آبرو کے امین بن جاؤ!

یہ تحریر سماج میں ڈیرا ڈال چکی اس اخلاقی برائی پر مبنی ہے جس کی خطرناکی فرد واحد تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس نے بہتوں کے گھروں کو برباد کیا اورسماج میں بدامنی اور برے سلوک کے رواج پانے کا ذمہ دار بنی.

خود کے آبرو کو جھانکیں!

عوام کی اکثریت میں ایک وبا گھر کر چکی ہے کہ وہ اپنے عیوب ونقائص سے بے خبر دوسروں کی کمیوں اور خامیوں کی ٹوہ میں رہتے ہیں، ان میں سے بعض کا مقصد محض تفریح ہوتا ہے، اور لوگوں کے درمیان اپنے بھائی کی عیب جوئی کرکے بلاوجہ کا خوش ہوتے ہیں،اور کچھ لوگوں کا مقصد واقعۃ نقصان پہنچانا ہوتا ہے جس کے اسباب کچھ بھی ہوسکتے ہیں.

سوال یہ ہے کہ کیا دوسروں کی ٹوہ لینا یا کسی کی ذاتی زندگی میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کرناشرعی نقطہ نگاہ سے کہاں تک درست ہے،گرچہ اس شخص میں وہ عیب بدرجہ اتم موجود ہے؟؟؟

شریعت اسلامیہ کا ایک ادنی طالب بھی اس حکم سے واقف ہوگا جو ابھی اوپر کے سوال میں گزرا کہ کسی بھی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی کی کردار کشی میں ادنی درجے کی بھی شراکت کرے،بلکہ شریعت نے اس عمل کو حرام قرار دیا ہے جس پر نصوص وآثار موجود ہیں.

اللہ رب العالمین سورۃ حجرات کے اندر گمان اور ظن کی خطرناکیوں کے ذکر کے بعد ہی فرماتے ہیں:"ولا تجسَّسوا" اور ٹوہ نہ لو! جاسوسی نہ کرو!

امام جرير طبري رحمه الله اس آیت کے اس قطعہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:"تم میں سے بعض اپنے بعض بھائی کے عیب کے پیچھے نہ پڑے،اور نہ ہی اس کی پوشیدہ باتوں کی کھوج میں رہے،ایسی باتوں کی تلاش بھی جائز نہیں جس کے بارے میں تم نہیں جانتے کہ وہ ان کی خفیہ باتوں میں سے ہے.
امام ابن کثیر فرماتے ہیں:"عموما تجسس شر کے کاموں میں ہوتا ہے"

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّم نے فرمایا:"گمان سے بچو اس لیے کہ ظن سب سے بڑا جھوٹ ہے اور ٹوہ میں نہ پڑو...آخر میں فرمایا اور اللہ کے بندے بھائ بھائی ہو جاؤ.
بُخَارِي (6064)مُسْلِم (2563) .

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام قرطبی رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں:"یہاں ظن سے مراد ایسی تہمت ہے جس کا کوئی جواز نہ ہو جیسے کوئی کسی شخص پر بغیر ثبوت کے فحش(زنا) کا اتہام باندھے،اور یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے ظن سے اجتناب کے بعد تجسس سے منع فرمایا جس کا سبب یہ ہے کہ جب کسی پر تہمت لگتی ہے تو عوام اس کی تحقیق وتفتیش میں لگ جاتی اور پھر اس کے لیے جاسوسی کرتی ہے،اس کے عیوب تلاشتی ہے،اس کی باتوں کو سنتی ہے(تاکہ تہمت کے ثبوت پر کچھ مل جائے)چناں چہ شریعت نے اس بات سے منع فرمایا.اور یہ حدیث اللہ تعالی کے قول" اِجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنْ الظَّنّ , إِنَّ بَعْض الظَّنّ إِثْم , وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضكُمْ بَعْضا" کے موافق ہے.

اب آیت کا سیاق گمان سے ممانعت کی بنیاد پر غایت درجہ مسلمانوں کے آبرو کی صیانت وحفاظت پر دلالت کرہا ہے(اس لیے کہ آیت کے اندر پہلے گمان خطرناکی سے آگاہ کیا گیا،اس کے بعد گمان کے نتیجہ میں جو ٹوہ اور جاسوسی کا کردار طے پاتا ہے اس کی ممانعت آئی اور پھر تجسس کا نتیجہ غیبت اور اس کے عواقب سے ڈرایا گیا،اور یہ سارا کچھ ایک انسان کے عزت وآبرو کی حفاظت کی خاطر اور کچھ نہیں)چناں چہ اگر گمان کرنے والا کہے کہ میں معاملہ کی چھان بین میں لگاہوا ہوں تاکہ اس کی تہہ تک پہنچ سکوں تو اس سے کہا جائے گا کہ جاسوسی نہ کرو،اور اگر کہے کہ میں نے بغیر جاسوسی کے تحقیق مکمل کرلی تو اس سے کہا جائے گا کہ اس بات کی کسی سےچغلی نہ کھاؤ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ "کسی نے کسی جماعت کی بات سننا چاہی،حالاں کہ وہ لوگ اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ کوئی اس کی بات پر کان لگائے یا وہ بھاگتے پھرتے ہیں( تاکہ کوئی ان کی بات نہ سنے )ایسے شخص کی کان میں بروز قیامت کالا سیسہ انڈیلا جائے گا" بخاری (7042) .

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"رہی بات کان میں سیسہ ڈالنے کی تو یہ بدلہ جنس کے اعتبار سے ہے"(الجزاء من جنس العمل).

آخری بات! دوسروں کی کردار کشی آپ کی فضیحت کا سامان بن جائے یہ عین ممکن ہے،اس لیے قبل اس کے کہ اللہ آپ کی آبرو تار تار کرے دوسروں کی آبرو کے امین بن جائیے.
md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 58046 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More