دوغلا پن
(Dr B.A Khurram, Karachi)
تحریر۔۔۔در صدف ایمان
سنو بیٹا ۔ یہ آواز مجھے اپنے عقب سے آ ئی ۔ پلٹ کے دیکھا تو ایک بڑ ی عمر
کی خاتو ن تھیں جی آنٹی میں نے انہیں جواب دیا ۔بیٹا تمہارے تو بہت سے
جاننے والے ہوں گے نہ ؟
جی آنٹی بیٹا ایک کام کہوں کردو گی ؟ خاتون نے امید بھری نظروں سے دیکھتے
ہے پوچھا جی آنٹی کہیں بیٹا تم نے میری بیٹی ستارہ کو دیکھا ہے نہ ؟ جی
آنٹی
بیٹا اس کے لیے کوئی رشتہ ہو تو بتانا بہت پرشان ہوں ۔ اور یہی جواب میں
صرف جی آنٹی کہہ کر رہ گئی ،وہ خاتون مجھے دعا ئیں دیتی رخصت ہو گئی ،یہ وہ
مکا لمہ تھا ۔ جو کم و بیش انہی الفاظ کے ساتھ مجھے پیش آتا تھا
اب چاہے لکھا ر ی ہوں یا تقر یر کرنے والے ،میلا د کی سجا و ٹ پر انگلیا ں
اٹھا نے والے ھوں یا مزارات پر چادر یں چڑ ھا نے والو ں کے خلا ف بولنے
والے ۔غریب کی بیٹی ۔ غریب کی بیٹی کا چر چا کرنے والے ہوں ،یا پھر بڑھتی
عمر کو دیکھ کے تاسف سے نگا ہ اٹھا نے والے ۔
کبھی کسی میی حقیقت سے آشنا ئی کا حوصلہ آیا نہ ہی حقیقت سے نظر ملانیکا کے
وہی خاتون جو ابھی بیٹی کے لیے پریشان تھیں بہو پسند کرنے کی باری آتی ہے
تو فرمان مبارک ہوتا ہے کے چاند سی بہو لا ؤں گی تا کہ پوتے چاند سے ہوں ،چاہیے
پھر پوتے ہونے سے پہلے بہو بیٹے کو لے کے الگ ہوجاے ،بہو تو چاندسی آگئی نہ
،یا وہ لڑکی جو خود انتظار کی صلیب پر ہو ،بھائی کی شادی کی باری آتی ہے تو
فرمان ذی شان ہوتا ہے کے ہمارے بارے بھائی کی شادی ہے ،لڑ کی خوبصورت ہونی
چاہے،اب ڈھو نڈ نے میں ہر لڑکی مل جائے گی نہیں ملے گی تو بس خوبصورتی کے
معیا ر پر اترنے والی نہیں ملے گی ۔ یا وہ لڑکا جو اپنی بہن کیلئے
برسرروزگار خوبصورت خوبرو نیک عادت کے حامل لڑکا ڈھونڈ جارہا ہوتا ہے خو د
چاہے گٹکا کھاتا ہو یا گلی کی نکڑ پر بیٹھ کر انجوائے کرتا ہو ، یا پھر پان
کے کیبن پر کھڑے ہو کر سگریٹ کی شاپنگ کرتا ہو ، بہن کیلئے پرفیکٹ چاہیے
خود کسی کی بہن کیلئے پرافیکٹ نہیں بننا اور ایک اور بات یہ ہمارے معاشرے
کے مردوں کی خود چاہے26سے 36اور 36سے 46کا ہندسہ عبور کرچکے ہوں لڑکی
19سے23کے درمیان کی ہی چاہیے ،عمر جیسے تھم سی جائے کی گھڑی پہنی ہوئی ہو،
جو اس کی عمر روک دے۔ خود کیوں نہیں پہن لی ایسی گھڑی ؟ساتھ ساتھ ایک اور
المیہ بھی ہے بے چارے مردوں کا اور ساتھ ساتھ بے چاری عورتوں کا بھی مرد
شادی ایک کرے،چھپ کر چار گرل فریند رکھ لے کوئی مسئلہ نہیں بنتا ، بتا کر ے
شادی کرے وہ ہنگامہ کے ا لامان اور شادی نہ کرے سنت پر عمل کرتے ہوئے گناہ
سے نہ بچے، چھپن چھپائی کھلتا رہے کوئی ایشو نہیں۔
اور اگر بالفرض بیوی کو معلوم بھی ہو جائے، پہلے دن سخت جھگڑا دوسرے دن
بیوی میکے روانہ تیسرے دن خاندانی پنچائیت منعقد ،چوتھے دن صلح صفائی ،
پانچویں دن شوہر کے گھر واپسی ، چھٹے دن شوہر کی اپنی گرل فرینڈ رکھنے والی
حرکت پر ندامت ،پیشمانی، ساتویں دن اپنی وفاؤں کا یقین، اعتبار، وفا سدھرنے
کی سند، آٹھویں دن امن و امان کے بادل ،اور نویں دن موبائل ری چار ج، ری
لوڈ، پاس ورڈ اگین سیٹ ،پر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بار بار کے دھوکے پر
مجبور کون کررہا ہے ؟خود بیوی اب چاہے میاں بیوی میں کمی ہو، اسکی ناعاقبت
اندیشی ہو یا مرد کی فطرت کا قصورہو، مرد کو شریعت نے چار شادیوں کی اجازت
دی ہے، یہ بات پر عورت کہہ دے گی قرآن کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں پر نہ
جانے اس حکم کی حکمت سمجھ سے بالاتر کیوں ہے ہر بیوی کیلئے؟اب یہاں خواتین
میرے خلاف بولنے سو چنے لگ جانا ہے صرف ایک نکتہ ہے اور برحق نکتہ ہے قرآن
میں ہی بیان ہے کہ قرآن سے زیادہ کس کی بات سچی اور قرآن میں ہی بیان ہے کہ
جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح اور یہ بھی قرآن کا حکم ہے ۔
اور مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں کچھ نیچی رکھیں تو جو بیوی اپنے
شوہر کو گرل فرینڈ سے تعلق نہیں رکھنا پسند کرتی ہو وہ عورت یہ کیوں پسند
کررہی ہے کہ اسکا شوہر خفیہ اور گناہ والے تعلق رکھ کر جہنم میں جائے تو
ایک اچھی شریک سفر ہونے کے ناطے اپنے شوہر کو ڈرا دھمکا کر نہیں پاک صاف
جائز اور سنت طریقے کے ذریعے رشتے کو بچایا جائے تو زیادہ بہتررہے گا ۔
ورنہ معاشرے میں جوبرائیاں پھیل گئیں ہیں اور جو پھیلناشروع ہو گئی ہیں وہ
میرے قلم کی محتاج نہیں کہ بیان کروں اور آخر میں صفر اتنا کہ ذات پات رنگ
و نسل دولت نہیں اسلام اور اسلامی اوصاف دیکھ کر بیٹے اور بیٹیوں کے بر
قبول کریں ۔ |
|