مسٹرکیمرون مسز خان سے ملئے۔ آئیے میں آپ کا تعارف ان سے کرادوں یہ ہیڈ
سکارف پہننے والی 35سالہ مسلمان خاتون ہیں جن کے 9سال سے کم عمر کے 4بچے
ہیں۔ ان کے شوہر مسٹر خان دن کا زیادہ حصہ کام پر گزارتے ہیں۔ مسز خان بچوں
کو سکول کے لئے تیار کرتی ہیں پھر انہیں سکول چھوڑتی ہیں۔ خریداری کرتی
ہیں، گھر کی صفائی کرتی ہیں، کھانا پکاتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں۔ بچوں کو
سکول سے واپس لے کر آتی ہیں، مسجد لے کر جاتی ہیں اور وہاں سے واپس لے کر
آتیں ہیں، سکول کے ہوم ورک میں ان کی مدد کرتی ہیں، پھر انہیں بستر پر
سلاتی ہیں، جب ان کا شوہر کام سے واپس آتا ہے تو اس کے لئے کھانا ٹیبل پر
لگاتی ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے اس نے منتخب کیا ہے کیونکہ وہ ایک اطاعت
گزار ہیں اور وہ یہ سارے اپنے کام انگریزی کا ایک لفظ کہے بغیر مکمل کرتی
ہیں۔مسز خان کے پاس اپنے دو سال کے بچے کو گود میں اٹھائے مقامی انگریزی کی
کلاس لینے کا وقت نہیں ہے اور اس کے پاس کوئی جاب بھی نہیں ہے یہ اس لئے
نہیں ہے کہ اس کے خاوند نے اسے روک رکھا ہے بلکہ یہ اس نے خود اپنے لئےپسند
کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے خاندان کے لئے ایک گھر بنانے میں
اپنے آپ کو مصروف رکھا ہوا ہے جہاں اس کے بچوں کی پرورش پیار و محبت سے
ہوسکے اور جہاں کا ماحول انہیں کھل کر ایسے مسائل پر گفتگو کرنے کی اجازت
دیتا ہو جن کے بارے میں بحیثیت مسلمان باہر کی کمیونٹی کے جذبات مخالفانہ
ہوں۔مسز خان کو یہ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ انگریزی کیسے بولی جاتی
ہےکیونکہ وہ ایسی زبان جانتی ہے جو اسکے بچوں کو نظم و ضبط سکھاتی ہے اور
جس کی وجہ سے وہ اس کی بات سنتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو صحیح اور سچا اسلام
سیکھاتی ہے جو اس کے بچوں کو انتہاپسندی سے روکتا ہے۔ وہ انہیں احترام اور
عزت کرنے کی تعلیم دیتی ہے اورا نہیں بتاتی ہے کہ کس طرح برطانوی معاشرے
میں ضم ہوا جاسکتا ہے۔ مسز خان کے دو زبانیں جاننےوالے بچے اپنی ماں کی
ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے محبت کرتے ہیں۔ جو اس نے اپنے بڑے ہوتے ہوئے بچوں سے
سیکھی ہے۔ انہوں نے اپنی ماں کی ان قربانیوں کو دیکھا ہے جو ان کے مستقبل
کو بہتر بنانے کے لئے اس نے دی ہیں۔ کیونکہ مسز خان کی خواہشات کسی طرح بھی
مسز سمتھ سے مختلف نہیں ہیں جو وہ اپنے بچوں کے لئے رکھتی ہے۔ حقیقت میں
ستم ظریفی یہ ہے کہ مسز خان اپنے بچوں کے بارے میں روایتی ایشین کیرئرز کا
خواب دیکھتی ہے جس میں وہ ایک کامیاب ڈاکٹر، قانون دان، انجینئر اور
اکائونٹنٹ جیسے پروفیشنلز بن کر اس معاشرے میں اپنا حصہ ڈال سکیں، وہ کبھی
یہ نہیں چاہتی کہ اس کے بچے بنیاد پرست انتہا پسند بنیں اور وہ اس لئے
برطانیہ آئے تھے تاکہ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل بناسکیں۔ مسٹر کیمرون اگر
آپ چاہتے ہیں کہ مسز خان کمیونٹی کے اندر اپنے آپ کو ضم محسوس کریں تو
برائے مہربانی تو مسلم مخالف نفرت کو کم کرنا جاری رکھیں۔ سو وہ اپنے بچوں
کے ہمراہ سر پر دوپٹہ اوڑھے ان کے سکول تک جانے تک محفوظ تصور کرے۔ آپ اس
بات کی ضمانت نہ دیں کہ انگریزی سکھا کر اس کی مدد کررہے ہیں حالانکہ کچھ
سال پہلے ESOL پروگرام پر آپ نے کٹوتی کردی تھی۔ اور ڈھائی سال کی ڈیڈلائن
دیکر مسز خان کے مستقبل کو آپ نہ دھمکائیں۔ اور اس بنا پر اس کے بچوں پر
بنیادپرستی کا لیبل بھی نہ لگائیں کیونکہ وہ انگریزی نہیں بول سکتی اور اس
لئے وہ مستقبل کے دہشت گردوں کی ماں ہے؟ بلکہ اس بات کی ضمانت فراہم کی
جائے کہ بغیر کسی حکومتی مداخلت کے مسز خان کے بچے مدارس میں اپنے عقیدے کی
تعلیم حاصل کرسکیں۔ یونیورسٹیوں میں جاکر اپنے آپ کو منوائیں۔ صحت مند
طریقے سے ہر قسم کے نظریات کو چیلنج کرسکیں۔ ہماجہتی عوامل کے ذریعے
مسلمانوں کے اندر بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے نمٹ سکیں اور کام کی جگہوں پر
امتیازی سلوک کے خاتمے کی جدوجہد کرسکیں۔ اخبارات کو چاہئے کہ وہ ایسی شہ
سرخیاں نہ چھاپیں جو مقامی سفید فام اور دیگر کمیونٹیوں کے درمیان خلیج
پیدا کرنے کے لئے ’’ایندھن‘‘ فراہم کرتی ہیں "
us and them"
کے اس رویے کی وجہ سے ہمارے بچے اپنے آپ کو اس معاشرے سے الگ سمجھنے لگے
ہیں۔جیسا کہ انتہاپسندی میں کمی لانے کا آپ ہمیں کہہ رہے ہیں، میری تجویز
ہے کہ آپ فراوانی سے انگریزی بولنے والی ان مائوں سے کیوں بات نہیں کرتے
ہو اپنے بچوں کو شام لے کر گئی تھیں اور فراوانی سے انگریزی بولنے والی ان
مائوں سے کیوں نہیں پوچھتے جن کے بچے ای ڈی ایل جیسی انتہاپسند تنظیموں کا
حصہ بنتے ہیں اور مسز خان کے خاندان سے ’’نفسیاتی ہیراپھیری‘‘ کرنے کی کوشش
نہ کریں۔
یہ خیالات ہیں ڈاکٹر صائمہ اقبال کے جوکہ برطانیہ میں ایک مسلمان جنرل
پریکٹشنر خاتون ہیں انہوں نے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس بیان کے
بعد کہ ’’مسلمان خواتین انگریزی سیکھیں ورنہ انہیں دہشت گردی کے اصول کے
تحت ملک بدرکردیا جائے گا‘‘ ایک بلاگ کے ذریعے وزیراعظم کیمرون کو آئینہ
دکھا رہی تھیں۔ ویسے برطانوی وزیراعظم نے برطانیہ میں بسنے والی مسلمان
خواتین کو دہشت گردی سے بچنے کا عظیم نسخہ مرحمت فرمادیا ہے۔
کوئی ان سے یہ سوال بھی کرے گا کہ جیسے (خصوصاً مسلمان خواتین کو) انگریزی
زبان نہیں آتی وہ دہشت گرد ہوتا ہے۔ اور دہشت گرد کی تعریف کیا ہے؟ دنیا
کی تاریخ میں سب سے زیادہ معصوم انسانوں کو قتل کرنے والے کون تھے؟
ہٹلر بھی شاید مسلمان ہی تھا کیونکہ اسے تو کسی نے آج تک عیسائی دہشت گرد
نہیں کہا۔جوزف سٹالین جسے انکل جو بھی کہا جاتا ہے اس نے 20ملین انسانوں کو
قتل کیا جن میں 14.5ملین صرف بھوک کی وجہ سے مرگئے۔کیا وہ بھی مسلمان تھا۔
چائنا کا
Mo Tse Tsung
جس نے 14سے 20ملین انسانی جانوں کو ختم کیا، کیا وہ بھی مسلمان تھا۔اٹلی کا
بنٹو مسوسلینی جس نے 400ہزار انسان قتل کئے شاید وہ بھی مسلمان تھا۔اشوکا
نے کالنگا کی لڑائی میں 100ہزارانسان ماردیئے، کیا وہ بھی مسلمان تھا۔جارج
بش کی عراق پر پابندیوں کی وجہ سے 1/2ملین صرف بچے مرگئے۔ لیکن ان تمام
لوگوں کو دہشت گرد نہیں کہا جاتا،آخر کیوں؟
آج دنیا بھر میں غیرمسلموں کی اکثریت کوجہاد سے ڈرایا جارہا ہے حالانکہ
عربی کے اس لفظ کا مطلب ’’کوشش‘‘ اور ’’جدوجہد‘‘ ہے شیطان کے خلاف اور
انصاف کے حصول کی جدوجہد معصوموں کا قتال اس کا ہرگز مطلب نہیں۔ فرق یہ ہے
کہ ہم برائی کے ساتھ نہیں برائی کے خلاف کھڑے ہیں۔
اگر پھر بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام ہی مسئلہ ہے تو پھر ذرا یہ بتائیں
کہ پہلی جنگ عظیم جس میں 17ملین انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے اس کی
وجہ توشاید غیرمسلم ہی تھے؟۔ دوسری جنگ عظیم میں 55-50ملین لوگ مارے گئے اس
کی وجہ بھی غیرمسلم ہی تھے؟۔جاپان کے شہروں میں 2لاکھ جانیں لینے والے اور
تباہی پھیلانے والے ایٹم بم مسلمان ایٹم بم نہیں تھے جناب !۔ ویت نام کی
جنگ میں 5ملین افراد قتل ہوئے اس کی وجہ بھی مسلمان نہیں تھے۔بوسنیا اور
کوسوو کی جنگ میں 5لاکھ سے زائد جانیں گئیں اس کی وجہ بھی غیرمسلم ہی
تھے۔عراق کی جنگ میں اب تک 12ملین سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں اس قتل و
غارت گری کے ذمہ دار بھی مسلمان نہیں ہیں۔کمبوڈیا میں 1979-1975تک 3ملین
اموات ہوئیں اس کی وجہ بھی غیرمسلم ہی تھے۔ افغانستان، عراق اور برما وغیرہ
میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی وجہ مسلمان نہیں ہیں۔ لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ
مسلمان اگر انگریزی نہ سیکھیں تو انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے اور کئی ملین
معصوم لوگوں کو مارنے والوں کو دہشت گرد نہیں کہا جاتا؟؟؟ |