سمجھ بوجھ) ہے اور
ایک فقیہ (مفتی وعالم شریعت)شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا
ہے‘‘۔(شعب الایمان: جلد2:صفحہ267)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو
آدمی علم کو تلاش کرنے کے لیے کسی راستے پر چلے، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت
کاراستہ آسان کردیتا ہے‘‘۔(صحیح مسلم/مشکٰوۃ المصابیح)
٭حضرت علی المرتضٰی کرم اﷲ وجہہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ : ’’ جس شخص نے قرآن مجید پڑھا اور اس کو یاد کیا ، اﷲ تعالیٰ اس
کو جنت میں داخل فرمائے گااور اسے اس کے گھر کے ان دس افراد کیلئے شفاعت
کرنے والا بنادے گا، جو جہنم کے مستحق ہو چکے ہوں گے‘‘۔(سنن ابن ماجہ)
٭حضرت علی المرتضیٰص سے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ اﷲ کی قسم!
اگرتمہارے ذریعے اﷲتعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دے د ے ،تو یہ تمہارے لیے
سُرخ اونٹوں (پر مشتمل گراں قدر دولت) سے بہترہے‘‘۔(صحیح بخاری:رقم
الحدیث3701)
٭حضرت ابن عباس ث بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قیامت
کے دن علماء کے لکھنے کی روشنائی کو شہداء کے خون کے ساتھ وزن کیاجائے گا
تو علماء کی روشنائی کا وزن، شہداء کے خون(کے وزن) سے زیادہ وزنی
ہوگا‘‘۔(کنزالعمال: جلد 10صفحہ (173
٭حضرت ابو درداء صبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نور مجسمﷺ نے ارشاد فر
مایاکہ: ’’جو شخص بھی علم کی تلاش میں کسی راستہ پر چلتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس
کے اجر میں اس کو جنت کے راستے پر چلاتا ہے، اور بلاشبہ طالب علم کی رضا
جوئی کیلئے فرشتے اپنے پر جھکاتے ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزیں
حتیٰ کہ پانی کی مچھلیاں بھی عالم کی مغفرت کی دعا کرتی ہیں…… اور عالم کی
فضیلت عابد پر ایسی ہے، جیسے چاند کی تمام ستاروں پر ہے اور بے شک علماء
انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، اور انبیاء کرام کسی کو دینار اور
درہم کا وارث نہیں بناتے، وہ تو صرف علم کا وارث بناتے ہیں۔ سو جس شخص نے
علم کو حاصل کرلیا، اس نے عظیم حصہ کو حاصل کرلیا ہیـ‘‘۔(جامع ترمذی، ابو
داؤد، ابن ماجہ، مسند امام احمد)
٭حضرت حسن بصری صبیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ: ’’جو شخص احیاء
اسلام کے لئے علم کو طلب کررہا تھا اور اس حال میں اس کو موت آگئی، اس کے
اور انبیائے کرام علیہم السلام کے درمیان جنت میں صرف ایک درجہ
ہوگا‘‘……(سنن دارمی)
٭حضرت ابوذر غفاری ص سے روایت ہے رسول کریمﷺ نے ارشاد رفرما یا :’’ کہ اے
ابوذر ! اگر تم صبح اٹھ کر قرآن مجید کی ایک آیت کا علم حاصل کرلو، تو وہ
تمہارے لئے سو رکعات(نفل) پڑھنے سے بہتر ہے اور اگر تم صبح اٹھ کر علم کا
ایک باب (سبق) پڑھ لو خواہ اس پر عمل ہو یا نہ ہو تو وہ ایک ہزار رکعات
پڑھنے سے بہتر ہے‘‘--(سنن ابن ماجہ)
ایک حدیث پاک میں حضورنبی کریم ﷺ ’’معلم خیر‘‘ کو اپنے بعد سب سے بڑا سخی
قرار دیتے ہیں۔ آپﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے……اجودھم من بعد ی علم علما
فنشرہ……’’میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ شخص ہے، جس نے علم حاصل کیا، پھر اس کو
پھیلایا‘‘……اس حدیثَ پاک سے معلوم ہو ا کہ افضل ترین سخاوت علمِ دین کے
تعلیم اور تشہیر ہے……(مشکٰوۃ شریف: صفحہ 37)
٭حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
جب تم جنت کی کیاریوں سے گزرو تو چر لیا کرو‘‘……صحابہ کرام نے عرض کی: ’’یا
رسول اﷲﷺ! جنت کی کیاریاں کیا ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ: علم کی مجالس (جنت کی
کیاریاں) ہیں‘‘……(جامع ترمذی۔ مشکٰوۃ المصابیح۔ مجمع الزوائد)
٭حضرت عبداﷲ بن عباس ص فرماتے ہیں کہ رات میں ایک گھڑی علم دین کا درس و
سبق حاصل کرنا، تمام رات کی بیداری (نوافل)سے افضل ہے‘‘(مشکوۃ،سنن دارمی)
٭حضرت ابو ہریرہ ص بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’حکمت
کی بات! مومن کی گم شدہ چیز ہے، وہ بات جہاں بھی ملے، مومن ہی اس بات (کو
پانے اور حاصل کرنے )کا زیادہ حق دار ہے‘‘۔۔۔(جامع ترمذی ، مشکوۃ المصابیح)
٭حضرت عبداﷲ بن مسعود صبیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تم
اس حال میں صبح کو اٹھو کہ تم عالم ہو یا متعلم، اس کے سوا صبح نہ کرو، اگر
تم یہ نہ کر سکو تو علماء سے محبت رکھو اور ان سے بغض نہ رکھو‘‘۔۔۔(مجمع
الزوائد: جلد1 صفحہ122 )
٭علم،لافانی دولت:
خلیفۂ چہارم ،بابِ مدینۃ العلم امیر المؤمنین حضرت سید نا علی المرتضٰیص
فرماتے ہیں کہ علم، مال سے کئی درجے افضل و اعلیٰ ہے۔ اس لئے کہ……
٭علم! انبیاءِ کرام علیہم السلام کی میراث ہے، اور مال! فرعون و قارون
وغیرہ کی میراث ہے۔
٭علم! خرچ کریں تو اس میں اور اضافہ ہو تا ہے، جبکہ مال خرچ کرنے سے کم ہو
تا ہے۔
٭علم!صاحب علم کی حفاظت کرتا ہے، جب کہ مال داروں کو اپنے مال کی خود حفاظت
کرنی پڑتی ہے۔
٭مالداروں کے سب لوگ محتاج نہیں ہوتے، جبکہ صاحبانِ علم کا ہر شخص محتاج
ہوتا ہے۔
٭علم! پل صراط پر سے گزرتے وقت سہارادے گا، جب کہ مال!موجبِ ضعف ہوگا۔
٭اﷲتعالیٰ نے جو ہمارے درمیان جو تقسیم فرمائی ہے، ہم اس سے راضی ہیں کہ
ہمارے لئے’’علم‘‘ اور جاہلوں کیلئے’’مال‘‘ مختص ہے۔
دعا ہے کہ اﷲتعالیٰ ہم سب کو علم دین حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور
علم کے فیوض و برکات سے ہم سب کومالامال فرمائے․․․․﴿آمین ثم آمین﴾
|