پاکستان میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی جنسی تجارت اور سمگلنگ

پاکستان ایک اسلامی ملک کہلاتا ہے مگر یہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ، انصاف مہیا کرنے والے ادارے، ہمارے حکمران اور این جی اوز تا حال پاکستان میں جنسی مباشرت کیلئے بیرون ملک لے جائی جانے والی عورتوں کی جنسی تجارت روکنے میں بری طرح نا کام ہو چکے ہیں جو نہ صرف اسلام بلکہ کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہ ہے ۔ ہمارا ملک عورتوں کی بیرون ممالک جنسی تجارت کیلئے لے جائی جانے والی عورتوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور یہ کام ایک لمبے عرصے سے جاری و ساری ہے اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے عورتوں کے اس جنسی کاروبار میں ملوث ہیں اور یہ مکروہ دھندہ انکی نگرانی میں ہو رہا ہے۔ بہت سی عورتوں کو ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے دولت اور ملازمت کا جھانسا دیکر، انہیں ڈرا دھمکا کر، مختلف قسم کا لالچ دیکر ، ماڈلنگ اور اداکاری کا جھانسہ دیکر یا پھر ان سے شادی رچانے کے سبزباغ دکھا کر یا ان سے شادی رچاکر انہیں جسم فروشی کے دھندے کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ اور ان عورتوں اور نو جوان لڑکیوں کو جنکی عمریں 14 سال لے لیکر 40 سال تک کی ہوتی ہیں انہیں مختلف ممالک جن میں خلیجی ریاستیں، دبئی، ابو ظہبی، سعودی عرب، ترکی، ساؤتھ افریقہ، یوگنڈا، یونان، ایران، وسطی ایشیا، اور یورپ کے ممالک شامل ہیں غیر قانونی طریقے سے لے جایا جاتا ہے اور انہیں جسم فروشی کے دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے اس تمام مکروہ دھندے میں جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے ملوث ہیں وہیں ائر پورٹ اور ٹریولنگ ایجنسیاں، سیاستدان ، بیوروکریٹس بھی اپنا بھونڈا اور مجرمانہ کر دار کررہے ہیں اور یہ دھندہ تا حال قانون نافذ کرنے والوں اور ہمارے حکومتی اداروں کی آنکھوں سے جان بوجھ کر مخفی رکھا ہوا ہے۔عام طور پر ان سمگلنگ ہونے والی خواتین کے نام اور انکی شناخت کو چھپا لیا جاتا ہے اور ان پر ظلم و تشدد کے ذریعے اپنی دھاک بٹھا کر انہیں جنسی میلان کیلئے ایک سے دوسرے اور پھر تیسرے ہاتھ میں فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ازبکستان، افغانستان، ایران، آزربائی جان، بنگلہ دیش اور خلیجی ریاستوں میں خواتین کی جنسی تجارت کیلئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں عورتوں کی جنسی تجارت کی وجوہات کو اگر غور سے دیکھا جائے تو ان میں عورتوں کیساتھ ہونے والا گھریلو تشدد، بے روزگاری، غربت، بھوک ننگ، تعلیم کی کمی، قانونی عدم تحفظ اور کچھ ذاتی وجوہات ہیں جو عورتوں کی جنسی سمگلنگ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے اور موجودہ دستیاب ،معلومات کے مطابق ہر سال پاکستان سے باہر اور پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ عورتوں کی آمد و رفت ہوتی ہے جس میں صحت کے معاملات، مخدوش حالات، ڈرگ مافیااور جنسی کاروبار میں ملوث دلال اس کاروبار اور عورتوں کی سمگلنگ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جس سے روز بروز اس مکروہ دھندے میں اضافہ ہور رہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں عورت ہمیشہ ظلم و تشدد کا شکار رہی ہے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا پھر کنواری لڑکی کے روپ میں ہو۔ ایک عورت کو بے راہ روی کا شکار کرنے میں اسکا بے گھر ہونا ، اس پر خاوند اور گھریلو ظلم و ستم اور خاوند کا نشے کی لت میں ملوث ہونا اور ماں باپ اور بہن بھائیوں ور رشتے داروں کی طرف سے تحفظ کی عدم فراہمی ہے جس سے عورت مکار اور مکروہ دھندہ کرنے والے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس انتہائی اہم معاملے کو کبھی نہ تو بحث و مباحثے میں لایا جاتا ہے اور نہ ہی کبھی اسطرف توجہ دی جاتی رہی ہے جس سے عورتوں کی سمگلنگ، نقل و حمل اور جنسی خرید و فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے جو ہمارے معاشرے کی بہت بڑی لعنت ہے۔ جس طرح زمانہ قدیم میں عورتوں ، بچوں اور مردوں کو غلام بنانے کی غرض سے غریب ممالک پر جبر و ستم ڈھا کر یہاں کی عورتوں، بچوں اور مردوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا اور ان پر تشدد کرکے ان سے انکی مرضی کے خلاف مختلف کام لئے جاتے تھے اور ان سے جنسی میلان قائم کیا جاتا تھا آجکل کے انتہائی جدید معاشرے میں بھی یہ اسکی ایک ایسی شکل ہے جو ہمارے معاشروں میں آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے پائی جاتی ہے اور ہم اسے جدید غلامی کا نام دیتے ہیں۔ غلامی آج بھی موجود ہے مگر اسکی اشکال تبدیل ہو چکی ہیں۔ اسکی روایات اور اخلاقیات میں فرق پایا جاتا ہے مگر یہ اب بھی ہمارے معاشروں میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے جو ایک بہت بڑا جرم ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمارے حکمران، قانون اور انصاف کے داعی جب بھی اس موضوع پر کوئی سیمینار منعقد ہوتا ہے وہاں پر جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے معاشرے کے اعلیٰ اقدار یافتہ اور با اختیار لوگ اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جو عوام الناس کے ساتھ دھوکہ اور فریب دہی ہے۔ پاکستان سے ہر سال پوری دنیا میں ایک لاکھ عورتوں کی سمگلنگ ہوتی ہے جنہیں جنسی میلان کیلئے بیرونی ممالک کے قہبہ خانوں اور جدید چکلوں میں رکھا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا سے ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ عورتوں کی سمگلنگ کی جاتی ہے ۔ اسی طرح ایشیائی اور یورپین ممالک میں جسم فروشی کے دھندے کیلئے لائی جانے والی عورتوں میں آجکل کالج، یونیورسٹی، ماڈلزاور اونچی سوسائیٹی کی وہ لڑکیاں بھی شامل ہیں جو اپنے سٹیٹس کیلئے یہ کام کرتی ہیں اور دولت کمانے کے چکر میں وہ اس مکروہ دھندہ کرنے والوں کے ہاتھوں فروخت ہوتی ہیں۔

عورتوں کی سمگلنگ میں تین بنیادی عوامل انتہائی سرعت سے کام کر رہے ہیں ایک کہ عورت کو کس مقصد کے تحت سمگلنگ کیا جا رہا ہے ملازمت کیلئے، دوم اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کیلئے مثال کے طور پر مالدار لوگوں کو اغوا کرنے میں خوبرو اور خوبصورت عورتوں کا استعمال کیا جاتا ہے، تیسرا یہ کہ کیا انہیں جسم فروشی کیلئے سمگلنگ کیا جا رہا ہے یا پھر ان سے ذبر دستی مختلف لڑکیوں کو ورغلا کر انکے مکروہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے انکی سمگلنگ کی جا رہی ہے یہ تینوں عوامل انتہائی گھناؤنے جرائم ہیں۔ پاکستان اس جرم کی ابتدا کیلئے اور عورتوں کی سمگلنگ کیلئے ایک منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خطے میں رہنے والی عورتیں انتہائی مخدوش حالات میں غربت کی آخری لکیر کو چھوتے ہوئے اپنی زندی گزار رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے خاندان بھی ہیں جہاں پر لڑکیوں کی بہتات ہے اور ایسے غریب خاند ان اپنی بچیوں کو دوسروں کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں مگر ہمارے ادارے اور حکومت نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے اور یہ قبیح جرم متواتر سر زد ہو رہا ہے۔ اسی طرح عورتوں کی سمگلنگ کیلئے بنایا جانے والا انتہائی لا غر اور بوسیدہ قانون، قوانین کا ایک مخصوص بطقے پر لاگونہ ہونا، قانون کی راہ میں حائل رکاوٹیں اور قانون کا ایک عام آدمی کی دسترس میں نہ ہونا، جاگیردار اور سرمایا داری کا اثروہ عوامل ہیں جو عورتوں کی سمگلنگ کو روکنے میں انتہائی گھناؤنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال عورتوں کے جنسی میلان سے ہونے والی بیماریاں جو مردوں میں منتقل ہو رہی ہیں ان میں ایڈز کا بڑھتا ہو ا مرض شدت اختیار کر رہا ہے۔ اسی طرح ان سمگلنگ کی جانے والی عورتوں میں بھی مختلف بیماریوں کے وائرس نہ صرف مردوں اور دوسری عورتوں میں منتقل ہو رہے ہیں بلکہ انکے پیدا ہونے والے بچے مختلف بیماریوں مثلاً دماغی امراض، جسمانی لاغر پن، خوف، اندرونی خلفشار، نفسیاتی امراض اور جنسی تشدد کے رجحانات منتقل ہو رہے ہیں جس سے معاشرے میں عدم تحفظ اور عدم برداشت جنم لے رہے ہیں۔ اسی طرح بغیر خواہش کے بچے جنہیں ہمارے معاشروں میں حرام کی اولاد کا نام دیا جاتا ہے ایسے بچے اور بچیاں انتہائی مخدوش حالات میں پلتے ہیں یا پھر انہیں پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا ہے یا پھر ایسے بچے لا وارثی کی زندگی گزارتے ہیں اور بڑے وہ کر مختلف جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں ایسے بچوں کو معاشرے کے کلنک کے ٹیکے کانام دیا جاتا ہے جس سے ایسے بچے مختلف حالات کا شکار ہو کر جرائم پیشہ بنتے ہیں اور معاشرے میں عدم برداشت ، عصمت دری اور شدت پسندی کا کلچر پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ عورتوں کی سمگلنگ اور انکے ساتھ ہونے والی معاشرتی ذیادتیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان میں اس جرم پر قابو پانے کیلئے عورتوں کی سمگلنگ کے قوانین کو سخت بنایا جا نا بہت ضروری ہے، ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے، ایسی عورتوں کی مدد کیلئے قوانین پر عمل درامد کرایا جائے اور انہیں معاشرے میں برابری کا مقام دیا جائے۔ اس انتہائی سنجیدہ جرم کے خاتمے کیلئے عوررتوں میں سوجھ بوجھ پیدا کی جانی انتہائی ضروری ہے، انہیں تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے، عورتوں کی صحت کے مراکز تک رسائی کو ممکن بنایا جائے، ورکشاپس اور سیمینار قائم کئے جائیں۔ حکومتی اور این جی اوز کی سطح پر اس برائی سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنا اپنا کردار کیا جائے، ٹی وی، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے عورتوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کو اجاگر کیا جائے اور اسکی روک تھام کیلئے سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔ عورتوں کی بحالی کے مراکز قائم کیئے جائیں تاکہ عورتوں کی سمگلنگ کا خاتمہ ہو سکے اور خواتین اپنے آپکو محفوظ سمجھ سکیں۔ پاکستان میں عورتوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک بند کیا جائے انکے ساتھ برابری کا سلوک روا رکھا جائے، انکی بہتری کیلئے عوامی اور حکومتی سطح پر اقدامت کئے جائیں ، انہیں انکا جائز مقام دلایا جائے، انکی صحت اور نگہداشت کیلئے نفسیات دان، ڈاکـٹر حضرات، قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر اپنا اپنا کردار ادا کریں تو اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عورتوں کی تعلیم کا بندو بست کیا جانا بہت ضروری ہے ۔ اگر ہماری حکومت اور ادارے اس کام میں مخلص ہو کر عورتوں کی سمگلنگ کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم ایک اچھے معاشرے کے قیام کو عمل میں لا سکتے ہیں۔
Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 155634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.