ہم کہاں کھڑے ہیں

روزانہ کی طرح آج بھی وہ گھر سے اِس اُمید پے نکلا کہ شاید وہ آج سے اپنے بوڑھے ماں باپ اور بہن بھائی کے پیٹ بھرنے کا بیڑا اُٹھا سکے۔

اسلم ایک غریب گھرانے کا لڑکا تھا اس کے گھر میں اسکے ماں باپ ایک بہن اور ایک چھوٹا بھائی رہتے تھے۔ باپ دل کا مریض تھا اس لیے اس کی ماں نے مشکل سے لوگوں کے برتن مانجھ کے اس کو بارویں جماعت پاس کروائی اور بولا بیٹا اب مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ میں اور کام کر سکوں لہٰذا تم اب کوئی کام کر لو۔۔

شاید کسی نے صحیح کہا ہے کہ غریب کے پاس صرف ایک ہی دولت ہوتی ہے اور وہ ہے عزت، کچھ ایسا ہی اسلم کی ماں نے بھی اسکو سمجھایا تھا کہ بیٹا اگر غلط راستے پے چلو گے تو دنیا کے رہو گے نا آخرت کے۔ جتنی بھی مشکلیں آئیں برداشت کرنا کیونکہ اسی میں تمہاری بھلائی ہوگی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کئی ایسی نوکریاں تھیں جن کو وہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

آج وہ ایک ہوٹل منیجر کے سامنے بیٹھا انٹرویو دے رہا تھا۔ منیجر جب مطمئین ہوا انٹرویو لے کر تو اس نے اپنی ایمانداری کا یقین دلانے کے لیے کچھ جملے کہے جس پے منیجر بگڑ گیا اور اس کو نوکری نہ مل سکی۔

دوستوں یہ واقعہ کراچی کا ہے اور سچا ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد اسلم کو معلوم ہو گیا کہ منیجر صاحب کو ایسا بندہ چاہیے تھا جو کہ ان کے کہنے پے چلے اور نا جائز پیسے لے کر اس کو دے۔
Dawood Siddique
About the Author: Dawood Siddique Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.