تنگدستی ہزار ٹینشن ہے

ارد گرد نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں پھول مرجھا چکے ہیں او ر لاکھوں کلیاں اپنی آب و تاب کھو چکی ہیں۔پریشانیوں نے گھیرا تنگ کیا ہوا ہے اور کروڑوں پھول پتھروں کے درمیان پسنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ یہ ننھے منے، پیارے پیارے پھول غریبوں کے معصوم بچے ہیں جن کے لاکھوں خواب تعبیر سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ جن ہاتھوں میں کتابیں، کاپیاں اور قلم ہونا چاہیے ان ہاتھوں میں ایک طرف پیچ کس، پلاس، رینچ اور نٹ بولٹ نظر آتے ہیں اور دوسری طرف جھاڑوپونچھااور برتن نظر آتے ہیں۔بڑے بڑے ہوٹلوں ، ورکشاپوں میں جو چھوٹے نظر آتے ہیں ان میں سے اکثر اپنے گھر کے سب سے بڑے ہوتے ہیں جن کے نازک کندھوں پر گھر بھر کا خرچ کمانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر کے والدین یا تو بیمار ہوتے ہیں یا پھر باپ اس دار فانی سے کوچ کر چکا ہوتا ہے اور وہ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے نازک ہاتھوں سے سخت کام کرنے پر مجبور ہو چکے ہوتے ہیں۔جن بچیوں کے کھیلنے اور رسی کودنے کے دن ہوتے ہیں ان کو اپنا سہانا بچپن بھلا کر کسی کے گھر میں صفائی کرنے اور برتن دھونے کے علاوہ ہزاروں لعن طعن بھی سننا پڑتی ہے۔امیروں کے شہزادوں کے ناز و نخرے دیکھ دیکھ کر یہ معصوم محنت کش احساس کمتری کو ہی اپنی زندگی کا اثاثہ سمجھ کر زندگی کے دن پورے کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔اس تمام تر صورت حال کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟؟؟

بندہ ناچیز کے محدود علم کے لحاظ سے چند ایک وجوہات ہو سکتی ہیں جبکہ یہاں صرف ایک پوائنٹ ہی عنوان گفتگو رہے گا۔ اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ ـ’’ ـتنگدستی‘‘ ہے اور یہ تنگدستی ہزار ٹینشن ہے ۔اس تمام صورت حال کی بہتری کے لیے سوچنا اور اس کی درستی پر کام کرنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ان پریشانیوں کا حل زیادہ مشکل نہیں ہے بلکہ انتہائی آسان ہے ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان معصوم پھولوں کو اپنے پھولوں جیسے سمجھا جائے ۔اس تمام صورت حال کی بہتری کے لیے ایک نہایت آسان حل ہے کہ ہم تمام پاکستانی مخلص ہوجائیں اور ہر شعبہ ء زندگی میں ایمانداری کو اپنا شعار بنالیں ۔ اپنے تمام حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ایمانداری کو پیمانہ بنائیں تو یہ دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب تنگدستی ہمیشہ کے لیے پیارے پاکستان سے مکمل ختم ہو جائے گی اور ہر طرح کی غربت و افلاص کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اگر ہم سب پاکستانی ایمانداری کو کسوٹی بنالیں تو پھر کوئی بھی بچہ تھر میں غذائی قلت کی وجہ سے نہیں مرے گا۔جن بچوں کے سر پر ان کے باپ کا سایہ نہیں ہے ان کو ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں چھو ٹے بن کر احساس کمتری کی زندگی گزارنے ی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر ہم ایمانداری کو واقعی اپنا شعار بنالیں توصرف یہی نہیں کہ تنگدستی ختم ہو جائے گی بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں بہتری آئے گی۔ جب ایماندری ہر ایک کا شعار ہو گا تو پھر گٹروں پر ڈھکن لگوانے کے لیے کسی کی تصویریں بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی اور نہ ہی غربت کے ڈر سے کوئی باپ خود کشی کرے گا۔ایم ۔ اے پاس نوجوانوں کو تندوروں پر روٹیاں نہیں لگانا پڑیں گی اور نہ ہی کو گریجوایشن پاس لڈو پیٹھی بیچنے پر مجبور ہوگا۔مگر حالات تو کچھ اور قسم کے ہی بن چکے ہیں ، یہاں کوئی بھی مخلص نہیں ہے۔مال بٹورنا ہی مقصد زندگی بن چکا ہے۔ جہاں سے آئے جیسے بھی آئے بس مال آتا جائے۔ ہر کوئی خزانے بھرنے پر لگا ہوا ہے ۔ کوئی بینکوں تجوریاں بھرنے میں تو کوئی کارخانوں کی خریدو فروخت میں مصروف میں عمل ہے۔کچھ زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنی جائیداد ہی کم ظاہر کرتے ہیں تا کہ پوری زکوٰۃ ادا ہی نہ کرنا پڑے۔اور اگر زکوٰۃ و خیرات کی صورت میں کوئی رقم جمع ہو بھی جاتی ہے تو وہ اصل حقدار تک پہنچ ہی نہیں پاتی بلکہ راستے میں ہی بند بانٹ کا شکار ہی جاتی ہے۔اگر یہی بدکرداری کا سلسلہ جاری رہے گا تو پھر کس طرح ملک سے تنگدستی کا خاتمہ ہو گا۔غریبوں اور لاچاروں کے لیے تو یہ تنگدستی ہزار ٹینشن ہی بنی رہے گی۔ ان حالات کو بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا جب ہم سب پاکستانی مخلص ہو جائیں گے۔لیکن اگر بچے بھوک و پیاس سے بلک بلک کر مرتے رہیں اور دوسری جانب کتے اور بلیاں وی آئی پی مہمان بنتی رہی تو کبھی بھی تنگدستی ختم نہیں ہو سکتی۔ کیاہم پاکستانی لوگ حضرت عمر ؓ کے دور حکومت کو بھول گئے ہیں؟؟؟ ایک درہم وظیفے میں سے بیوی نے بچا بچا کر کئی مہینوں بعد کوئی اچھی ڈش کھانے میں تیار کر لی تو امیر مومنین نے پوچھا کہ پیسے کہاں سے آئے ہیں۔ بیوی نے عرض کیا کہ روزانہ خرچ میں سے بچا بچا کر کافی دنوں بعد اتنے پیسے جمع ہوئے کہ کوئی سپیشل کھانا ہی بنا لیا جائے تو امیر المومنین فرماتے ہیں کہ میراوظیفہ کم ہونا چاہیے کہ جب کم میں ہی گزارا ہو سکتا ہے تو کیوں بیت المال سے فالتو پیے لوں۔ لیکن ہمارے پاکستان کے حالات کچھ اور ہی ہیں ۔ یہاں غریب تو غریب تر اور غریب ترین ہوتا جا رہا ہے جبکہ امیر لاکھ پتی سے کروڑ پتی اور ارب و کھرب پتی بنا جا رہا ہے یعنی پیسے کو پیسہ کھینچ رہا ہے۔عدالتوں میں انصاف نہیں ،غریبوں اور مظلوموں کا کسی کو احساس نہیں، اپنے عہدوں کو کسی کو پاس نہیں ، بادشاہ و فقیر بک رہے ہیں ، یہاں ہر کسی کے ضمیر بک رہے ہیں۔کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے اس ملک پاکستان کے کس شعبہ ء زندگی کا تذکرہ کیا جائے اور اعتماد کے ساتھ کہا جا سکے کہ فلاں شعبہ بالکل پاک و صاف ہے ۔ کہ اس ادرے میں بے ایمانی ، بے انصافی اور کرپشن نہیں ہے اور بالکل حق پر ہے۔اگر سب کچھ یوں ہی چلتا رہا تو پھر تنگدستی ہزار ٹینشن کی بجائے تنگدستی لاکھ یا کروڑ ٹینشن ہی بنتی جائے گی۔ بھوک و افلاس سے شرح اموات مزید زیادہ ہوں گی اور ہم سب کا ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔ اور ہمارے آسمان کو چھوتے ہوئے مسلمانی کے دعوے بھی کسی کام نہیں آئیں گے ۔خدارا۔! بندہ ناچیز کی عاجزانہ اپیل کو مد نظر رکھییں اور اپنا بھولا ہوا سبق یاد کریں۔جگائیں اپنے اپنے ضمیر کو اور اندر کے انسان کو۔دیکھیں ارد گرد کی بگڑی ہوئی حالت کو۔توجہ کریں اور ذہن نشین کریں کہ آخر اﷲ کے حضور پیش ہونا ہے جہاں جسم کے اعضاء بھی ہمارے ہی خلاف گواہی دینے کے لیے بالکل آزاد ہوں گے۔ اور اس دن چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی سامنے آجائے گا لہذا ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ اپنی عیاشی کے لمحات میں غریبوں کے بچوں کو بھی یاد رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو ان کی امداد کریں۔اور حکومتی عہدیداران کو بھی اپنی ذمہ داری کو نبھانا چاہیے اور غریبوں کو ان کے حقوق دلوانے میں ان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ ہمارے پیارے پاکستان سے تنگدستی کا خاتمہ ہو جائے اور ہمارا ملک ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر سکے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تنگدستی ہزار ٹینشن ہے۔
Malik Muhammad Shahbaz
About the Author: Malik Muhammad Shahbaz Read More Articles by Malik Muhammad Shahbaz: 54 Articles with 44612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.