خُوبصُورت عورت کے لئے بناؤ
سنگھار کوئی ضروی نہیں .....؟
اویبڈس کا ایک قول ہے کہ شرمیلی عورت کو زیور کی ضرورت نہیں ہوتی میرا خیال
یہ ہے کہ اگر اِس قول پر ہمارے یہاں کی عورتیں بھی عمل کرلیتیں تو شائد
ہمارا قومی خزانہ کم ازکم یوں تو ہرگز خالی نہ ہوتا جس طرح اِن کے کاسمیٹکس
کی درآمد کے لئے کثیر رقم کی صورت میں خالی ہوتا ہے۔
ایک خبر جس نے آج مجھے اپنا یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا اُس کے مطابق قومی
اسمبلی میں گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اِس وقت
یہ انکشاف ہوا کہ جب پاکستان مسلم لیگ (ن)کی ایک خاتون رُکن قومی اسمبلی
طاہرہ اورنگزیب کی طرف سے پاکستان میں کاسمیٹکس کی درآمد سے متعلق سوال کیا
گیا اِس موقع پر حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر سید خورشید شاہ جو کہ وزیر
تجارت مخدوم امین فہیم کی جگہ سوالوں کے جوابات دے رہے تھے۔
اُنہوں نے کہا کہ خواتین اپنے آپ کو جوان رکھنے کے لئے لپ اسٹک، لوشن اور
کریم باہر سے منگواتی ہیں جو کہ 70کروڑ روپے سے زائد ہیں اِن کے اِس انکشاف
کے بعد یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے غریب اور مفلوک الحال
ملک میں خواتین اپنے آپ کو دوسری عورت سے ممتاز اور محض مردوں کی توجہ حاصل
کرنے کے لئے حکومت سے سالانہ 70کروڑ روپے سے زائد صرف اپنے میک کے سامان
باہر سے منگوانے کے لئے خرچ کرا دیتی ہیں تو اِس ملک کی حالتِ زار بھلا
کیسے...... ؟سُدھر سکتے ہیں جہاں مرد ....تو مرد .....عورتیں بھی اپنے
مردوں سے کسی میدان میں پیچھے نہیں رہتیں تو اِس ملک کا بھلا کیا بنے گا
.....؟سوچنے اور افسوس کرنے کی بات تو یہ ہے .....کہ جس ملک کی عورتیں بھی
مردوں کی طرح عیاش اور فضول خرچ ہوں پھر تو کشکول اور گدائی اِس ملک و ملت
کا یقیناً مقدر بنی رہے گی۔
البتہ! یہ ہمارے جیسے غریب ملک کے لئے حوصلہ افزا امر ضرور ہے کہ اِس ہی
خبر کے مطابق اِس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک رکن قومی اسمبلی بیگم
یاسمین رحمان نے حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے اتنا ضرور کہا کہ اگر حکومت صرف
تین ماہ کے لئے ہی ملک میں خواتین کے میک اپ کے سامان /کاسمیٹکس کی درآمد
پر پابندی لگا دے تو پھر ملک کا خزانہ بچایا جاسکتا ہے مگر پھر دوسرے ہی
لمحے جناب ِمحترم خورشید شاہ چیخ کر بول پڑے کہ اگر بیگم یاسمین رحمان کے
مشورے پر عمل کرتے ہوئے اِس پر پابندی لگائی گئی تو پھر خواتین بھی حکومت
کے خلاف احتجاجی جلوس نکالنا شروع کردیں گی۔ اِن کے اِس بے ساختہ جواب پر
مجھے یہ حیرانگی ہورہی ہے کہ شائد یہ موصوف اور صدر و وزیر اعظم بھی یہ
نہیں چاہتے کہ ملک میں کاسمیٹکس کی درآمد پر کسی قسم کی کوئی پابندی لگے یا
لگائی جائے کیوں کہ یہ بابا لوگ کاسمیٹکس سے خواتین کو یوں ہی جوان اور
خوبصورت دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں اِن ہی کی وجہ سے خورشید سائیں نے
کاسمیٹکس کی درآمد پر پابند لگانے کی مخالفت کی ہے۔
اگرچہ کچھ بھی ہے حکومت کاسمیٹکس کی درآمد پر پابندی لگائے یا نہ لگائے مگر
اَب ہمارے یہاں کی اُن خواتین کو جو پہلے ہی خوبصورت ہیں اِنہیں یہ ضرور
سوچنا چاہئے کہ حقیقی اور فطری خوبصورتی اُس ہی میں پنہاں ہے جو بغیر کسی
مصنوعی سہارے کی ہو اور درحقیقت انسانی(عورتوں کے) چہروں کی وہی خوبصورتی
ہی لوگوں کو متاثر کرتی ہے جس پر کسی قسم کے رنگوں کی کوئی لیپا پوتی نہ کی
گئی ہو۔
اِس حوالے سے لارک کا قول ہے کہ ” میں تمہیں بتاؤں کہ دنیا میں جتنے بھی
پھول ہیں اُن میں سب سے زیادہ خوب صورت کون سا ہے ....؟عورت “جبکہ ہمارے
اگلے تو کہا کرتے تھے کہ عورت ایک ایسا پھول ہے جو اپنی خُوشبو سے مرد کے
چمنستانِ حیات کو مہکا دیتی ہے جس کی مہک سے چار سو معطر ہوجاتے ہیں اور
بسا اوقات اگر یہی عورت اپنی پر آجائے تو پھر یہ پل بھر میں مرد کے چمن کو
بے نور اور خُوشبو سے بھی عاری کردیتی ہے مگر پھر بھی اُن کا یہ خیال تھا
کہ مرد کی نسبت عورت کہیں کم بے وفا ثابت ہوئی ہے اور عورت کا دل ہمیشہ
چاند کی طرح بدلتا رہتا ہے لیکن اِس کا باعث ہمیشہ مرد ہوتا ہے یوں حکومت
اور عورت کی محبت چھوڑنا سب سے زیادہ مشکل ہے اِس لئے کہ گھر میں عورت دوست
ہے اور پردیس میں علم و ہنر کا مرکز ہوتی ہے اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر
دنیا میں عورت نہ ہوتی تو آرٹ بے رنگ، شاعری بے کیف پودے اور درخت سبزے سے
خالی اور اَدب بے مزہ یعنی پھیکا ہوتا اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ
سے عورت کی کمزوری اِس کے حُسن کی تعریف رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے
کے مرد نے عورت کو اِس کی سچی جھوٹی تعریفیں کر کے ہی اِسے اپنی مٹھی میں
قید کرنے اور اِسے اپنے دل کے مندر کی دیوی بنانے کا سامان کیا اور مردوں
کا یہ فن آج بھی جاری ہے یوں دنیا کا ہر مرد خواہ وہ عمر کے کسی بھی حصے
میں ہو صنفِ نازک پر اپنا یہ فطری جذبہ آزمانے کا کوئی موقع کبھی بھی اپنے
ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ
عورت انسان اور فرشتوں کے درمیان ایک حسین ترین مخلوق کا نام ہے اور اِس
میں بھی کوئی اِبہام نہیں ہے کہ عورت دنیا کے کسی بھی خطے کی ہو یہ ایک
اِسی مخلوق ہے جس کی خوبصورتی اور نسوانیت کے آگے دنیا کا قیمتی سے قیمتی
ہیرا بھی شرما جاتا ہے اور اِس کی چمک ماند پڑ جاتی ہے اور کہنے والے یہ
بھی کہتے ہیں کہ ازل سے ہی دنیا کی تمام خوشیاں عورت سے ہی ہیں اگر یہ نہ
ہوتی تو دنیا ایک اُجڑے دیار کی مانند ہوتی اور آج بھی اہلِ دانش اِس نقطے
پر متفق ہیں کہ عورت کی محبت انسان کی سب سے بڑی فتح ہے اور نفرت سب سے بڑی
شکست اور اِسی لئے تو کہتے ہیں کہ عورت مرد کی غلام نہیں اِس کی سچی ہمدرد،
رفیق اور ساتھی ہے۔ عورت مرد کا رشتہ ہی انسان کا سب سے پہلا اور عظیم
سماجی رشتہ ہے جس پر ہر دور میں معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور اِس کے
ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی خوبصورت عورت کو کبھی بھی میک
اَپ اور لالی پوڈر کی ضرورت نہیں پڑتی بس اُس کی سادگی اور شرم و حیا ہی
اُس کی خوُبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔
لہٰذا آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے یہاں کی ہر عورت کو اپنی فطری
خوبصورتی پر ہی توجہ دینی چاہئے اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ جس ملک کی عورت ہے
وہ ملک اِس کا متحمل ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ اِس کی فطری خوبصورتی پر
کاسمیٹکس کے کیمیکلز کی تہہ چڑھا کر اِسے مصنوعی طریقے سے خوبصورت بنانے کے
لئے قومی خزانے سے کثیر رقم خرچ کرے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہ جب حکومت
ملک میں بجلی اور توانائی کے بحرانواں پر قابو پانے کے لئے ہر خطرہ اپنے سر
لے کر اُلٹے سیدھے اقدامات کررہی ہے تو وہیں ہمارے ملک ِ پاکستان کی عورتوں
کو بھی یہ چاہئے کہ وہ بھی اپنا میک اُپ کرنا بند کریں اور کاسمیٹکس کے
سامان کے بیجا استعمال سے اکثر وبیشتر رنگ برنگین پوڈروں اور لوشنوں سے خود
کو گولا گنڈا بنائے پھرنے کا سلسلہ بند کردیں اور اپنے اِس عمل سے قطعاً
اجتناب برتیں تاکہ حکومت کا کاسمیٹکس کی درآمد کی مد میں ہونے والا خرچ بچ
سکے اور حکومت یہی پیسہ ملک کی ترقی اور خوشحالی سمیت بجلی اور توانائی کے
بحرانوں کو ختم کرنے جیسے منصوبوں میں لگا سکے۔ |