اب نہیں تو کب جب روح حلق سے نکلے گی!

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بچپن کا زمانہ رہ ،رہ کے یاد آتا ہے،جب دل و دماغ ہر بوجھ و بلا سے پاک تھا۔نہ حرصِ مال،نہ تمنائے دولت،نہ ذمہ داریوں کا بوجھ اور نہ دنیاوی جھنجھٹ،بس خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔کھیل کود میں بچپن گزرا۔گاؤں کی زندگی کا اپنا ہی لطف تھا،بیداری صبح کے ساتھ ہی نماز کی ادائیگی ،جو بچپن سے والدین کی طرف سے ملنے والا ایک عمدہ تحفہ تھا جس پر اﷲ نے آج بھی قائم و دائم رکھا ہوا ہے اﷲ تعالیٰ اسی حالت میں زندہ رکھے اور ایمان کی حالت میں موت دے۔ سویرے ،سویرے ادائیگی نماز کے بعد کھیتوں میں نکل جانا،درختوں کے جھنڈوں پر موجود پرندے چہچہا رہے ہوتے تھے اور اپنی توتلی زبان میں اﷲ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہے ہوتے تھے۔چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کوئل کی میٹھی آواز ماحول کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھی۔بندگانِ الٰہ اپنے اپنے کاموں میں مگن ہونے کی تیاری میں جت چکے ہوتے تھے۔گاؤں کا صاف ستھرا ،اورسہانہ موسم،بھینی بھینی بادِ صبا،قدرتی سبزے سے مزین کھیت،ہریالی ہی ہریالی اور ازہارِرنگارنگ کی عطر بکھیرتی خوشبونہ صرف آنکھوں بلکہ دل و دماغ کو بھی خیرہ کرجاتی تھی۔طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی گلِ لالہ وگلاب کی کلیاں چٹختی اور ہم باغیچے میں پہنچ چکے ہوتے تھے۔جہاں گلاب و موتیا کے پھول پورے جوبن کے ساتھ اس قدرتی ماحول کو چار چاند لگارہے ہوتے تھے۔ہم ان حسین نظاروں سے اپنی آنکھوں کو خیرہ کرتے بلکہ گلاب کی بھینی بھینی خوشبو کے ساتھ اپنے دل و دماغ کو معطر کرتے۔جب زیادہ ہی اشتیاق ہوتا تو گلاب کو توڑ کر ساتھ لیے چلتے۔شبنم سے تر گھاس پر چلنے کا اپنا ہی لطف تھا۔رب کی ا ن نعمتوں میں مگن ،دنیاوی مصروفیات سے بے پرواہ،عمر کا وہ حصہ کتنا ہی پر لطف تھا۔مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا بوجھ ناتواں کندھوں پر پڑنے لگا اور ہم مصروفیات میں مگن ہوتے چلے گئے۔وہ چرند،پرند جو ہمارے بچپن میں رب کی تسبیح و تعریف میں مگن نظر آتے تھے آج بھی ان کی یہی روش ہے۔ان کا ازل سے یہی طریق چلا آرہا ہے۔اپنے آشیانے میں بیٹھ کر اپنی توتلی زبانوں میں رب کی عظمتوں کے گیت وہ آج بھی گاتے ہیں۔ ناصرف صبح بلکہ سورج ڈھلتے ہی شام بھی ان کے گیتوں سے مزین ہوجاتی ہے۔اگر دنیاوی مصروفیات سے چھٹکارا ملے تو کسی باغیچے میں جا کر آج بھی ان کا نظارہ کرلینا۔ اﷲ کی یہ چھوٹی سی مخلوق آج بھی اﷲ کے بتائے ہوئے اس راستے پر گامزن ہے جس پر انہیں اﷲ تعالیٰ نے کل چلایا تھا۔

مگرہائے افسوس!وہ انسان اپنے رب کا چنا ہوا برگزیدہ ابن آدم،بڑھتی عمر کے ساتھ کچھ ادا سے اپنی مصروفیات میں مگن ہوتا ہے کہ آہستہ،آہستہ اپنے ربِ کریم کو بھول جاتاہے۔جس رب کی پیدا کردہ نعمتوں میں وہ سرتا پاؤں غرق ہے وہ مالک اسے یاد تک نہیں رہتا۔جس رب کی کرم نوازیوں سے اس کے لیل و نہار مزین ہوتے ہیں، اس رب سے بے اعتنائی برتنے لگتا ہے۔جس رب کی ساری مخلوقات اس کی خدمت کے لیے مسخر ہیں،وہ اس رب کو ناراض کرنے پر اترآتا ہے۔آخر یہ کیوں ہے؟اﷲ کی چھوٹی سے چھوٹی مخلوق تو اس کی قدر دانی کرے، پرندوں کے جھنڈ،پانی میں تیرنے والی مچھلیاں،زمیں کی پشت پر موجودچیونٹیاں بلکہ اس سے بھی چھوٹے جانداراﷲ کوخوش کرنے میں مگن ہوں۔مگراس خاک کے بنے پتلے کو ناجانے کیا ہوگیا ہے۔جانوروں کی طرف نظر دوڑائیں تو ایک کتا جسے کوئی ایک بار خوراک ڈال دے تو وہ جب بھی اپنے محسن کو دیکھے گا،دم ہلاکر اس کے اس احسان کی قدر دانی کرتا نظرآئے گا۔وہ گائیں ،بھینس،بکری غرض جتنے بھی گھریلوں جانور ہیں۔وہ اپنے چارہ ڈالنے والے کو دیکھتے ہیں تو فورا ہی اس کی تابعداری کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔اﷲ کی یہ بے زبان مخلوق ازل سے آج تک اپنی فطرت پر قائم ودائم ہے۔مگر ناجانے کیوں انسان اپنی فطرت کو بھلا بیٹھا ہے۔آخر کیوں یہ اﷲ کی نعمتوں کی بے قدری کرکے اس کی ناراضگی مول لیتا رہتا ہے۔اس کے دل ودماغ سے اتنا بڑا شفیق و مہربان رب کیوں محو ہوجاتا ہے۔میرے رب نے سورہ العادیات کی آیت6سے 11میں یہ کہ خبر دے دی ہے:ــ’’کہ انسان اپنے رب کانا شکرا ہے،اور وہ اس بات پر گواہ بھی ہے،اس کے دل میں مال کی محبت سرایت کرچکی ہے،کیا وہ جانتا نہیں جب اسے قبر سے اٹھایا جائے گا،اوراس کے سینے میں جو راز پوشیدہ ہیں ان کو ظاہر کردیا جائے گا،بے شک ان کا رب ان سے اچھی طرح واقف ہے۔‘‘اے بندگانِ الہٰ یہ دنیاوی مصرووفیات اور جھنجھٹ کیوں تمہیں اپنے رب سے غافل کر چکے ہیں۔وہ صبح کے اندھیرے میں رب کی تسبیح بیان کرنے والی کوئل آج بھی سوال کنا ں ہیں کہ یہ انسان کو کیا ہوگیا ہے؟پہاڑوں کی تہہ میں بسنے والا کیڑا بھی یہ پوچھ رہا ہے کہ انسان اپنے رب کی ناشکری میں کیوں مگن ہے؟ سمندر کی تہہ میں بسنے والی مخلوق بھی حیرت زدہ ہے کہ اس مٹی کے پتلے میں اتنا غرورر کہاں اور کیوں۔حتیٰ کہ ان تمام مخلوقات اور جن و انس کاخالق و مالک بھی یہ کہہ رہا ہے:’’کہ اے انسان تجھے تیرے کریم رب سے کس چیز نے دھوکے میں ڈالا ہے۔جس نے تجھے تخلیق کرکے تیرے ہر جوڑ کو درست مقام پر لگا کر تجھے برابر کر دیا۔‘‘(سورہ الانفطار:6تا8)

قارئین کرام!ہر جانے والا دن ہمیں یہ خبر دے کر جاتا ہے کہ تُوقبر اورقیامت کے مزید قریب ہوچکا ہے۔اگر آج ہم دنیا کوخوش کرتے ہوئے اپنے اﷲ اور خالق و مالک کو ناراض کرجائیں گے تو اپنی بربادی کا سامان کرجائیں گے۔اگرآج اپنے رب کو خوش کرکے دنیا والوں کو پس پشت ڈال دیں گے۔تو اپنے جنت والے گھر کی آبادکاری کا سامان کرجائیں گا۔ابھی نہیں تو اگلا لمحہ ہماری روح اس خاکی قفص سے چھٹکارا پاسکتی ہے۔یہ یاد رکھنا(الدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الآخِرَۃ)ِفتح الباری:234/11)دنیا آخرت کی کھیتی ہے جو یہاں بوؤگے وہی آگے کاٹو گے۔ یہ بھی ذہن نشین رکھنا کہ دنیاکی آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں جیسے پورے سمندر کے مقابلے میں انگلی پر موجود پانی کی کوئی حیثیت نہیں۔یہ بھی یاد رکھنا کہ ہماری کل عمریں 60سے 70کے درمیان تک ہی ہیں۔مگر قیامت کا ایک دن 50ہزار سال کا ہوگا۔اگر اُس دن کی سخت گرمی سے بچ کر جنت میں گھر بنانا چاہتے ہو،تو پھرآج ہی اپنے راستے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ہر گزرنے والا لمحہ اجل کی خبر ساتھ لاتا ہے۔اگر اب بھی نہیں تو کب سنبھلو گے جب روح حلق کو پار کر جائے گی۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 25 Articles with 23243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.