تعلیمی اداروں کی ناقص سیکیورٹی

باچاخان یونیورسٹی چارسدہ پر دشمنوں کے بزدلانہ حملے کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے ،جس میں طلبہ و اساتذہ کی تعلیمی و علمی و فنی مہارت و لگن اور ان کا جوش و جذبہ تعلیم و تعلم کے ساتھ ایک امر کی جانب ہمیں توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس امر میں شک نہیں کہ جو لوگ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ان کا بدل ملنا مشکل ہوتاہے مگر یہ ضروری ہے کہ ان کے احساسات و جذبات اور ان کی محنت و لگن کو اگلی نسل میں منتقل میں مانت و دیانت داری کے ساتھ منتقل کرنا ضروری ہے۔اسی امر کی تکمیل کے لئے لازم ہے کہ ہم ان غلطیوں و خامیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ان کا تدارک کریں جن کے سبب جدا ہونے والے ہم سے جدا ہوئے۔اس سلسلہ کا سب سے اہم مسئلہ تعلیمی اداروں کی ناقص سیکیورٹی صورتحال ہے اگرچہ اس امر سے انکار نہیں کہ انسان کے مرنے کا ایک روز مقرر ہے سب لوگ ملکر بھی اس کی جان نہیں بچاسکتے مگر یہ بھی لابدی ہے کہ انسا ن اپنی جان و مال ،اور ملک کی حفاظت کے لئے تدبیر کرے۔ذیل میں تعلیمی اداروں کی ناقص سیکیورٹی کی جانب نشاندہی کرنا چاہتاہوں اور تعلیمی اداروں کے سربراہان اور ارباب حکومت سے اصلاح احوال کا مطالبہ کرتاہوں۔

ہماری مشکل یہ ہے کہ سانحہ کے بعد ماتم کرتے ہیں مگر ان سے نجات و خلاصی کے لئے کسی قسم کی حکمت عملی مرتب نہیں کرتے۔اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو دوہزار نو میں دہشت گردوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے نشانہ بنایا تھا اور جس کے نتیجہ میں بیس سے زائد شہادتیں ہوئی تھیں۔اگرچہ اس ادارہ کی سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کا عملی فیصلہ کیا گیا اور اس میں موجود ہ صدر جامعہ کے عرصہ میں عمل بھی ہوا۔مگر یہاں ایک اہم امر کا ذکر ضروری جانتاہوں کہ اسلامی یونیورسٹی میں سیکیورٹی پر مامور افراد کی عددی اکثریت جو مستقل ملازم و محافظ ہیں میں بہت سے افراد اپنی عمر کے کمزور ترین حصہ میں پہچ چکے ہیں مگر وہ تاحال یونیورسٹی کی حفاظت پر مامور ہیں اسی طرح یونیورسٹی میں سیکیورٹی گارڈوں کی جسمانی و اعصابی قوت کی تقویت کے لئے کوئی عملی پریکٹس کا انتظام نہیں اور محافظین کو بارہ گھنٹے ڈیوٹی پر مجبر کیا گیا ہے جس کے باعث انسانی اعصاب کایل و سست پڑ جاتے ہیں۔اسی طرح آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لئے پرائیویٹ محافظوں کی خدمات حاصؒ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا جس کے نتیجہ میں ایسی کمپنیوں سے کنٹریکٹ کیا گیا مگر بدقسمتی و بدبختی ہے کہ محافظوں کا کسی بھی قسم کا ٹیسٹ نہیں لیا گیا کہ ان سیکیورٹی گارڈوں میں بہت سے افراد ایسے لائے گئے جو ایک وقت سبزی منڈی ،اور راول پنڈی اسلام آباد میں محنت مزدوری کا کام کرتے تھے ،اور ان کو اسلحہ تک چلانا نہیں آتا،اور ان کی عددی اکثریت عمر کی ناپختہ سنی کی حالت میں ہوتے ہیں ،اور ایسے بھی تھی جو چھپر ہوٹلوں میں ویٹر کا کام کرتے تھے ان کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جس میں چالیس سے زائد ملکوں کے طلبہ و اساتذہ موجود ہیں کی سیکیورٹی و حفاظت پر مامور کیا گیا ۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی اہم ترین سرکاری یونیورسٹی ہے جو صدر ہاؤس کے عقب میں واقع ہے کی نہ ہی باؤنڈری وال ہے اور اسی طرح اس کا زیادہ تر حصہ تاریکی و ظلمت میں ڈوباہواہوتاہے جس کے اطراف میں بری امام کے ایریا اور مارگلہ کا جنگلی و پہاڑی ایریا ہے ۔اس میں سیکیورٹی کی بہتر صورتحال نہ ہونے کے سبب خدشہ ہے کہ دہشت گرد اپنے خبیث و پلید خیالات کی تکمیل کے لئے بآسانی قائداعظم یونیورسٹی کا استعمال کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد کی معروف یونیورسٹی نیشنل یونیورسٹی آف لینگویجز(نمل) اور اقراء یونیورسٹی کی سیکیورٹی کی صورتحال بھی کچھ مختلف و بہتر نہیں کیوں کہ ان کو جانے والا راستہ تاریکی و ظلمت میں ڈوبا ہواہوتاہے،اور آئے روز بعد از نماز عشا اور شام آٹھ بجے کے بعد کوئی فرد اس راستہ پر نہیں چل سکتاکیوں کہ وہاں پرراہ زنوں کا راج ہوتاہے۔اس کے ساتھ ان اداروں کے گردونواح میں کوئی پولیس چوکی نہیں۔

سیکٹر ایچ ٹن فاسٹ یونیورسٹی و الہدیٰ یونیورسٹی اور اسلامی یونیورسٹی واقع ہیں ۔ان اداروں کو جانے والے راستہ کی صورتحال بھی باعث تشویش بھی ہے کیوں کہ اس سڑک پرکسی قسم کی سٹریٹ لائٹس کا انتظام نہیں ہے اور اس کے ساتھ ان کے اطراف میں جنگل و جھاڑیاں ہیں اور ان کے گردونواح میں رات کے وقت میں تاریکی کا راج ہوتاہے ۔ایسے میں کوئی بعید نہیں کہ ملک دشمن عناصر ان اداروں کو ہدف بنانے میں کامیاب ہوجائیں ۔

مندرجہ بالا تعلیمی اداروں کو بطور مثال کے بیان کیاگیا ہے مگر سکول و کالج اور یونیورسٹیوں کی سیکیورٹی کی صورتحال قابل رحم ہے۔حکومت و تعلیمی اداروں کے سربراہان پر لازم ہے کہ نوجوان اور آرمی ریٹائر افراد کو ہی صرف سیکیورٹی پر مامور کریں ،بزرگ و ضعیف حضرات پر کسی قسم کے رحم کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ ان کو رزق فراہم کرکے ہزاروں نوجوانوں کے مستقبل کو تاراج کیا جائے،گورنمنٹ اور سی ڈی اے اسلام آباد کے تمام تعلیمی اداروں کے گرد سٹریٹ لائٹس نصب کرے اور اسی طرح صبح و شام اور خصوصی طور پر رات کو سیکیورٹی فورسز کی چوکی تعلیمی اداروں کو جانے والے راستوں پر ہونی چاہیے۔تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی نااہل و ناقابل اور پرائیویٹ کمپنیوں دینے پر پابندی عائد کی جائے تاوقتیکہ وہ مضبوط قوی کے حامل افراد پر اعتماد کریں۔اگر ان اداروں کی حفاظت کو لازمی سمجھا جاتاہے تو حکومت مندرجہ بالا خامیوں کو دور کرنے کے لئے سنجیدہ اور ٹھوس انتظام کرے۔
atiq ur rehman
About the Author: atiq ur rehman Read More Articles by atiq ur rehman: 125 Articles with 132162 views BA HONOUR ISLAMIC STUDIES FROM INTERNATIONAL ISLAMIC UNIVERSITY ISLAMABAD,
WRITING ARTICLES IN NEWSPAPERS SOCIAL,EDUCATIONAL,CULTURAL IN THE LIGHT O
.. View More