مدارسِ اسلامیہ: دین کی بقا کے ضامن اور مسلمانوں کے ایمان کے محافظ

 اﷲ رب العزت کی عطا کردہ نعمتوں میں سے علم ایک عظیم نعمت ہے جس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن اس کو حاصل کرنے میں جن مصائب و آلام اور دشوارگزارگھاٹیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ اسے وہی جانتے ہیں جن کے قدم اس راہ میں پڑے ہوں۔ العلم نور علم ایک نور ہے۔ علم قیمتی موتی ہے۔ علم ایک ایسی دولت ہے جس کے حاصل کرنے کے بعد انسان خود کو دوسرے انسان سے قدآور محسوس کرتا ہے۔ جس قوم و ملت کی بنیاد اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق (القرآن ، سورہ علق آیت ۱۔۲) ترجمہ: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔اور فرمایا گیا:طلب العلم فریضہ علی کل مسلم و مسلمۃ علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض ہے(مشکوٰۃ ص۳۴) ارشاد باری تعالیٰ ہے : وقل رب زدنی علما۔اور تم عرض کرو اے میرے رب !مجھے علم زیادہ دے۔(القرآن سورہ طٰہٰ،آیت ۱۱۴) علامہ ابن حجر عسقلانی رحمت اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے علم کی فضیلت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو علم کے علاوہ کسی دوسری چیز کی زیادتی کے طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا۔(فتح الباری شرح بخاری، ج اول ، ص۱۳۰)اور ہدایت دی گئیـ۔اطلب العلم لوکان بالصین کہ علم حاصل کرنے کے لئے ملک چین جانا پڑے تو جاؤ۔ افسوس !آج کے اس پرفتن دور میں وہی قوم سماجی، اخلاقی و تعلیمی اعتبار سے تنزلی کی طرف جا چکی ہے۔ (لبراہن کمیشن ، سچر کمیٹی اور اخباری رپورٹوں میں اورعلاقائی کمیشنوں کی رپورٹ میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔) اہم مسئلہ یہ ہے کہ دینی اور دنیوی تعلیم کا رجحان ملت اسلامیہ کے بچوں ،نوجوانوں میں کس طرح قائم کیا جائے اور برقرار رکھا جائے۔ یہ تمام اہلِ علم کی ذمہ داری ہے۔ مدارس اسلامیہ احیائے علوم الدین کے مراکز ہیں ،مدارسِ اسلامیہ کی بقا میں دین اسلام کی بقا ہے۔ اگر مدارسِ اسلامیہ ختم ہوجائیں گے تو دین بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ تعلیم کا موضوع (Topic) اسلام میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ کہا گیا ہے:
پگھلنا علم کی خاطر مثالِ شمعِ زیبا ہے
بغیر اس کے نہیں پہچان سکتے کہ خداکیا ہے

اطلب العلم من المھدالی اللحدکا حکم ہوا علم کی جستجو میں لگے رہو۔ پالنے سے لے کر قبر کی آرام گاہ تک۔ حضرت عبادہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے: العلم خیر من العبادہعلم عبادت سے بہتر ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے العلم حیاۃ الاسلام وعمادالدین علم اسلام کی زندگی اور دین کا کھمبا ہے(کنزالعمال ،ج۔۱۰،ص۷۶)انسان علم دین کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے۔چنانچہ علم کا حاصل کرنا علم کو دوسروں تک پہنچانا بغیر کسی معاوضہ کے افضل قرار پایا۔دینی تعلیم ہی ایک ایسی تعلیم ہے جو انسان کوانسان بناتی ہے۔ اس سے فرد اور جماعت کو ترقی کا وسیلہ ملتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تعلیم ہی اقوامِ ملت کی ترقی کا سبب ہے۔ مدارسِ اسلامیہ کا قیام اور ان کا وجود وقت کی کتنی اہم اور شدید ضرورت ہے، محتاجِ بیان نہیں۔خصوصاً اس لادینی الحادی دور میں جب کہ ملک کے فرقہ پرست اور متعصب لوگ مدارسِ اسلامیہ اور مساجد کے خلاف ایک عالم گیر تحریک چلائے ہوئے ہیں جن کے افکار وکردار سے بغاوت ِاسلام اور مسلم دشمنی کی بو نہیں چنگاری نکل رہی ہے۔ ملک میں مدارس دینیہ کا قیام اور ان کا وجود نہایت ضروری ہوجاتا ہے تاکہ ان اسلامی قلعوں میں شب و روز قال اﷲ تعالیٰ و قال رسول اﷲ ﷺ کی صدائیں بلند ہوں اور یہ ادارے اپنی تربیت میں ایسے افراد تیار کریں جو کفر و شرک ، الحاد، بے دینی، بدعقیدگی اور اسلام دشمنی کی تحریک چلانے والوں کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔

جب سے مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بنی ہے ، اس کے بعد سے مدارس، مساجد اور مسلمانوں کے کردار کو مسخ کیا جارہا ہے اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی مہم میں زبردست شدت آئی ہوئی ہے۔ فرقہ پرست لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات نے مدرسوں کے وجود کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ گزشتہ ۳؍جولائی ۲۰۱۵ کو حکومت مہاراشٹر کی جانب سے ریاست کے مدارس اسلامیہ کے متعلق جو فیصلہ آیا اس پر پورا ہندوستان تقریباً یک زبان ہوگیاکہ یہ فیصلہ مدارس کے خلاف ہے۔

کہا جارہاہے کہ مدرسوں کا وجود ملک کی سا لمیت کے لئے بڑا خطرہ ہے ۔ وہاں دہشت گردوں کوپنا ہ دی جاتی ہے او ران کے تربیت کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مزید یہ ان جگہوں میں جہاد کے لئے ذہن سازی کی جاتی ہے اور ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن ان جھوٹے اور شرمناک الزامات کے ٹھوس ثبوت تو کیا جزوی ثبوت بھی پیش نہیں کئے گئے۔(اورانشاء اﷲ قیامت تک نہ پیش کرسکیں گے)اس کے باوجود مختلف ذرائع ابلاغ ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا سے مدرسوں کے خلاف شر انگیز مہم مسلسل جاری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں ان ہی مدارسِ اسلامیہ اور علمائے کرام کاکردار نمایاں تھا۔ ملک کو آزاد کرانے والے ان ہی مدارس کے پروردہ تھے۔۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے ہندوستان سے اسلام کو نیست ونابود کرنے کا بگل بجا دیا تھا۔ہزاروں علما تختہ دار پر چڑھائے گئے تھے۔

جنگِ آزادی میں علما کا کردار
یہ بڑا المیہ اور سانحہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل بہت ہی کم جانتی ہے کہ جنگِ آزادی میں علما کا کوئی کردار و کارنامہ رہا ہے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینا تھا اس لئے دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں نے آزادی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں۔ بڑے بڑے علمائے اسلام نے جنگ آزادی کا بگل بجایا اور خود پیش پیش رہے۔ جنگِ آزادی کے دوران اور شکست کے بعد گرفتار یوں کے وقت طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں اور صابر و شاکر رہے اور ملک و ملت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔ ان عظیم المرتبت علمائے اسلام میں چند کا مختصر تذکرہ ملاحظہ فرمائیں۔

علامہ فضلِ حق خیرآبادینے۱۸۵۷ کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا۔مسلمانوں کو عزت و آبرومندانہ زندگی بسر کرنے کے لئے ایک باقاعدہ جہاد کا فتویٰ تیا ر کیا۔ جگہ جگہ دورے کئے اور دہلی پہنچ گئے ۔مولانا فضل حق کے مشورے سے صرف لال قلعہ کی پوشیدہ مجلسوں تک محدود نہ تھے۔ وہ جنرل بخت خاں سے ملے، مشورے ہوئے۔ آخر میں بعد نماز جمعہ دلی کی جامع مسجد میں علما و عوام کے کثیر اژدہام کے سامنے زبردست تقریر کی اور فتویٰ پیش کیا۔گرفتار ہوئے ،مقدمہ چلا، انگریز ججوں کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس مخبرنے عدالت میں مولانا پر اعتراض پیش کیا تھا آپ کی علمی ہیبت سے لرز اٹھا اور کہنے لگاکہ یہ وہ شخص نہیں ہے جس نے فتویٰ جہاد پر دستخط کیا تھا۔ علامہ نے بلا لو مۃ الائم انگریز کچہری کو للکارا اور کہامخبر جو بیان پہلے دے چکا ہے وہی صحیح ہے اور اب میری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیاہے اورجھوٹ بول رہا ہے۔ سنو، جہاد کا فتویٰ میں نے دیا ہے اور میں اب بھی اپنے فتویٰ پر قائم ہوں اور اس سلسلے میں میں نے اپنے فیصلہ سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ دریائے شور(کالا پانی) کی سزا ہوئی۔ جزیرہ انڈمان بھیجے گئے جہاں انگریزوں نے آپ پر آپ کے ساتھیوں پر سخت ظلم و ستم ڈھایا۔ انڈمان میں ہے ۱۲؍صفر ۱۲۲۷ھ کو آپ کا انتقال ہوا۔

حضرت مولانا کفایت علی کافی مرادآبادی:۱۸۵۷ء سے قبل آگرہ اکبر آباد میں قیام تھا۔انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا۔ بریلی کے اطراف میں جہاد کے لئے دورے کئے ۔ حویلی مرادآباد میں فرنگی سامراج کے خلاف علمِ جہاد بلند فرمایا۔ جدھر آپ کا رخ ہوا برطانوی سامرج کو شکست کا سامنا ہوا۔ سلطان بہادر شاہ ظفر نے آپ کو دہلی بلایا اور جہاد کے لئے مشورے کئے۔ مولانا نے جنرل بخت خان، شیخ افضل صدیقی، شیخ بشارت علی خاں ، مولانا سبحان علی، نواب مجدالدین، مولانا شاہ احمد اﷲ مدراسی کی معیت میں مختلف محاذوں پر انگریزوں کوشکستیں دیں۔ رام پور، مرادآباد کے اکثر معرکے سر کئے۔ بالآخر انگریزوں نے ۶؍رمضان ۱۲۷۴ھ/۳۰؍اپریل ۱۸۵۸ء کو اپنے پٹھو کلال فخرالدین اور دیگر دغا بازوں کی سازش کے ذریعہ گرفتار کرکے مرادآباد جیل سے متصل بر سرعام تختہ دار پر لٹکادیا۔ پھانسی کے وقت مولانا مندرجہ ذیل اشعار ترنم سے بڑے ہی والہانہ انداز میں پڑھ رہے تھے۔
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اﷲ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم سفیرو باغ میں ہے کوئی دم کے چہچہے
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خالی کفن رہ جائے گا
سب فنا ہوجائیں گے کافی ولیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پہ سخن رہ جائے گا

مولانا رضا علی خان عابدی: مجدد دین و ملت امام احمد رضا خاں کے دادا بزرگوار نے فرنگی تسلط کے خلاف مجاہدین آزادی کے ساتھ تحریک آزادی میں بھر پور حصہ لیا۔ بریلی میں آپ کا مکان اور مسجد انقلابیوں کا مرکز تھا۔ مولانا عنایت احمد کا کوروی، نواب خان بہادر کی قیادت میں جگہ جگہ ان کے ساتھ رہے۔ جنرل ہڈسن نے آپ کا سر قلم کرنے کا انعام پانچ سو روپئے رکھا تھا۔ مشہور مورخ ملی سن لکھتا ہے:بریلی کے اندر لوگوں میں برطانوی حکام کے خلاف جو یورش پھیلی اس کے تمام تر ذمہ دار بخت خاں اور اس کا ساتھی ملا شاہ علی رضا علی ولد حافظ کا ظم علی تھے جو بریلی کے عوام کو برطانوی حکام کے خلاف مقابلہ کرنے پر بے حد بر افروختہ کیا ۔ اگر ملا رضا بریلوی اپنے عقیدت مندوں سمیت ہمارا مقابلہ نہ کرتا تو بریلی شہر پر ہمارا قبضہ بالکل آسان تھا۔
مولانا عبد الجلیل علی گڑھی : تحریک آزادی ۱۸۵۷ء میں مجاہدین نے انگریزوں کو علی گڑھ سے بے دخل کر دیا تو قیادت کا بار مولانا عبد الجلیل علی گڑھی کے حوالے کیا گیا۔ دوبارہ انگریزوں نے علی گڑھ پر چڑھائی کی تو دشمن سے مقابلہ میں بہت سے مجاہدین شہید ہوگئے ۔ مولانا عبد الجلیل بھی ان شہدا میں شامل تھے۔ جامع مسجد علی گڑھ میں دفن ہوئے۔ مولانا امام بخش صہبائی دہلوی، مولانا رحمت اﷲ کیرانوی مہاجر مکی، مولانا ڈاکٹر وزیر خان بہاری، مولانا مظفر حسین کاندھلوی، مولانا رضی الدین بدایونی بھی جامع مسجد علی گڑھ میں مدفون ہوئے۔
مجاہد اعظم مولانا سید احمد اﷲ شاہ مدراسی: ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کرکے تحریک کے قائد اعظم کی حیثیت سے بخت خان کے دست راست بن کر دہلی پہنچے۔ بخت خان کے مشورے سے علامہ فضل حق نے بعد نماز جمعہ جامع مسجد دہلی میں جہاد کی اہمیت پر شعلہ بار تقریر کی اور اس کے لئے فتویٰ جہاد مرتب کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،ڈاکٹر وزیر خاں، سید مبارک شاہ، احمداﷲ شاہ مدراسی نے اس پر اپنے دستخط کئے اور مختلف مقامات پر لڑائی میں شرکت کی۔ آگرہ میں انگریزی استبداد سے ٹکرائے پھر کانپور میں برطانوی اقتدار کے پرخچے اڑائے،پھر لکھنؤ میں محاذ فتح کئے اور جنرل کولن کیمبل کو دوبارہ شکست دی۔ پھر فیض آباد میں فرنگی سامراج کا ستیا ناس کیا ۔ الغرض برطانوی اقتدار کے پرخچے اڑانے والوں میں آپ کا نام سر فہرست ہے۔ تن من دھن سب کچھ ملک و ملت پر نثار کرکے بالآخر شاہجہاں پور کے میدان کارزار میں داد شجاعت دیتے ہوئے ۱۳؍ذیقعدہ ۱۲۷۵ھ کو جام شہادت نوش فرما گئے۔

مفتی صدرالدین خان آزردہ: انگریزوں کا اقتدار بڑھتا دیکھا تو تحریکِ آزادی کا علم اٹھا کر فتویٰ جہاد نشر کیا۔ مجاہدین و اکابرین تحریکِ آزادی کی قیادت کی۔ عظیم الشان کتب خانہ جو زندگی بھر کی تلاش کا حاصل تھا فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے کے جرم میں جائیداد کے ساتھ ضبط ہوگیا۔ گرفتار ہوئے۔جائیدادتو مل گئی لیکن ظالم انگریزوں نے کتب خانہ واپس نہ کیا۔ شعر گوئی میں کمال رکھتے تھے۔ بروز جمعرات ۲۴؍ربیع الاول ۱۲۸۵ھ بستی نظام الدین اولیا دہلی میں داعی اجل کو لبیک کہا۔

مفتی عنایت احمدکاکوروی: علی گڑھ میں ہی سرکار انگریزی میں مفتی و منصف کے منصب پر مقرر کئے گئے۔ ایک سال کے بعد بریلی تبادلہ ہوا جہاں اکابر علما و رہنما اصحاب کی سرکردگی میں تحریک انقلاب کی سلسلہ جنبانی جاری تھی۔مفتی عنایت احمد بھی شب و روز بریلی کے انقلابی گروہ کی مشاورتی مجالس میں شرکت کرنے لگے اور نواب خان بہادر خان کی قیادت میں جہاد حریت تنظیم کے لئے سرگرم عمل ہوئے۔ روہیل کھنڈ اوربریلی مجاہدین آزادی کا عظیم مرکز تھا اور اس علاقہ میں اینٹی برٹش تحریک کے قائد امام احمد رضا کے دادا مولانا رضا علی خاں صاحب تھے۔ مجاہدین کے لئے کھانا اور سواری کے جانور کے انتظام میں وہ پیش پیش تھے۔ مجاہدین کے لشکر میں شامل ہوکر محاربات میں علما حصہ لینے لگے۔ جگہ جگہ خان بہادر خان کے دست راست بنے ۔ کمال جرأت و ہمت سے لڑتے رہے۔ جنرل بخت خان بریلی پہنچے اور دارالتخت دہلی کے مرکزی محاذ پر شرکت کے لئے رام پور یوسف علی خان نے جنگ آزادی میں مجاہدین کی اعانت سے انکار کیا تو جنرل بخت خاں نے فوج کشی کردی۔ اس جنگ میں بھی مفتی عنایت احمدنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولوی سرفراز علی صاحب کے مشورے سے مرادآباد ہوتے ہوئے دہلی گئے ۔ وہاں ابھی تک ہنگامہِ کارزار گرم تھا۔ مفتی صاحب میدان شجاعت میں تیغ آزمائی بھی کرتے رہے اور مجلس مشاورت میں خاص طور سے شرکت فرمارہے۔ مفتی صاحب نے دوسرے رہنما ئے حریت کی معیت میں محاربہِ بریلی میں اول اول فتح حاصل کی لیکن وطن دشمن غداروں کی ناپاک حرکات کی وجہ سے بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شہیدانِ حریت کے ارواح پر رحمت کے پھول نچھاور ہونے کی دعائے خیر کرتے ہوئے میدان سے رخصت ہوگئے۔ مفتی عنایت احمد صاحب انگریزی تسلط کے بعد گرفتار کر لئے گئے۔ کالا پانی کی سزا تجویز ہوئی۔ ۱۸۵۸ء میں کالا پانی بھیج دئے گئے۔وہاں پہلے سے حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی ، مولانا مفتی مظہر کریم دریاآبادی موجود تھے۔ زنداں کی تکلیف اور غریبی الوطنی کے باوجود حفظ قرآن پاک بھی کیااور سیرت نبوی میں ’’حبیب اﷲ‘‘ وغیرہ کتابوں کی مدد و مراجعت کی تالیف کی۔ ۱۲۷۷ھ/۱۸۶۰ء ایک انگریز افسر جس کی فرمائش پر دو دن زنداں تقویم بلدان ترجمہ کیا اور حافظ وزیر علی داروغہ جیل کی کوشش سے رہا کئے گئے۔ کاکوری میں تھوڑا عرصہ قیام کے بعد کانپور چلے آئے۔ اسی سال ’’مدرسہ فیض عام‘‘ قائم کیا۔ مولانا لطف اﷲ علی گڑھی مشہور زمانہ عالم و بزرگ مدرسہ کے پہلے فارغ طالب علم تھے۔ ۱۲۷۹ھ میں بذریعہ پانی جہاز حج و زیارت کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ ۱۱؍شوال المکرم ۱۲۷۹ھ /۱۷؍ اپریل ۱۸۶۳ء کو جہاز پہاڑ سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔ مفتی صاحب حالتِ نماز احرام باندھے ہوئے غریقِ رحمت ہوئے۔ آپ کی کل تصانیف کی تعداد بیس ہے۔ (جنگ آزادی کے مشاہیر علمائے اہلِ سنت، مفتی مجاہد حسین حبیبی۔آل انڈیا سیرت کولکاتا مغربی بنگال)

یہ ملک تمہارا نہیں یہ ملک ہمارا بھی ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لئے ہم نے بھی جان گنوائی ہے۔

تاریخ (History)کی اہمیت:
علامہ اقبال نے کہا ہے: جس طرح ایک شخص کی زندگی میں حافظہ (Memory) کی زبردست اہمیت ہے ، حافظہ (یادداشت) اگر کم ہوجائے یا بالکل ختم ہوجائے تو اس کی زندگی اس کے لئے بے معنی ہوجائے گی۔ اس طرح ایک قوم یا ملت کی زندگی میں تاریخ کی زبردست اہمیت ہے۔ کیونکہ اگر اس کی تاریخ گم ہوجائے گی یا گمنامی میں چلی جائے گی ،دفن ہوجائے گی تو اس قوم کی زندگی بھی بے معنی اور بے کار ہوکر رہ جائے گی۔

انگریزوں کی چال ، مدارس کا زوال ،علما کا کمال
جنگِ آزادی کے وقت علم دین کے مراکز مدارسِ اسلامیہ اجڑنے لگے تھے۔ پھرباقاعدہ حکومت کے زیر نگرانی ان قلعوں پر یلغار کر دی گئی۔ عیسائی مشنریوں کا ایک سیلاب امڈ پڑا تھا جو ہندوستان کے بھولے بھالے اور ناواقف مسلمانوں کو اپنے دامِ فریب میں جکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر یہ مدارس اور ان کے فارغین یعنی علمانہ ہوتے ، چھوٹے چھوٹے مکاتب ،بڑے بڑے مدارسِ اسلامیہ اور عظیم الشان دینی ادارے نہ ہوتے تو شاید یہ لوگ اپنے فریب میں کامیاب ہوجاتے۔ اہلِ نظر، اہلِ علم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کی عمل داری سے پہلے دہلی، آگرہ ، لاہور،ملتان، گجرات ،جون پور، بریلی، لکھنؤ، خیرآباد ، پٹنہ اسی طرح مدراس اور بنگال وغیرہ کے بہت سے مقامات میں مدارس علم و فن کا مرکز تھے جنہیں مسلمانوں نے چھ سو سال سے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا اور ان کے سلاطین و امرا نے ان کے پھیلانے میں اخراجات اور ضروریات کے لئے بڑی بڑی جائیدادیں اور اوقاف مقرر کئے تھے۔(سید محبوب رضوی:تاریخ دیوبند/۳۰۵، شائع کردہ :علمی مرکز دیوبند)
ہندوستان پر عملاً تسلط قائم کرلینے کے بعد انگریزوں نے پورے منصوبے بند طریقے پر قدیمی مدارس کے نظام کو تہ و بالا کر دیا اور بالواسطہ ایسی صورتیں اختیار کیں جن سے خاص طور پر مسلمانوں کے خالص دینی علوم روز بروز تنزل اور اضمحلال کا شکار ہوتے گئے۔(جیسے آج حکومت ہند منصوبہ بند طریقے اختیار کر رہی ہے) ملکی زبانوں کی جگہ انگریزی ملک کی سرکاری زبان بن گئی اور حکومت کی سرپرستی میں قدیم مدارس کی جگہ نئے اسکولوں کو بالا دستی حاصل ہوگئی۔( سید محبوب رضوی: طبع دوم۱۹۷۲، تاریخ دیوبند /۳۱۶، شائع کردہ :علمی مرکز ،دیوبند)

مدارسِ اسلامیہ اسلام کے محافظ
دشمنانِ اسلام اس راز سے واقف ہیں کہ جب تک یہ سیدھا سادہ بوریہ پر بیٹھنے والا مولوی اس معاشرے میں موجود ہے، مسلمانوں کے دلوں سے ایمان نکالا اور کھرچا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا دشمنانِ اسلام نے اس کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلادیا ہے اور پوری مشینری لگائے ہوئے ہیں۔ مدارسِ اسلامیہ دین کے مضبوط قلعے ہیں ۔ ہندوستان میں جو دینی تعلیم، دینی ماحول اور دینی فضا نظر آرہی ہے یہ ان ہی مدارس کی دین ہے۔ ان کی قدر کرنی چاہئے اور ان پر کسی طرح سے کوئی آنچ آئے تو مسلمانوں کو تڑپ جانا چاہئے۔ یہی مسلمانوں کی غیرت دینی کا تقاضہ بھی ہے۔

ملک کی موجودہ صورتحال ،مدارسِ اسلامیہ اور علما کی ذمہ داریاں
علم اﷲ کی بڑی نعمت ہے۔ کلامِ الٰہی و احادیث پاک میں علم کی بے شمار فضیلتیں وارد ہیں ارشاد رب العزت ہے:(ترجمہ) اﷲ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے ۔ اﷲ حکمت و دانائی دیتاہے جسے چاہے اور جسے حکمت یعنی دین ملا اسے بہت بھلائی ملی اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔(القرآن ، سورہ بقرہ،آیت۲۶۸، ۲۶۹) حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے:العلماء ورثۃ الانبیاء․․․․الخ۔ترجمہ: علما نبیوں کے وارث ہیں۔ آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں ۔ اور جب علما انتقال کر جاتے ہیں تو مچھلیاں ان کے لئے دعا ئے مغفرت کرتی ہیں۔(کنز العمال ، ج۔۱۰،ص۷۷) ظاہر سی بات ہے علما جب وارثِ انبیا ہیں اور ان کو علم و حکمت سے نوازا گیا تو ان کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ دعوتِ اسلام دینے والے علمائے کرام اور داعیانِ حق کے سبھی ذمہ داروں کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ لوگوں خصوصاً طلبہ کے مسائل و مشکلات پر توجہ دیں۔ حتی المقدور ان کی مدد کریں ، مظلوموں کی حمایت مصیبت زدگان کی اعانت اور مریضوں کا علاج سب کچھ کرنا ہوگا۔ اسی طرح کے کام کرنے سے مدارسِ اسلامیہ اور دعوتِ دین کے کام کو فائدہ پہنچے گا ۔ یہ وہ کام ہیں جسے نبیوں ، رسولوں نے بھی کیا ہے ۔ مثال کے طور پر اﷲ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انجام دیا۔

’’ میں اﷲ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہوں اور اﷲ کے اذن سے مردے کو زندہ کرتا ہوں۔ میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ بے شک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو۔(القرآن، سورہ آل عمران۳، آیت ۴۹) حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں زبردست قحط پڑا ۔ اس کا انتظام آپ نے کیا اور بندگان خدا کو ہر طرح کی مدد کی ۔ ان واقعات سے بتانا مقصود یہ ہے کہ ہر اہلِ ایمان کو اور خاص کر علم و حکمت سے نوازے جانے والے علما ئے حق کو ملک کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہیں تو کم از کم تساہلی اور کاہلی قطعی نہ برتیں ورنہ بارگاہ رب ذوالجلال میں جواب دہی کے لئے بھی تیار رہیں۔ اسلام دشمنوں کی دشمنی اور حکومت کی بے توجہی کا شکوہ کرکے مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی کا علاج نہیں کر سکتے۔ الحمد ﷲ ، آج بھی اکثر عوام علماکے زیر اثر ہیں۔ عوامی بیداری اور عوام کی صحیح رہنمائی کے ساتھ ساتھ خود بھی میدان عمل میں کودنا نہیں دوڑنا پڑے گا۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :جو علم سے زندہ ہوگاوہ کبھی نہیں مرے گا( حاشیہ ہدایہ، ج اول، ص۲)ـ ؂
رہتا ہے نام علم سے زندہ ہمیشہ داغ
اولاد سے تو بس یہی دو پشت چار پشت

اساتذہ کرام کو طلبہ کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ قوم کے ہم سے کیا مطالبات ہیں ؟ عوام ہمیں کس رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں؟ مسلم قوم کوہم سے کیا توقعات وابستہ ہیں؟ مدارس سے فارغ ہوکر ہمیں قوم کا رہنما ،راہبر بننا ہے۔ ہمیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ حالات زمانہ کا رخ پھیرنے کے لئے کیاکیا تیاریاں کرنی ہیں۔
اسے مل گئی جاوداں زندگی
جو سعیِ مسلسل کا پابند ہے

طلبہ کو مدارس کی تاریخ بتائیں۔ انہیں سمجھائیں کہ شاندار ماضی کی طرح تابناک مستقبل کی تعمیر کے لئے کیا ضروری ہے اور کس سے بچنا ہے۔طلبہ میں یہ جذبہ ابھارنا کہ وہ اپنے علم پر خود بھی عمل کریں اور اسے دوسروں تک پہنچائیں ۔ بچوں اور طلبہ کی صحیح تعلیم و تربیت ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اس کی ادائیگی کی پوری فکر ہونی چاہئے ورنہ سخت گرفت کا اندیشہ ہے ۔ رب العزت کافرمان ہے۔یا ایہا الذین آمنو قوا نفسکم․․․․․․الخ ۔ترجمہ:اے ایمان والو، اپنی جانو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ ان پر سخت کڑے فرشتے مقرر ہیں جو اﷲ کے حکم کو نہیں مانتے اور جو انہیں حکم ہوا ہے وہی کرتے ہیں۔(قرآن ،سورہ تحریم ،آیت۵)

اس ذمہ داری میں والدین ، اساتذہ کے ساتھ پوری ملت، معاشرہ بھی شریک لیکن براہ راست ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے ان ہی لوگوں کو اس ضمن میں سب سے زیادہ فکر مند ہونا چاہئے۔خصوصاً آج کے حالات میں تو اس طرف زبردست توجہ دینے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ معمولی کوتاہی غفلت نہایت خطرناک نتائج سے دوچار کر سکتی ہے ۔ ملت کی ضرورت کے اعتبار سے جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت کم ہے ۔ تمام اہلِ علم ذمہ دار لوگ اور انجمنیں ،ادارے ہر کوئی اپنی کوشش جاری رکھیں تاکہ اسلامی مراکزسے مرد مومن کی صفات کے حامل افراد تیار ہوکر نکل سکیں۔
کوئی اندازہ کر سکتاہے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف تعلیم میں ہے ۔آرٹیکل 301میں کہا گیا ہے کہ ہر اقلیت چاہے وہ مذہبی یا لسانی ہو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرے او رچلائے ۔ تعلیم ہی بے یارومددگار مسلم قوم کے لئے نسخہ کیمیا ہے اور اس کی بھی ذمہ داریاں قائدین اور علمائے کرام پر ہے۔ اﷲ ہم تمام لوگوں کواپنی ذمہ داری لینے اور نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!ثم آمین
Mohammad Hashim Quadri Misbahi
About the Author: Mohammad Hashim Quadri Misbahi Read More Articles by Mohammad Hashim Quadri Misbahi: 167 Articles with 196167 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.