حسد

دنیا کے ہر انسان میں کہیں نہ کہیں حسد اور جلن کے جراثیم پائے جاتے ہیں اور یہ جراثیم انسان کو دماغی اور جسمانی طور پر مفلوج کرنے کے ساتھ ساتھ روح میں بھی زہر پھیلاتے ہیں جس کے نتیجے میں دوستی اور کئی رشتوں میں دڑار ڈالتے اور منفی اثرات پیدا کرتے ہیں ، معاشرے میں دیگر کئی مہلک ناسوروں کی طرح یہ بھی ایک ایسا خطرناک ناسور ہے جو انسان کو محسوس اور تسلیم کئے بغیر اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا رہتا ہے ۔دنیا کا ہر انسان حسد اور جلن سے بخوبی واقف ہے کیونکہ کبھی وہ خود اپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں سے حسد کرتا ہے جو نفرت کا روپ بھی دھار لیتا ہے یا یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی دوسرا فرد اس سے بھی جلن، حسد اور نفرت کرتا ہے ،لیکن انسان کیوں اس بیماری نما ناسور میں مبتلا ہوتا ہے ؟یہ عوامل حقائق پر مبنی ہیں ، انسان کی نیچر ہے یا قدرتی عمل؟۔میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر انتونیو کابَرا لیس کی طویل تحقیق کے بعد کہنا ہے کہ حسد اور جلن انسان کی ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ یہ ایک جین ہے اور جب انسان مسائل ،مصائب ،مشکلات سے مقابلہ نہیں کر سکتا اور یہ جین حدود تجاوز کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں حسد اور جلن جیسے جراثیم انسانی دماغ میں گردش کرتے ہیں،ابتدائی تاریخ گواہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کو دیکھ کر اس لئے حسد نہیں کرتا تھا کہ وہ آعلیٰ درجہ ،مقام یا مال ودولت کا مالک ہے بلکہ اس لئے حسد میں مبتلا ہوتا تھا کہ خود اس کے پاس کچھ نہیں ہے،پروفیسر کا کہنا ہے حسد دنیا کی ساتویں خطرناک اور مہلک بیماری ہے جس میں مختلف اقسام کے احساسات پائے جاتے ہیں اور ایسی بیماری یقینا مذاق نہیں جو انسان کو ذہنی طور پر مکمل بیمار کر دے اس بارے میں سب جانتے ہیں کہ حسد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا لیکن تسلیم نہیں کرتے یہ ایسی بیماری نہیں جو ادویہ یا سرجری سے ختم کی جائے یہ انسانی دماغ میں پلتی ہے بڑھتی ہے اور انسان کو ختم کرنے کے بعد پیچھا چھوڑتی ہے۔گوئٹے انسٹیٹیوٹ فرینکفرٹ کے پروفیسر جو سماجی نفسیات کے ماہر ہیں کا کہنا ہے حسد ایک قدرتی عمل ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر انسان اس میں مبتلا ہو لیکن اکثر اوقات کم آمدنی والے افراد یا خواتین منفی سوچ رکھنے کے سبب اس بیماری میں مبتلا رہتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ افراد جنہیں اپنی مال و دولت کا اندازہ نہیں وہ بھی حسد اور جلن میں مبتلا ہیں انسانی فطرت کو چیلنج کرنا ناممکن ہے بدیگر الفاظ یہ ایک متنازعہ عمل ہے جو ہر انسان میں ایک مخصوص عمر تک پہنچنے کے بعد قدرتی طور پر اس کے اندر جنم لیتا ہے ،غصہ ، احساسِ جرم ، شرم و حیا اور دیگر انسانی فطرت و قدرتی عوامل ہر انسان میں پیدائشی طور پر پائے جاتے اور اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن حسد و جلن کا تعلق انسانی جذبات سے منسلک ہوتا ہے اور جذبات ہی فتور کی بنیاد بنتے ہیں جس میں امیر غریب مرد عورت سب شامل ہیں علاوہ ازیں کوئی سیاست دان ہو ،سائنسدان ہو مذہبی راہنما یا پیشوا ہو کوئی بھی حسد جیسے جراثیم سے پاک نہیں ہے،حسد اور جلن ایک کومپلیکس ایموشن ہے جس کا تمام دارومدارغصے،ناراضگی ،اداسی اور بے چینی سے جنم لیتا ہے اور کئی انسان اداس یا ناراض بھی اسی لئے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس وہ سب کچھ کیوں نہیں ہے جس کی انہیں خواہش ہے یا کیوں ان کی دسترس میں نہیں اور حاصل نہ ہونے کی صورت میں دوسرے افراد کو دیکھ کر غصے اور طیش میں آتے ہیں جلن محسوس کرتے اور اندر ہی اندر کڑھتے ہیں کہ جو میں چاہتا ہوں وہ دوسرے کے پاس ہے میں کیوں نہیں حاصل کر سکتا اور یہاں سے ہی جلن اور حسد کی ابتداء ہوتی ہے۔ایک سروے میں ڈھائی ہزار مختلف عمروں کے مردوں اور عورتوں سے اس رحجان کے بارے میں سوال کئے گئے جس میں اعداد وشمار کے مطابق خواتین کی اکثریت اس مرض میں مبتلا تھی ان کا کہنا تھا کہ وہ اداس ہونے پر حسد میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ دوسرے کے پاس سب کچھ ہے اور میرے پاس کچھ نہیں ،نمایاں طور پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کا پلڑا بھاری تھا کیونکہ صنف نازک میں ذہنی قوت اور عدم برداشت کا فقدان پایا جاتا ہے جبکہ مرد حسد میں مبتلا ہو کر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جو مراعات ایک پیسے والے کو ہیں ہمیں کیوں نہیں یہ کیسا انصاف ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ غم و غصہ اور منفی سوچ انسان کے اندر حسد اور جلن کو جنم دیتی ہیں۔حسد اور جلن کشیدگی کو یقینی بناتا اور تخلیق کے راستے میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے مثلاً کاروبار ہو ، کھیل کا میدان ہو ،آعلیٰ افسران ہوں یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے انسان میں حسد و جلن پایا جاتا ہے کہ فلاں کے چیف سے اچھے تعلقات کیوں ہیں ،ہمسایہ کی دکان پر زیادہ رش کیوں ہوتا ہے، خواتین ویٹرس کو لوگ زیادہ ٹپس کیوں دیتے ہیں وغیرہ ۔ماہرین نے ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حسد و جلن میں مبتلا ہونے کی بجائے انسان کا رویہ اہم کردار ادا کرتا ہے اسکا اخلاق ایک ایسا عمل ہے جس سے وہ تعاون کرنے سے ہار کو جیت میں بدل سکتا ہے کیونکہ حسد و جلن میں مبتلا رہنے سے کسی دوسرے کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا الٹا جلنے والا ایک ایسی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے جو لا علاج ہے اور یہ ایسی بیماری ہے جو پل پل، ہر گھڑی، وقت بے وقت دوسرے انسان کو دیکھ کر بڑھتی رہتی ہے، اس لئے انسان کو چاہئے کہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرے جو حسد کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہے، سیلف کونفیڈینس اور وِل پاور رکھنے والے انسان کبھی حسد و جلن میں مبتلا نہیں ہوتے کیونکہ حسد انسان کو تنہا کرنے کے ساتھ ذہنی ،جسمانی اور روحانی طور پر بیمار کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر یاداشت کی کمزوری اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب ہو سکتی ہے۔اپنی خواہشات اور جذبات پر قابو پانے اور تحمل مزاجی کے علاوہ خود اعتمادی سے انسان سب کچھ حاصل کر سکتا ہے حسد اور جلن میں مبتلا ہونے سے صحت کی بربادی اور بیماریوں میں مبتلا ہونے کے بعد قبل از وقت موت کا شکار ہو سکتا ہے۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246884 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.