دیواریں!

 گاؤں میں ہمارا گھر ایک بڑے احاطے میں تھا، جس میں ہمارے علاوہ ہمارے عزیزوں کے بھی تین چار گھر تھے۔ احاطے کے تقریباً درمیان میں جامن کا ایک بڑا سار ا درخت تھا، گرمیوں کی دوپہرتمام گھروں کی خواتین اور بچے اسی درخت کے نیچے چارپائیاں رکھ کر گرمی کی شدت سے محفوظ رہنے کے لئے جمع ہوتے، مرد حضرات شام ڈھلے کھیتوں سے واپس پلٹتے تھے۔ اگرچہ ہمارا اکیلا گھر باقی تمام گھروں کے برابر تھا، مگر تمام گھروں کے درمیان دیواریں نہیں تھیں، بس دو تین فٹ اونچی رکاوٹ نما دیواریں تھیں، جن سے صرف گھروں کی حدود کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ کہاں سے کس کا گھر شروع ہوتا ہے۔ جوں جوں بچے بڑے ہوتے گئے ، دیواریں بھی بڑی ہوتی گئیں، چھوٹے گھر دیواروں میں گھِر گئے، اور مل جل کر رہنے والے بڑے ایک دوسرے سے دور ہوگئے، اکٹھا کھیلنے والے بچے رکاوٹوں کے سامنے بے بس ہوگئے۔ دیواریں شاید وقت کی ضرورت تھیں، مگر جتنا بھی پیچھے کی طرف سفر کرتے جائیں دیواریں چھوٹی ہوتی جاتی ہیں، پہلے احاطے ہی ہوتے تھے اور کئی قریبی عزیزوں کے گھر اس میں موجود ہوتے تھے۔ مگر بعد ازاں دیواروں کی اٹھان کا سلسلہ شروع ہوگیا اور معاملہ آگے بڑھ گیا۔

شہروں میں حالات آغاز ہی سے مختلف تھے، ہر کسی کی اپنی حد پر دیوار کھڑی تھی، وجہ یہ تھی کہ دیوار کے اُس پار کوئی اجنبی لوگ رہتے تھے، دیوار کا مطلب ہی یہی لیا جاتا ہے کہ اس کے پار غیر رہتے ہیں، دیہات میں اگر ایک احاطے میں دیواریں اٹھیں تو اس کے پیچھے بھی یہی فلسفہ کارفرما تھا، یعنی خاندانوں کی آپس کی لڑائیوں اور مخالفتوں کی بنا پر ہی دیواریں کھڑی ہوئیں،اور اپنے بھی اجنبی کہلائے۔ تاہم شہروں کی دیواروں کے پیچھے اجنبیت ضرور تھی، نفرت نہیں۔ آج بھی یہی عالم ہے کہ شہروں کی جدید اور بڑی آبادیوں میں کوئی ہمسایہ دوسرے کا واقف تک نہیں، کئی کئی سال سے ہم دیوار لوگ ایک دوسرے کی چہرہ شناسی سے بھی محروم ہوتے ہیں، انہیں ساتھ والوں کی کوئی معلومات نہیں ہوتیں۔ دیواریں گھروں کے درمیان میں تو تھیں ہی، مگر اب گھروں سے باہر گلیوں میں بھی تعمیر ہو رہی ہیں، جنہیں عرفِ عام میں ناجائز تجاوزات کہا جاتا ہے،یہاں یہ بات بھی حیران کن ہے کہ کیا تجاوزات ’جائز‘ بھی ہوتی ہیں؟ خیر تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے، انہی تجاوزات کی وجہ سے گلیاں تنگ ہوتی جارہی ہیں۔

گھروں کے درمیان دیواریں تو فطری سی بات ہے، کہ آخر ہر کسی کو خلوت درکار ہوتی ہے، مگر شہروں میں مختلف اداروں اور دفاتر کے باہر چھوٹی سی دیوار ہوتی تھی، اس کے اوپر لوہے کی خوبصورت اورمختصر سی گرِل۔ باہر سڑک پر گزرتے ہوئے اس دیوار کے اندر کی طرف ادارے یا دفتر کی جانب سے لگائے گئے پھول، پودے اور گھاس وغیرہ کا منظر باہر سے صاف دکھائی دیتا تھا، ماحول خوبصورت اور دلکش ہوتا تھا، سبزہ آنکھوں کو بھاتا تھا۔ مگر برا ہو دہشت گردی کا کہ اس نے پورے معاشرے کے حُسن کو گہنا کر رکھ دیا ہے، ہم نے دہشت گردوں کے خوف سے دیواریں اونچی کرلی ہیں، تعلیمی اداروں کو حکومت کے حکم کی تعمیل کرنا پڑ رہی ہے، کہ آج کل تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی روایت فروغ پذیر ہے، معصوم بچوں اور طلبا وطالبات پر حملے ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی دیواریں اونچی کرنا قانون کا حصہ بن چکا ہے، ہمارے ہاں ایک بڑا سرکاری کالج ہے، جس کی خوبصورت عمارت سڑک سے دکھائی دیتی تھی، سامنے بڑا لان تھا، جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوتے اور گھاس کا قالین بچھا ہوتا تھا، کسی ماہر استاد کی نگرانی میں مالیوں کی محنت کے مناظر سڑک سے دیکھے جاسکتے تھے، طلبا گھاس پر بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے دکھائی دیتے یا کبھی بیٹھے پڑھ رہے ہوتے۔ کالج انتظامیہ نے نئے حکم پر جب دیواریں بنائیں تو کمال ہی کردیا، کہ سنگ وخشت کی بجائے آ ہنی دیوار کھڑی کردی، لوہے کی بڑی بڑی چادریں لگا کر باہر کا منظر اندھا کردیا، مزید ستم یہ بھی ڈھایا کہ لوہے کی دیوار کر سیاہ رنگ کردیا، حسین مناظر کے عادی لوگ اب لوہے کی کالی دیوار دیکھتے اور اپنی نگاہوں کو تاریکیوں سے آشناکرتے ہیں۔ سکیورٹی کا تقاضا ہے کہ دیواریں بنائی جائیں، اگر پہلے سے ہیں تو اونچی کر دی جائیں، مگر بدقسمتی سے جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہوئی، عقبی دیوار پھلانگ کر ہی ہوئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کاخاتمہ کیا جائے، اس کے اسباب پر بھی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، دہشت گردپیدا کرنے والے علاقوں کی ترقی کا منصوبہ بھی بنایا جائے، وہاں سڑکیں، سکول، ہسپتال اور بنیادی ضرورت کے دیگر عوامل بہم پہنچائے جائیں، تاکہ کسی کو آسودگی اور خوشحالی چھوڑ کر ددہشت گردی کی طرف مائل ہونے کا موقع ہی نہ ملے۔ ورنہ دیواریں تو صرف سادہ اور سیدھے لوگوں کا راستہ ہی روکا کرتی ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 433339 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.