پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے ایک عاجزانہ
اور مخلصانہ درخواست ہے کہ اس نام نہاد ڈسپنسر کمپاؤنڈر ڈاکٹر کی کوئی تو
تاریخ یعنی ہسٹری ڈھونڈ نکالیں۔ کوئی چھان پھٹک کریں۔ کوئی تانے بانے جوڑیں۔
کوئی خفیہ گرہیں کھولیں۔ کوئی میڈیکل چیک اپ کرائیں، خدارا کچھ تو کریں۔ یہ
حکمِ قرآن " ولا تجسسوا " (اور دوسروں کی ٹوہ میں نہ پڑو)۔ آپ کے لیے ہر گز
نہیں ہے۔ آپ کے لیے تو حکم ہے " ولا تکتمو الشھادۃ" (اور تم ہر گز گواہی
یعنی حق بات نہ چھپاؤ)۔ تو آپ عیاں کریں۔ اس پاکستانی قوم پر احسان کریں۔
اور وہ احسان بھی ایسا کہ ہماری نوجوان نسل زہریلے گڑ سے مرنے سے بچ جائے۔
آپ کا یہ احسان نہ صرف نوجوان نسل پر ہو گا بلکہ پوری پاکستانی قوم پر ہو
گا۔ خدارا یہ احسان ضرور کریں اور بے شک جتائیں بھی، کوئی حرج نہیں۔پھر جو
ثبوت نکلیں کہ یہ انڈیا کی را کا یا اسرائیل کی موساد کا ایجنٹ ہے، یا پھر
قادیانی ہے جو مسلمانوں کے بھیس میں مسلمانوں کے دینی جذبات سے کھیل رہا ہے
تو اس کو پہلے سنگسار کروائیں پھر اس کی کھال اتروائیں، اور پھر اس کو
پھانسی کی سزا دیں، لیکن بیچ چوراہے میں۔
وہ شخص کچھ بھی کہے، کوئی بھی بکواس کرے، اسلام کے احکامات کی شان میں
گستاخی کرکے گستاخیوں کی تاریخ میں ایک اور تاریک ترین باب کا اضافہ کرے
لیکن مجال ہے کوئی پوچھے تو سہی۔ہماری اندھی تقلید کی صفت نے ہمیں " اندھا
، بہرا اور گونگا " بنا دیا ہے۔سب کچھ جانتے بوجھتے بھی پھر اس کو سنتے ہیں۔
سر دھنتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کیا خوب کہا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ دین
کی چار کتابیں پڑھنے سے کیا کوئی عالم بن جاتا ہے، وہ بھی آن لائن۔ اگر
سننے والے کو کوئی کہے کہ مت سنو اس کو، یہ تو کرتب دکھاتا ہے۔تو کہا جاتا
ہے کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ سنو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ ربیع الاول
میں وہ نعتیں سناتا ہے، تو لوگ سر دھنتے ہیں۔ علماء کرام کو سامنے بٹھا کر
آف دی ایئر کیمرہ کے سامنے کیا کچھ کہہ جاتا ہے، سارے ثبوت سب کے سامنے
ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی لوگ سنتے ہیں۔
دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہمارے علمائے کرام ْبھی جو علمائے سو ہیں، اس سے
کم نہیں ہیں۔ایک نجی چینل پر ایک مفتی نما عالم بیٹھے ہیں ۔ ایک خاتون لہک
لہک کر گانا گاتی ہوئی مٹکتی ہوئی ان مفتی صاحب کے پاس آتی ہے، پہلے ہلکے
سے ان کو ان کے بازو پر کندھے کے قریب پیار سے مکا مارتی ہے، مفتی صاحب ایک
ادا سے مسکراتے ہوئے آداب پیش کرتے ہیں۔ کیا کہنے۔ جس مذہب کی تعلیمات کو
پڑھ کر وہ مفتی بنے، اپنے آپ کو عالم کہنے لگے،اس مذہب کی تعلیمات کیا یہ
تعلیم دیتی ہیں ۔ جب اس نام نہاد عالم کے پروگرام میں آنے والے عالم یا
مفتی ایسے ہوں گے تو اس کو تو شہہ ملتی ہو گی۔
انٹرنیٹ پر جب اس شخص کی اس طرح کی ویڈیو وائرل ہوئیں یعنی پھیلیں تو کیا
بونگی دلیل دی کہ اس کی آواز کی کاپی کی گئی ہے۔ اس نے ہر گز یہ الفاظ ادا
نہیں کیے۔ چلیں اگر بفرضِ محال مان لیں اس کی یہ بات، تو کیا اسکا سٹائل
بھی کاپی کیا گیا ہو گا؟ یا کسی بندے کو فلمی میک اپ میں بٹھا کر انداز دیا
گیا ہو گا۔ ارے بھئی، الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ انسان کے چہرے کے تاثرات
بھی بنتے بگڑتے ہیں۔ اور ان ویڈیوز میں صاف دیکھا جا رہا ہے کہ جب ماں بہن
کی گالی دی جارہی ہوتی ہے تو آنکھوں میں ہوس کی چنگاریاں کیسے لوٹتی ہیں۔اس
نوجوان عالم نے جب ایک سوال کا جواب دینا شروع کیا کہ بہت نازک مسلہ ہے۔
توجناب کہنے لگے کمال ہے ، کیا نازک نازک لگا رکھا ہے۔ یہاں اس کی عزت لوٹ
لی گئی اور تمھیں نازکی نظر آتی ہے۔یہ میں نے تھوڑے الفاظ میں ردو بدل
کیاہے، ورنہ ہر کوئی اس ویڈیوں کو یہاں سے دیکھ سکتا ہے۔ https://www.youtube.com/watch?v=VL2RNGiaYLU۔
خود اندازہ لگائیے کہ علماء کے سامنے بیٹھ کر فلموں کی باتیں ہو رہی ہیں۔
اور علماء بھی چپ چاپ سن رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ انہیں کیا اس کی فکر نہیں تھی
کہ انھوں نے اﷲ کو جواب دینا ہے۔ بے شک اﷲ پاک معاف کرنے والا مہربان ہے،
لیکن خوفِ خدا بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ اور جو خدا سے ڈرتا ہے اس کے لیے
دو جنتوں کا وعدہ ہے۔ سورۃ الرحمٰن۔ آیت ۴۶۔
یہ شخص جو مداری کی طرح کرتب دکھانے میں بھی ماہر ہے۔ اور دکان کا سامان
بیچنے میں بھی۔ لوگ طارق عزیز صاحب کو برا کہتے تھے کہ مال بیچتا ہے۔ ارے
وہ تو پھر عوام الناس میں مقابلہ کروا کر کچھ نہ کچھ انعام کے طور پر دیتے
تھے، لیکن یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ انسان کو حقیر سے حقیر تر حرکتیں
کرنے پر مجبور کر کے ، اس کی عزت نفس مجروح کر کے اس کو انعام دیا جاتا ہے۔
اٹھارہ کروڑ عوام نہ سہی، پانچ کروڑ سہی، اس کے سامنے ایک خاندا ن سے الٹی
سیدھی حرکتیں کروا کر جیسے کیک میں سے رس گلہ یا گلاب جامن ڈھونڈ کر نکالنا،
جس سے سارے چہرے پر کیک کی کریم یا چاکلیٹ پھیل جاتی ہے، ا س کو انعام سے
نوازنا۔ لیکن پانچ شرکاء میں سے ایک کو انعام دینا، باقیوں کی بے عزتی کرنا
، کہاں کی شرافت ہے۔ویسے اس پروگرام کو بہت سے دوسرے چینلز نے بھی کاپی کیا
ہے۔
ہماری عوام بھی اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ مداری سے کم نہیں۔ مداری کرتب
دکھاتا ہے، کبھی ادھر جاتا ہے کبھی ادھر جاتا ہے۔ لیکن جدھر بھی جاتا ہے،
وہاں لڑکیوں کی تعداد ضرور ہوتی ہے۔مجال ہے جو کبھی جہاں لڑکے جمع ہوں،
وہاں گیا ہو۔ مداری ڈگڈگی بجاتا ہے، بندر ناچتا ہے۔ اب آپ جو بھی جس کو
سمجھیں۔آپ کی عقل پر ہے۔ حد ہے نا، کہ ایک طرف عالم کا چوغہ پہنے حضور نبی
کریم ﷺ کی مدح بیان کرتا ہے، اور دوسری طرف اسی رسولِ پاک ﷺ کے دین کی
دھجیاں اڑاتا ہے۔ قرآن کی الحمدﷲ سے لے کر والناس تک، اور رسول پاک ﷺ کے
حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پہلی وحی کی گفتگو سے لے کر آپ ﷺ کے آخری
الفاظ تک کہیں سے یہ عالم تو کیا دنیا کا کوئی بھی عالم ثابت کر دے کہ
عورتوں کا مردوں کے ساتھ مخلو ط محفل سجانا کسی بھی صورت میں جائز تو میں
اس کی بیعت کر لوں گا۔ چہ جائیکہ کو خواتین اس طرح بیٹھی ہوں کہ ان کے سر
پر دوپٹے نہ ہوں الٹا گلے میں لٹک رہے ہوں، بلکہ آج کل تو وہ بھی غائب ہو
گئے ہیں۔ اور جب دوپٹہ کے بارے میں سوال کیا جائے تو استغفر اﷲ۔ کیا بکواس
بھرا جواب دیا ہے حضرت نے۔ کہتا ہے ، " جس کے گلے میں اسلام کا پٹہ ڈلا ہو،
اس کو دو پٹے کی کیا ضرورت ہے ۔" او خدا کے بندے، تم نے تو دین میں تحریف
کر دی۔ تم نے قرآن کے الفاظ کی توہین کر دی۔ تم نے اﷲ کے احکامات کو ہی بدل
ڈالا۔ "اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتے ہیں۔۔۔۔۔۔البقرہ"
۔ یہ نشانی اﷲ نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں منافقین کی بتائی ہے۔ تو بتاؤ
منافق کون ہوا؟
کفار بھی اس طرح کی حرکات نہیں کرتے، جس طرح کی تم کر رہے ہو۔ یقینا کفار
کی چالیں ایسی ہوتی ہیں۔ اگر وہ خود مسلمانوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تو
پھر ان میں میر جعفر، میر صادق پیدا کر دیتے ہیں۔ ان میں مرزا ملعون
قادیانی پیدا کر دیتے ہیں۔ جو پہلے مسلمانوں میں اپنا نام پیدا کرتا ہے،
اور پھر نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن یاد رکھو، ایسے لوگوں کی موت بیت
الخلاء میں ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ گڑ کی جگہ مٹی کا ڈھیلا کھایا کرتے ہیں
کہ اﷲ ان کو غبی کر دیتا ہے۔ تم ایک طرف اﷲ کے رسول ﷺ کی نعتیں سناتے ہو،
لوگوں کو رلاتے ہو۔ لوگ تو عاشق ہیں، دیوانے ہیں، مستانے ہیں۔ ان کو تو اﷲ
کی ، اسکے پیارے رسول ﷺ کی باتیں جو بھی سنائے گا، وہ تو سنتے ہیں۔ سن کر
روتے ہیں۔ یہ احساس ہوتا رہتا ہے کہ وہ پکے سچے ہمیشہ کے لیے عاشق کیوں
نہیں بن پاتے۔ یہ احساس ان کو رلاتا ہے۔ لیکن تم جو ان کے ساتھ روتے ہو نا،
تم مگر مچھ کے آنسو روتے ہو۔ کیونکہ تمھیں ہر گز نہیں معلوم کہ فنا فی اﷲ
کیا ہوتا ہے اور فنا فی الرسول کا درس کیا ہے؟ جو پوچھنا ہے تو پوچھو سیدنا
حضرت بلال رضی اﷲ عنہ سے۔ جو پوچھنا ہے تو پھر پوچھو حضرت ابوبکر صدیق رضی
اﷲ عنہ سے کہتے ہیں کہ ان کے آنے سے آجاتی ہے منہ پہ رونق۔سب سمجھتے ہیں کہ
بیمار کا حال اچھا ہے (شاعر سے معذرت کے ساتھ)۔اگر عشق مصطفی ﷺ دیکھنا ہے
تو پھر دیکھو حضرت سلیمان فارسی رضی اﷲ عنہ کو۔ دیکھو حضرت عمر فاروق رضی
اﷲ عنہ ، جو کہتے ہیں کہ خبر دار ! اگر کسی نے کہا کہ رسول پاک ﷺ اس دنیا
سے تشریف لے گئے ہیں تو اسکا سر تن سے جدا کر دوں گا۔ او خدا کے بندے، اپنے
گریبان میں جھانکو، عامر لیاقت حسین، نام تو ماں باپ نے بہت خوبصورت رکھا،
لیکن تم نے نہ تو حضرت حسین ؓ کے نام کی لاج رکھی اور نہ ہی کوئی لیاقت
پائی۔ میرا دل ہر گز نہیں کرتا کہ تمھاری عزت کروں۔ کیونکہ تم نے رسول پاک
ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ ان کی دی ہوئی تعلیمات کا مذاق اڑا یا ہے۔ توبہ
کرو، اس سے پہلے کہ تمھاری توبہ قبول ہونے سے رہ جائے۔****** |