اس زمین پر ایک ایسا بھی دور گزرا جب ہمارے
نبی پاک محمدمصطفی ﷺ کی اس دنیا میں ابھی تشریف آوری نہیں ہوئی تھی اس
زمانہ کو زمانہ جاہلیت کہا جاتاتھالیکن ہمار ے نبی پاک ﷺ کی تشریف آوری کہ
بعد جاہلیت کے گہرے اندھیرے چھٹ گے۔ہر طرف علم کہ نور کی روشنی پھیل
گئی۔اسلام کادامن تھام کر لوگ اﷲ کی طرف رجوع کرنے لگے۔لیکن کہیں کچھ لوگ
ایسے بھی تھے جو اپنی جاہلیت پہ قائم رہے۔اپنی جھوٹی انا کی خاطر اسلام کی
روشنی تک برتری حاصل نہ کر پائے اور جاہل کے جاہل ہی رہے۔لیکن افسوس کچھ
ایسا ہی منظر آج اکیسویں صدی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جہاں عالم بھی ہیں
اور جاہل بھی۔لیکن جاہلوں کی تعداد زیادہ ہے با نسبت عالموں کے۔بابا جی
ذندہ باد۔بابا جی ذندہ باد کے نعرے پاکستان کے ہر شہر میں سننے کو ملتے
ہیں۔کہیں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں جعلی پیر نہ موجود ہوں۔جہاں جدید
ٹیکنالوجی نے عروج پکڑا وہیں انسان نے اپنی جاہلیت کی ان گنت مثالیں بھی
پیش کیں۔دن بدن بڑھتی مہنگای کی وجہ سے ہر انسان مالی لحاظ سے بہت کمزور ہو
چکا ہے۔ہر انسان روزی روٹی کی خاطر دوڑتا ہوا نظر آتا ہے اور اسی دوڑ کی
وجہ میں وہ اپنوں کو بہت پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے.جسکی وجہ سے وہ بالکل تنہا
اور فسٹریشن کا شکار دکھائی دیتاہے۔اور اس بات کا سب سے زیادہ فائدہ یہ
ڈھونگی جعلی پیر بابا اٹھاتے ہیں.جعلی پیر بابا اپنے آپ میں بہت بڑے فنکار
ہوتے ہیں۔انسان کو کیسے شیشے میں اتارتے ہیں اور کیسے اپنی انگلیوں پر
نچاتے ہیں وہ ہر گن اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔اپنے شیرینی لب و لہجہ اور
اپنے نرم گفتار کے سبب وہ انسان کے دماغ کو اپنے کنٹرول میں کرتے ہیں۔پھر
وہ انسان بس انہی کے اشاروں پر ناچتا ہے وہ جو بھی رستہ دکھائیں آنکھیں بند
کیے اس پر چل دیتا ہے۔یہ جعلی پیر بابا جنہیں حرام کھانیکی لت لگی ہوتی ہے
وہ انسان کو اپنے مکروفریب میں ایسے پھانستے ہیں کہ انکی عقل انکا علم اور
انکا تجربہ سب مٹی ہو جاتا ہے۔اور وہ اپنی خواہش کے حصول کی خاطر ہر غلط
کام کرنے کو تیار رہتے ہیں اور گناہوں کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں اور اس
قدر دھنس جاتے ہیں کہ انکے اندر کی ساری انسانیت مر جاتی ہے۔اور انسان سے
بالکل حیوان بن جاتے ہیں۔اگر اولاد چاہیے تو فلاں کا بچہ مار دوں ایسا ٹونہ
ٹوٹکا کریں گے کہ تیرے گھر اولاد ہو جایگی۔اگر اپنی دکان کی ترقی چاہتے ہو
تو یہ تعویز باندھ دو صرف تیری دوکان چلے گی اور تیرے آس پاس کی دوکانیں
بند ہو جایگی.اگر کسی دشمن کو زیرکروانا چاہتے ہو تو ایک پکی اینٹ لے کے آؤ
ایسا علم کرونگا کہ وہ اینٹ ندی میں جیسے جیسے کھلے گی وہ فنا ہوتا
جایگااور نجانے کیا کیا۔۔۔ایسے کتنے گھٹیا کام ہیں جو وہ انسانوں کے خیر
خواہ بن کر ان سے کرواتے ہیں.اور انسان بھی کرتا جاتا ہے۔جولوگ اﷲ عزوجل
کاشریک ٹہراتے ہیں اور اپنی ذات سے اﷲ کی مخلوق کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ
کبھی دیندار نہیں ہو سکتے۔ایسے لوگ حیوان ہیں شیطان کی بہت بڑی مثال
ہیں۔ایسے لوگ اس دنیا میں بھی رسوا ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی رسوائی کا
سبب بنتے ہیں۔ایسے لوگوں پر اﷲ کی لعنت ہے۔اﷲ عزوجل خود اپنے بندے سے
فرماتا ہے اے میرے بندے تجھے جو چاہیے تو مجھ سے مانگ میں تیری جھولی ایسے
خزانوں سے بھر دونگا کے تیری عقل دنگ رہ جایگی۔اگر تجھے کوئی دکھ وتکلیف ہے
تو مجھے اس میں اپنا شریک بنا میں تیرے ہر غم کو تجھ سے اسے دور کروں گا
اور تیرے قلب کو ایسا سکون عطا کروں گا کہ کبھی تجھے کسی تکلیف نے چھوا ہی
نہ ہو۔پھر ہم کیوں کسی اور کہ در پر جائیں اور خود کو گنہگار کہلوائیں , ہم
کیوں کسی کو موقع دیں اپنی زندگیوں سے کھیلنے کا اور اپنی آخرت کو تباہ و
برباد کرنیکا۔اﷲ ہمارے دلوں میں اپنا نور پیدا کرے اور ہماری زندگیوں کو
محفوظ فرماے.آمین۔ |