سیری نالہ بان حصہ سوم
(Gulzaib Anjum, Kotli-a.kashmir)
ملبوسات کی تقدیر بدلنے والے ہاتھ کب قسمت کا لکھا بدل سکتے تھے |
|
مصنف اسی گاؤں کا باسی ہے
یو ٹیوب کی چہل پہل میں جہاں خط و کتابت کا زمانہ جاتا رہا وہی ہماری نئی
پود اپنے تمام تر ملکی و علاقائی آثاروں سے ناواقف ہو چکی ہے بلکہ وہ اس
لفظ سے بهی ناآشنا ہے کہ آثار قدیمہ کیا ہوتے ہیں وائی فائی اور گوگل کے اس
جدید دور میں ایک سعی لاحاصل کے طور پر اپنی نئی نسل کو اپنے ہی علاقے سے
اور وہاں کے چند ایسے مکینوں سے شناسا کرانا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے وجہ
شہرت رکھتے تھے یا پھر کوئی وجہ ان کی وجہ شہرت ہے. اسی مقصد کے پیشِ نظر
سیری نالہ بان کا تیسرا حصہ پیشِ خدمت ہے .
یو ٹیوب ہم سے وہ سب قصے کہانیاں چهین کر لے گئ جو ہمیں دادیوں اور نانیوں
سے سننے کو ملتی تھیں. نیٹ ورک کیا آیا کہ پیپر ورک ہی بهول گیا وہ بچے جو
سورج ڈهلنے کا انتظار اس لیے کرتے تھے کہ لحافوں میں دبک کر سات پهول
شہزادی کی کہانی سنیں گے اب وہ برقی رو کا انتظار کرتے ہیں .. کے کب آئے گی
کہ انٹرنیٹ ان کریں گے. وقت وقت کی بات ہے کبهی لوگ سارے دن کے گناہوں کی
معافی مانگ کر سویا کرتے تھے اب بوڑهیاں بھی جودها اکبر کی قسط دیکھ کر
سوتی ہیں. حالات بدلتے کب دیر لگتی ہے پل بھر میں کیا ہو جاتا ہے کچھ خبر
نہیں.
سیری کا محلہ محلے سے ملحقہ بازار کبهی یوں تو ایک دوسرے سے الجها ہو نہ
تها بلکہ بڑے لوگوں کی طرح بڑی وسعت تهی بنا چاردیواری کے بڑے بڑے صحن ہوا
کرتے تھے گرمیوں میں اکثر ایسا بھی ہوتا کے چارپائیاں کسکتے کسکتے دوسرے
آنگن میں پہنچ جاتی بڑے دلوں والے لوگ ہنس کر ایک دوسرے سے کہتے حافج جی
اپنی کهٹیا اٹھا لینا.یہ بهی تها کہ ڈاکٹر اللہ بیلی دو تین مکانوں کے بیچ
میں ہی کسی ایک مکان میں کلینک بھی کرتے تھے کلینک کیا تها پنسار خانہ ہی
سمجھ لیں ڈاکٹری سے زیادہ حکمت چلتی تھی .ڈاکٹر اللہ بیلی تو کسی ایکسیڈنٹ
میں اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ گے لیکن پنسار خانہ بشیر حجام کے مکان میں کئی
زم ہو گیا. ... ہو گیا. بات تهی وسعت کی مکان کا پتہ ہی نہیں چلا.اب سیری
کے وہ کهلے آنگن کہاں گهروں کے چار چوفیرے فصیلیں پهر گئی ہیں آنے جانے کے
لیے گلیاں بن گئی ہیں جو اندر سے کدورتوں بهری بوڑھیوں کی طرح گهوم پهر کر
پهر ایک ہو جاتی ہیں. جامع مسجد کے قریب ایک کهنڈر نما جگہ ہے جسے اہل محلہ
دهپری والوں کا کهنہار کہتے ہیں.
دهپری ایک دو منزلہ مکان تها جس کا ایک کمرہ نیچے اور ایک ہی کمرہ اوپر تها
حالانکہ پنجاب یا دیگر شہروں میں ایسے مکان کو چوبارہ کہتے تھے لیکن سیری
والوں نے اسے دهپری کیوں کہا اس کی وجہ معلوم نہ ہو سکی.اس سے پہلے یا اس
کے بعد اکثر دیکھا گیا کہ گھر گهر والوں کی وجہ سے مشہور ہوتے تھے لیکن
دهپری کا بڑا کمال یہ ہے کہ گھر والے گھر کی وجہ سے مشہور ہوئے .
جب کہ اس دهپری میں رہنے والے دونوں میاں بیوی پورے محلے میں یوں بلائے
جاتے مانواں(ماموں) دهپری والے اور پوا (پهوپهو) دهپری والی اب یہ مانواں
اور پوا دهپری والے ان خطابات سے اتنے مشہور ہوئے کے ان کو وہ بھی مانواں
پوا کہنے لگے جن کے یہ رشتے میں چچا اور چچی تهے یا خالہ اور خالو تهے.
مانواں عالم ارواح کو سدھار گے تو پوا بہو کے ساتھ دوسرے شہر کوچ کر گئی جب
دهپری لاوارث ہو گی تو موسم برسات کا سامنا نہ کر سکی اور رفتہ رفتہ زمین
بوس ہو کر کهنہار بن گئی یوں یہ جگہ اب دهپری والوں کا کهنہار مشہور ہو
گئی.
جب دهپری سے بازار کی طرف نکلیں تو بائیں ہاتھ کی تین دکانیں چهوڑ کر آگے
پهر ایک گلی آتی ہے یہ گلی مسجد کی گلی کہلاتی ہے اس گلی کے آغاز میں ہی
عدالت مٹھائی والے کی دکان تھی اس دکان سے پرانے لوہے یا سلور کے بدلے میں
مٹھائی جلیبی اور پکوڑے ملا کرتے تھے. بلکہ پہلے پہل کی بات ہے کہ یہاں سے
مکی یا گندم کے بدلے میں بھی یہ چیزیں مل جایا کرتی تھی. اب عدالت مٹھائی
والا عدالت مرحوم ہو گیا اور اس دکان میں اسی کے بهائی نے سبزی فروشی شروع
کر دی. دو تین دکانیں چهوڑ کر آگے ایک کهنڈر نما دکان ہے . یہ دکان مرحوم
صوفی فقیر محمد کی تهی جہاں وہ کچھ عرصہ سپلائی کا کوٹہ رکهتے رہے بعد میں
اشیاء خورد نوش فروخت کرتے رہے. ساون کی بارشوں کو شاید خورد نوشی بهلی
نہیں لگتی تھی اس لیے وہ کچی چهت سے اندر جا کر گڑ شکر چاول آٹے کا بہاؤ
ایک کر دیتی. دکان میں مخیانے اور بتاشے بھی ہوتے تھے جن کو وہ پتاشے کہا
کرتے تھے وہ بھی بارش کی زد سے نہ بچ پاتے کئی بار مرحوم کو یہ چیزیں دهوپ
میں خشک کرتے دیکھا . بارشوں سے جب دوستی راس نہ آئی تو دانا شخص نے چائے
کا ڈهابا رکھ لیا اور ساتھ ہی ملبوسات کی شکنوں بهری تقدیر سنوارنے کے لیے
لکڑی کے تختے پر دری کو چڑها لیا لیکن ملبوس ڈریسر کے ہاتھ وقت کے بدلتے
تیوروں کا ساتھ نہ دے سکے آخر کار دری میں لیپٹا تختہ اپنی ہمسفر ہستری اور
چند چائے دانیوں کے ساتھ کچی ٹپکتی دکان کو چهوڑ کر کچے سے مکان میں چلا
گیا. مرحوم کی رفاقت سے دکان مرحوم ہوگئ . مرحوم اپنے دینی علوم کی وساطت
سے دور دراز کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دینے لگے لیکن دکان کی
چهت ہجر کا صدمہ برداش نہ کر پائی آخر اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس
کچے پکے فرش سے جا ملی جہاں صوفی صاحب کے کچھ انمٹ نقوش پا تهے. جهاڑے کے
موسم میں لکڑی کے بالوں اور شہتیروں سے بنی ہوئی چهت کیا گری کے گهر والوں
کے وارے نیارے ہو گے اب روزانہ ایک بالہ گهر جاتا اور چولہے کا پیٹ بھرنے
لگتا بیس بائیس بالوں نے ایک مہینہ ہی تقریباً چولہا گرم کیا جس دن صوفی جی
کی واپسی ہوئی آخری شہتیر چشم براء تها جس کو خود صوفی جی نے ضربیں لگا کر
چولہے کے سپرد کیا. صوفی جی کچھ عرصہ بعد بستر علالت پر پڑه گے اور دکان
کهنڈر میں تبدیل ہوتی گئی اب یہ دکان بیچ بازار کے صوفی ہوراں دا کهنہار بن
گئی. اس کهنہار کے آگے حبیب بینک کی عمارت ہے اور اس عمارت کے آگے لاری اڈا
ہے. بلکہ یہ اڈا اب دائیں جانب چلا گیا ہے جہاں کبهی دو تین درختوں پر
مشتمل ایک باغ ہوتا تھا. اور جہاں پہلے لاری اڈا تھا اس کے ساتھ ہی دانے
پیسنے والی مشین ہوتی تھی (عام فہم زبان میں آٹا پیسنے والی جبکہ آٹا
بیچارہ پیسا نہیں گوندها جاتا ہے) اس کے ساتھ ایک کنواں تها جس کا پانی صرف
مشین کے لیے ہی استعمال کرتے تھے. اس کے کنارے پر دو فٹ اونچا اور ایک فٹ
چوڑا پتهر بھی تها جسے بت کہتے تھے . یہ بت اسی کنویں کے دائیں ہاتھ سڑک کے
اس پار بنے مندر میں تها.( مقامی لوگ اس مندر کو ٹهک دوارہ کہتے ہیں یعنی
درست تلفظ میں گرو دوارہ جب کے گرو دوارہ سکھوں کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی
بت وغیرہ نہیں ہوتا بت ہندو دھرم میں ہے اور مندر میں ہوتا ہے ). یہ مندر
نہ جانے کس طرح چودھری لطیف عرف طیفا کهوڈا کے قبضے میں آ گیا اس نے بھگوان
کو اندر سے اٹھا کر کنویں کے کنارے رکھ دیا اور مندر میں ٹافیاں ریوڑیاں
اور سگریٹ رکھ لیے اور مندر پر مالکانہ حقوق کے باعث طیفا ٹهکدوارے
(مندر)والا ہو گیا . مندر کی بائیں طرف مشتاق بٹ کا ہوٹل ہے جس کا درجہ
حرارت سردی گرمی میں ایک سا ہی رہتا ہے نہ کبھی سردیوں میں بلب جلتے دیکھا
نہ گرمیوں میں پنکھا چلتے دیکھا. گاہکوں کا بھی کوئی خاص رش نہیں ہوتا
البتہ مشتاق ہوٹل سے اور ہوٹل مشتاق سے خوش ہے. ایک زمانہ تھا کہ یہاں ایک
درویش منش انسان بیٹها کرتے تھے نہایت ہی صوفی شخص تھے زندگی بهر کبهی سکول
نہیں گے لیکن سیف الملوک جو پنجابی زبان میں لکھی ہوئی ایک کتاب ہے تقریباً
پوری کی پوری ازبر تهی پھر وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی سیری چهوڑ کر کہیں
نہیں گے لیکن بات جب بھی کرتے تھے پنجابی میں کرتے تهے . مشتاق کو ان سے
بڑی عقیدت تھی اور شاید اس نے یہ بھی سن رکھا تھا " تمنا درد دل کی ہو تو
کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں.یہ
منکسرالمزاج سائیں عبدالکریم آج بنڈیاں کے مقام پر مدفن ہیں جہاں آج بھی
کوئی مشتاق سرشام ایک دیا جلا دیتا ہے.اگر مسجد والی گلی سے ہم محلے میں
داخل ہوں تو گلی کی پہلی نکر پر جو گهر ملتا ہے وہ کاشانہ لعل ہے . یہاں
قاضی لعل نامی ایک بزرگ کا گھر ہے جسے وہ کاشانہ کہا کرتے تھے وہ اکثر کہا
کرتے تھے کے محل چوبارے تو بڑے لوگوں کے ہوتے ہیں ہمارا تو چار تنکوں کا
بنا آشیانہ ہے پتہ نہیں کب کوئی جونکا ہوا کا آئے گا اور اپنے ساتھ اڑا لے
گا. قاضی صاحب دین دار اور ملنسار آدمی تھے اس لیے اہل محلہ آپ کو نہایت
عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے. بعد نمازِ عصر آپ کے رفقاء آپ کے گھر آ جاتے
اور مغرب تک آپکی نشست رفقاء جمی رہتی. آپ بھی بعض اوقات اپنے ہمعصر رفقاء
کے گهروں میں جاتے لیکن نہایت عسرت کے باوجود بھی کبھی کسی کے ہاں خالی
ہاتھ نہ جاتے . ایک دفعہ وہ اپنے ایک دوست ماسٹر فیض محمد کے گهر گے تو حسب
معمول کچھ لے جانے کے لیے جیب ٹٹولی تو ایک روپے کا سکہ ملا دو تین بار اس
کو اس حسرت سے دیکھا جیسے سوچ رہے ہوں کہ اس سے کیا ملے گا لیکن کسی انجانی
سوچ کے تحت عدالت مٹھائی والے کی دکان کی طرف رخ کر لیا دکان پر پہنچ کر
عدالت کو سکہ تهماتے ہوئے کہنے لگے عدالت جی اس کا کچھ دے دو اس نے ہنستے
ہوئے ایک چهلا جیلبی کا اخبار کے پنے میں لپیٹ دیا وہ اسے لے کر اپنے دوست
فیض محمد کے گهر لے گے. ماسٹر فیض محمد بهی بڑے نکتہ چیں شخص تهے ہاتھ میں
مروڑا ہوا کاغذ دیکھ کر بہو سے کہنے لگے کوئی ٹوکرا لے آنا بہو نے سوالیہ
نظروں سے دیکھا تو کہنے لگے دوست آئے ہیں کچھ تو لائے ہوں گے. بہو نے غور
سے دیکھا تو واقعی ہاتھ میں کچھ تها پوچهنے لگی یہ کیا ہے کہنے لگے جلیبی .
ماسٹر جی کہنے لگے کیا مجال ہے کہ ذرا سا بھی جھوٹ بول جائیں دل رکھنے کے
لیے تو کہہ دیتے جلیبیاں ہیں. بہو نے چڑ مڑ کیا ہوا کاغذ کهول کر دیکھا تو
واقعی ایک ہی جلیبی کا چهلا تها ہنستے ہوئے کہنے لگی یہ ایک چهلا نہ بھی
لاتے تو تیمارداری ہو ہی جاتی قاضی جی کہنے لگے ہم نے اپنی محبت کی مٹهاس
ظاہر کرنی تهی اگر وہ ایک ہی چهلے سے ہو جاتی ہے تو دو چهلوں سے کیا لینا.
ماسٹر فیض محمد جی کا گهر اس وقت کے بڑے گهروں میں شامل ہوتا تھا ان کے تین
بیٹے تین بہوئیں آگے ان کی اولاد یہ سارے ایک ہی گهر میں رہتے تھے اس کے
علاوہ محلے کی کسی بهی پنچایت یا جرگہ وغیرہ کے لیے بھی یہی گهر منتخب کیا
جاتا تھا.
ان کے پڑوس میں چودھریوں کے گهر تهے چودھری تین بهائی تهے لیکن ان کے گهر
ماسٹر فیض محمد کے گهر والی وسعت نہیں رکهتے تهے ہاں البتہ منجلے بهائی
حاجی نیامت کے گهر کے سامنے مال مویشی کا ایک کمرہ تها جس کی چھت ان کے صحن
سے کچھ ہی اونچی تهی اس لیے اس چهت کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا تھا یوں
تینوں بھائیوں کے سارے معاملات مشترکہ انجام پائے جاتے. البتہ چودھری
چودھری ہیں ساری آل اولاد پڑهی لکهی ہے چهوٹے دو بھائیوں کا ایک ایک بیٹا
وکیل اور بڑے چودھری صاحب کا نور چشم ڈاکٹر ہے . چودھریوں کے گهر کے سامنے
ہی بوا جی (بو کلالاں والی) کا گهر ہے . بو بڑی خرانٹ قسم کی خاتون تھیں
بڑے بڑے اکڑخان مرد بهی جهک کر بات کرتے تھے. بو نے بیوگی کا بڑا لمبا چوڑا
سفرکاٹا لیکن کبھی اپنی آنا پر حرف نہیں آنے دیا ایک بیوگی دوسرا عسرت کے
دن لیکن پهر بھی اٹھ نو اولادوں کی پرورش نہایت عمدگی سے کی چه بیٹوں کو
پڑهانا دشوار لگا تو بڑے بیٹے کو خاندانی پیشہ پوشاک سازی کی تربیت دے کر
سلائی مشین لے دی تاکہ روز گار کا سبب بن جائے اس سے دو چهوٹوں کو اچھی بول
چال کی تربیت دے کر تلاش معاش کے لئے لاہور روانہ کر دیا چوتھے کو فوج میں
بھرتی کرا دیا کہ گهر کے ساتھ ساتھ قوم و ملک کی خدمت بهی کرے پانچواں بیٹا
جو کچھ کچھ اونچا سنتا تها اس کو دانے پیسائی کی مشین لگا دی آخری بیٹے کے
وقت چودھریوں کی ہمسائیگی کا حساس ہوا تو بو نے بھی بیٹے کو پڑهانے کے لیے
کمر کس لی آخر کار بو کی کوشش اور بیٹے کی محنت رنگ لائی تو بیٹا ماشاء
اللہ محکمہ زراعت میں بابو لگ گیا. بو دوراندیش خاتون تھیں انہوں نے شاید
سوچ لیا تھا کہ ایک ہی محلے کے تین وکیل ٹھیک نہیں رہیں گے ویسے بھی برادری
ازم کے اس دور میں چودھریوں کے سپوت چهوڑ کر کهوکروں کے لونڈے کو کون وکیل
کرے گا. اس سے بہتر زراعت کی بابو گیری کچھ نہیں تو چوہے مارنے کی دوائیں
تو گهر آئیں گی. البتہ بو نے یوں بیٹے کو بابو بنایا کہ بیٹا نوکری چهوڑنے
کے بعد بھی بابو ہی رہا.
سیری نالہ بان سیری بازار اور گاؤں کو تینوں اطراف سے گهیرے ہوا ہے جیسے
کوئی ماں جهاڑے کے دنوں میں اپنے نومولود بچے کو بکل میں لیے ہوتی ہے. ارد
گرد کے کهتوں میں لہلہاتے فصل مشرق اور مغرب میں واقع بلند و بالا پہاڑوں
کی چوٹیاں سانپ کی طرح رینگتے ندیاں نالے سیری کی خوبصورتی کو یوں ہی چار
چاند لگا رہے ہیں جیسے دلہن کا جومر بےشمار نگینوں سے مزین ہو . سیری جس
طرح چار پاو کے سیر کے ساتھ منسوب کی جاتی ہے اگر اسے چار شیروں سے بھی
منسوب کیا جائے تو بےجا نہ ہو گیا . سیری میں اتفاق سے ایسے چار ہی آدمی
ہوئے جن کا نام شیر تها. اگر ہم سیری نالہ بان کی طرف سے بتانا شروع کریں
تو سب سے پہلے جس شیر کا نام آتا ہے وہ فتح شیر ہیں برلب سیری نالہ بان کے
ان کا مسکن تھا. دوسرا شیر محمد شیر تهے. ان کو شیر کنی والا بھی کہتے تھے
اس کی وجہ ان کے چهوٹے چهوٹے کان نہیں تھے بلکہ وہ سیری محلے کے اس کارنر
پر رہتے تھے جہاں سے سیری محلہ شروع ہوتا ہے. وسط یا اپر سیری کے لوگ اس
کنارے کو کنی کہتے تھے اس لیے وہ شیر کنی والے مشہور ہو گئے. لاکھوں کروڑوں
کی جائیداد ہونے کے باوجود نہایت سادگی اور عاجزی میں زندگی بسر کی.
دوسرا شیر شیر محمد تهے یہ سیری کے وسط میں سکونت پذیر تهے . پرانے زمانے
کے پڑهے لکهے لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ایک بار بی ڈی ممبر کا الیکشن
بھی لڑے انتخابی نشان اونٹ ہونے کے باعث الیکشن جیت نہ پائے اعتقاد پسند
لوگوں کا کہنا تھا کہ اونٹ سے کسی کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے حالانکہ انہوں
نے بہت کہا کہ دیکھو اونٹ جتنا اونچا ہے اتنا ہی فرمانبردار بهی ہے چهوٹی
سی سی پر بیٹھ بھی جاتا ہے حریف پارٹی کا ایک فطین آدمی دوسروں کو باور
کرانے کے لئے فوراً ہی بول پڑا یہی اونٹ کی خامی ہے کہ وہ سی پر بیٹھ جاتا
ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ سی کس کی ہے. الیکشن ہارنے کے بعد بھی وہ چودھری
ہی رہے یہ ان کی خاندانی پہچان تھی اس کو ہار جیت سے کوئی خاص واسطہ نہیں
تھا.سیری کا چوتھا شیر شیر محمد مجاہد تھے. 1971 کی پاک بھارت جنگ میں جب
فوج کی کمی محسوس کی گئی تو پولیس نے بارڈر قریب کے نوجوان لڑکوں کو پکڑ کر
فوج کی مدد کے لئے رضامند کیا کہ کچھ اور نہیں تو کم از کم فوجیوں کو
خندقوں میں ایمونیشن تو پہنچاو اسی زمرے میں شیر محمد بهی پولیس کے ہتھے
چڑھ گئے مجاہد بٹالین کے ساتھ کام کرنے لگے. بعد میں فوج نے یاددہانی کے
لیے ورک چارج لسٹوں میں ان کو انرولڈ بھی کیا جس سے یہ لوگ سمجهنے لگے کہ
ہم بھی تنخواہ دار مجاہدوں میں شامل ہو گئے ہیں لیکن جوں ہی جنگ بندی کا
اعلان ہوا فوج نے کچھ راشن اور اسناد دے کر گھر روانہ کر دیا. چونکہ انہوں
نے مجاہدوں کے ساتھ ایک دو ماہ کام کیا تھا جب واپسی ہوئی تو کچھ محلے
والوں نے اور کچھ خود انہوں نے مجاہد لکهنا شروع کر دیا. ان کے مجاہد لکهنے
سے اہل محلہ کو یہ آسانی ہو گئی کہ دونوں پڑوسی شیروں میں ایک پہچان بن
گئی. یہ مجاہدی تمغہ انہوں نے اپنی تہی ہی چمکائے رکھا جبکہ ان عارضی
مجاہدوں میں مستری غلام حسین اور چوہدری نیامت بھی تهے لیکن کسی نے آج تک
ان کو مجاہد نہیں کہا. لیکن شیر محمد کے کتبے پر بھی مجاہد لکھا ہوا دیکھا
جاتا ہے. آج یہ چاروں شیر زمین کے پیٹ میں آرام فرما ہیں. آخر الذکر دونوں
شیروں کے درمیان ایک گهر مغلوں کا تها جس میں خاتون خانہ کا نام شیراں تها.
شیراں کا شمار نہایت دلیر عورتوں میں ہوتا ہے.لیکن برا ہو غریبی کا یہ کب
کسی میں انا اور دلیری چهوڑتی ہے. اج وسط سیری شیروں کی پڑوسن اکیلی شیراں
رہ گئی ہے. |
|