ظلم و ستم کا بازار تو ہر طرف گرم ہے ۔غریبوں
اور یتیموں کی عزتوں کو پاش پاش کیا جا رہا ہے ۔ غریبوں کا حق مارا جا رہا
ہے ۔ امیروں کو انصاف اور غریبوں کو سزا مل رہی ہے ۔ مائیں بیوہ اور بچے
یتیم ہو رہے ہیں ۔ بیٹا باپ کو مار رہا ہے تو بھائی بھائی کا خون پی رہا ہے
۔ ہرطرف ظلم کی لہر دیکھائی دے رہی ہے ۔ کسی کو انصاف ملتا دیکھائی نہیں دے
رہا۔ہر آدمی صرف اپنے اچھے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ناانصافی پر تلا ہوا
ہے ۔ ہر طرف خون ہی خون کا بازار لگا ہوا ہے ۔ کوئی پیسے کی خاطر دوسرے
مسلمان کو مار رہا ہے تو کوئی جائیدا د حاصل کرنے کے لالچ میں موت سے کھیل
رہا ہے ۔ہر طرف جرم پرورش پا رہا ہے ۔زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہی ۔اب تو
بازاروں میں موت بھی بک رہی ہے ۔ جو کسی کے دل میں آتا ہے وہ کررہا ہے ۔کوئی
کسی کو روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ۔ جس کی بھینس اس کی لاٹھی والا قانوں ہر
طرف بنا ہو ا ہے ۔ بچے اپنے والدین سے جدا ہو رہے تو بھائی بہنوں سے محروم
ہو رہے ہیں ۔حالا ت اس قدر خراب ہو تے جا رہے ہیں کہ کوئی کسی کی سنتا ہی
نہیں ۔اور کسی کو سختی سے کچھ کہہ بھی دیا جائے تو الٹا اس کو ہی برا بھلا
کہا جاتا ہے ۔ اور غلطی والا بچ جاتا ہے۔ سچائی کا کوئی ساتھ نہیں دے رہا ۔
ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ جنم لے رہا ہے ۔سکولوں میں اب سٹوڈنٹوں کے ہاتھ استاد
کے گریباں تک جا پہنچے ہیں ۔ استاد اور شاگرد کا مقام اب ختم ہو چکا ہے ۔
کیونکہ پیسوں سے تعلیم تو مل رہی ہے مگر اس تعلیم کا کیا فائدہ جو کسی کو
پہچان نہ سکے ۔جو کسی برے اور اچھے کی تمیز نہ کر سکے۔ ایسی مہنگی تعلیم کا
کیا فائدہ جو کسی کو انصاف نہ دے سکے ۔ ایسے بچوں کا کیا فائدہ جو اپنے
والدین کو عزت نہ دے سکیں ۔ ایسے بچوں کو تعلیم دلوانے کا کیا فائدہ جو
اپنے بوڑھے والدین کا سہارا نہ بن سکیں ۔ مگر برا بھلا کہیں تو کسی کو۔
حالات نے کروٹ ہی اس قدر لی ہے کہ حالات کو سمجھنا اور ان پر قابو پانا
مشکل ہو گیا ہے ۔ہوا اس قدر سرد چل رہی ہے۔کہ کسی کا سہارا بننا بھی آسان
نہیں ۔اب حالات اس قدر جا رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر روز ناجانے کتنے لوگ
خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ اس لئے کہ ان کے بچے تو ہیں مگر ان کو
کھانا کھلانے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ۔جب کبھی بھی ایسے حالات کو
دیکھتا ہوں ۔توحضرت عمر فاروق ؓ کی یاد آجاتی کہ یہ تھے سچے اور پکے
مسلمان۔اور ایسے حکمران کہ ہر وقت دل میں یہ خوف رہتا تھا کہ خدا مجھے کبھی
معاف نہیں کرے گا ۔کہ اگر میرے ہوتے ہوئے کوئی بھی بچہ بھوکا سو گیا ۔ آپ ؓ
رات کو شہر کی گلیوں کا چکر لگاتے اور لوگوں کے حال کا پتہ کرتے ۔اور اگر
کسی کو کھانا نہ ملا ہو خود تو بھوکا رہ لیتے مگر اس کو کھانا ضرور کھلاتے
۔ اور ادھر ہمارے حکمران ہیں جن کو جو ں کی توں نہیں ہوتی ۔ کوئی مرتا ہے
تو مر جائے ان کو کسی سے کیا ۔ جب سے پاکستان بنا ہے ہم میں سے کسی نے بھی
قائد اعظم ،اور علامہ اقبال کے خوابوں کوتعبیر کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ اس
لئے کہ ہم کو تو پاکستان مل گیا ۔کیا کبھی ہم نے ان ماؤں اور بہنوں کے بارے
میں سوچا ہے جنہوں نے پاکستان کو حاصل کرنے کی خاطر اپنی عزتوں کو قربان کر
دیا ۔ اور کبھی ان ماؤں کے بارے میں سوچا ہے جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنے
سہاگ سولی پر چڑھا دیے۔ یہی بات ہے کہ ہمارے دلوں سے ایمان نکلتا جا رہا ہے
اور غیر مسلموں کی رسومات ہمار ے گھروں اور دلوں میں جگہ بنا رہی ہیں ۔ میں
کس کس طرف اشارہ کروں کہ آپ کو کچھ یاد آ جائے ۔ ہم گلیوں اور بازاروں میں
یارسول اﷲ کے نعرے تو بہت لگاتے ہیں ۔اور بڑا دعوہ کرتے ہیں کہ ہم جیسا
مسلمان کوئی نہیں ۔ بہت افسو س کہ ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ہم میں
کوئی مسلمانوں والی تعلیمات نہیں رہی۔ ہم تو بس اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم
دلوانے کے لئے لاکھوں روپے برباد کر رہے ہیں ۔ صرف ایسی تعلیمات پر جو صرف
دنیاوی ہے جس کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ایک دن
آخرت کا بھی آنے والا ہے ۔ ہم آخرت کی کیا تیاری کر لی ہے ۔ بھائی ہم تو
صرف دنیا حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہم آخرت کے بار ے میں سوچتے ہی نہیں
۔ ہمارے گھروں اور مسجدوں میں نمازی تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے ۔ مسجدیں
خدا کا گھر ہیں اور ان کو آباد کرنا ہماری ذمہ داری ہے کیا ہم اس ذمہ داری
کو پورا کر رہے ہیں ۔مسجدوں میں پانچ وقت آذان تو ہوتی ہے مگر نماز پڑھنے
کے لئے نمازیوں کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ اور ہمارے بازار ہر وقت بھرے ہوئے
دیکھائی دیتے ہیں ۔ یہ قیامت کی نشانیاں ہیں کہ بازار بھرے ہوں گے اور
مساجد خالی ہوں گی ۔
اگر آج ہم نماز کی پابندی کریں گے اور اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں گے
تو کل ہمارے بچے بھی اسلام کے مطابق اپنی آپ کو ڈھالیں گے ۔ اگر ہم اپنے
بچوں کی پرورش اسلامی رسومات اور اسلامی طریقوں سے کریں گے تو ہمارے معاشرہ
میں اسلام کا بول بالا ہو گا ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم آج بھی رسوا ہو رہے
ہیں اور آخرت کے روز بھی رسو ا ہوں گئے۔
میں اپنے قارئین کو چند دن پہلے کی ایک آپ بیتی سنانا چاہتا ہوں ۔میری چند
دن پہلے اپنے ایک دوست سے ملاقات ہوئی ۔وہ دوست تبلیغی جماعت کے ساتھ سات
ماہ کے لئے بیرون گیا ہوا تھا ۔ان کی تشکیل انڈونیشیا میں ہوئی ۔اندونیشیا
کے جس جزیرے میں ہوئی وہاں جو انہوں نے دیکھا وہ چند لمحات آپکی نظر کر رہا
ہوں ۔ اس نے کہا کہ میں وہاں جا کر حیران رہ گیا کہ وہ لوگ کتنے اچھے اور
سچے مسلمان ہیں ۔ وہ کسی سے دھوکا نہیں کرتے ۔ وہ کسی کی چوری نہیں کرتے وہ
کسی کا حق نہیں مارتے ۔ یہاں تک کہ وہ ان کی گاڑیوں کی جابی بھی گاڑی کے
اندر ہی گھڑی ہے ۔ اور وہ چوری بھی نہیں ہوتی ۔ دوکان سے جو کچھ کھاتے ہیں
۔اس کے خود ہی پیسے دے دیتے ہیں ۔وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔وہ کہتے ہیں کہ ہم
جتنا عرصہ وہاں رہے ہم نے کسی کو لڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ ہیں سچے
مسلمانوں کی چند نشانیاں ۔اور ادھر ہم ہیں کہ کھانے پر لڑائی ،جائیداد کی
تقسیم کی لڑائی ،چھوٹی چھوٹی بات پر لڑائی ۔ کیا ہم اپنی زندگیوں کو ایسا
نہیں بنا سکتے ہم میں کس چیز کی کمی ہے ۔ ہم کیوں نام کے مسلمان بنتے جا
رہے ہیں ۔ ہم میں اگر کمی ہے تو پختہ ایمان کی ۔ اسلامی تعلیمات کی ۔جو اب
ہماری زندگیوں سے دور ہوتی جا رہی ہیں ۔ اگر ہم بھی اپنا ایمان پختہ کرلیں
تو سب پریشانیوں اورمصیبتوں سے بچا جا سکتا ہے ۔ |