کریکٹر بلڈنگ سوسائٹیز اور نیب
(Asghar Ali Javed, Shaikupura)
گزشتہ روز ایک ادبی تقریب میں پنجابی کے
معروف شاعر اور نقاد اور گورنمنٹ کالج شیخوپورہ کے سابق ہیڈ آف اُردو
ڈیپارٹمنٹ پروفیسر اکرم سعید سے ملاقات ہوئی تو راقم الحروف نے اُنھیں نیب
کی کریکٹر بلڈنگ سوسائٹی کی رُکنیت قبول کرنے پر مبارک باد کہی۔ پروفیسر
موصوف نے جوابََا دُکھ بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ڈھلتی عمر میں ، میرے
سینے میں پہلے سے موجود اَن گنت دُکھوں میں ایک اور کا اضافہ کیا گیا ہے،
ہم نے اِس دکھ کو بھی شرفِ قبولیت بخشا ہے۔ ساتھ ہی فرمانے لگے کہ آپ اخبار
نویسوں کے لیے میرے پاس ایک مختصر نظم ہے۔ اِرشاد ہوا :
اُٹھو جاگو
اکھّا ں کھولو
ویلا نئیں جے نیندر دا
ویہندے پئے او ، سنھ لگی جے
پاڑ جے پاٹا
ویکھو تے سہی
اپنا نئیں کوئی
ہور جے ویہڑے
اُٹھو جاگو ، بُو بُو گھتو
چور جے ویہڑے
(جاگو اور آنکھیں کھولو۔ یہ نیند کا وقت نہیں ہے۔ دیکھتے نہیں ہو ! دیوار
توڑ کر چور آ گُھسے ہیں۔ غور تو کرویہ گھر میں گھسنے والے کوئی اپنے نہیں
بلکہ اجننبی ہیں۔ اُٹھو ، جاگو اور شور مچاؤ۔ صحن میں چور داخل ہو چکے
ہیں۔)
ضبطِ فُغاں گرچہ ایک مشکل کام تھا،راقم نے عرض کی کہ پروفیسر صاحب ! سورج
ہمیشہ تاریکی کے شکار میں رہتا ہے، مایوس مت ہوئیے۔
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
جواب ملا : شمع ہی تو چھین لی گئی ۔ پروفیسر موصوف کے سینے کے کرب نے راقم
کی توجہ ایک بار پھر کرپشن کے خلاف نبرد آزماوطنِ عزیز کے سب سے زیادہ با
اختیار اِدارے نیب کی طرف مبذول کرادی۔
نیب نے ملک بھر میں مختلف سطح پر تقریباََ بارہ ہزار کریکٹر بلڈنگ سوسائٹیز
تشکیل دے رکھی ہیں۔ ہر ضلع میں ایک ضلعی سوسائٹی موجود ہے جس کا سرپرست اُس
ضلع کا ڈی سی او ہے۔ہر ضلعی سوسائٹی کا ایک صدر ، سیکرٹری اور کوآرڈینیٹر
بنایا گیا ہے۔ یہ تمام افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ، حاضر یا ریٹائرڈ سرکاری
افسران یا قلم کتاب کے کنبے سے ہیں۔ حیرت ہے کہ اِس کے باوجود اِن CBS's کی
کارکردگی ابھی تک زیرو سے آگے نہیں بڑھ سکی اور زیادہ حیرت کا سبب یہ حقیقت
ہے کہ اِن کے ارکان اپنے صدور سے اور صدور ضلعی انتظامیہ سے یہ پوچھتے پھر
رہے ہیں کہ اِن کی ذمہ داریاں اور اِختیاراتِ کار کیا ہیں؟
ان کا یہ پوچھنا عجیب نہیں لگتا کہ اگر سکولوں اور کالجوں کی طرح ضلعی سی
بی ایس نے بھی مضمون نویسی ، مشاعرے اور ڈرامے کروانے ہیں تو کیا اِن کے
لیے سکول ٹیچر کافی نہیں تھے؟ اِس میں ڈی سی او اور دانشوروں ، مصنفین اور
ریٹائرڈ سرکاری افسران کا کردار نظر نہیں آتا، سوائے اِس کے کہ اِ ن کی مٹی
پلید کی جائے اور پھر کیا مختلف محکمہ جات کے ضلعی سربراہان کو اِس بات کا
پابند کیا گیا ہے کہ وہ CB'S کے ضلعی صدر سے تعاون کریں اور اگر ایسا کیا
گیا ہے تو ضلعی صدر نے ایسی تمام تقریبات کے لیے فنڈ کہاں سے حاصل کرنے
ہیں؟ اِس موقع پر راقم کو اُن پبلک سیفٹی کمشنزکا حشر یاد آ رہا ہے جو
پولیس کے خلاف شکایات نمٹانے کے لیے کچھ دیر قبل تشکیل دیے گئے تھے۔ پبلک
سیفٹی کمشن میں ہر ضلع میں3 ارکان عوام الناس میں سے لیے گئے تھے جن میں
ایکس سروس مین ، وکلاء اور سول سوسائٹی کے لوگ شامل تھے اور ان کی تعیناتی
کا اختیار گورنر کے پاس تھا۔اِس کے باوجود ہر رُکن کے خلاف ایف آئی درج
تھیں۔ وہ جس ایس ایچ اور کو بلاتے تھے وہ اُن کے خلاف ایف آئی آر درج کر
لیتا تھااور پھر کنویں میں گرنے والا عہدِ حاضر کا یوسف بمشکل اپنا حُسن
بچا پاتا ۔ ایسے لگتا ہے کہ نیب کے اربابِ اختیار ، بے وقار طاقت کے زعم
میں خود کو ہر فن مولا سمجھنے لگے ہیں اور وہ اپنے چیف قمر الزمان چودھری
کے بے پناہ خلوص اور نیک نیتی کو سمجھنے سے عاری ہیں۔جن خاک نشینوں کے سروں
پر وہ بظاہر تاج سجارہے ہیں جلد ہی اُنہیں وہ خاک آلود نظر آئیں گے۔ نیب کو
اِس خیال کو ترک کرنا ہوگا کہ حیات و مرگ کے سارے رموز اُنھیں، بل کہ صرف
اُنھیں ہی آتے ہیں۔ اُنھیں اِس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ ہجوم
ہمیشہ مسائل بڑھاتے ہیں۔ حضرت واصف ؒ نے فرمایا ہے کہ قائدین کے بہتات ہو
جائے تو سمجھ لو کہ قیادت ختم ہو گئی ۔لہٰذا CBS's کی تعداد بڑھانے کی
بجائے ان کو فعال اور با اختیار بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے اور کم از کم
ضلعی سوسائٹی کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ضلعی افسران کو دھڑلے سے کہہ
سکیں کہ وہ حرام خوری سے باز رہیں اور عوام کے خادم ہونے کا ثبوت دیں۔صرف
نعتیں پڑھنے ، گیت گانے اور ڈرامے کرنے سے Say No To Coruuption کا نعرہ
زیادہ رنگ نہیں لائے گا۔ یوں لگتا ہے کہ نیب اپنے تئیں مطمئن ہے کہ وہ بہت
بڑی خدمات سر انجام دے کر عوامی اعتماد و پسندیدگی کی معراج پر ہے۔ وہ
کریڈٹ لیتے ہیں کہ کرپشن میں جو کمی ہوئی ہے، جو کہ نہیں ہوئی ہے ، وہ اِن
کی شبانہ روز کی محنت کی مرہونِ منت ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے پہلے
(1995 کے)Corruption Perception Index (سی پی آئی) سروے میں شامل ممالک میں
وطنِ عزیز 41 میں سے 39 ویں نمبر پر تھا۔ 1999ء میں پاکستان سروے میں شامل
99 ممالک میں سے 87ویں نمبر پر تھا۔عہدِ مشرف کے خاتمے پر نتیجہ 134/180
تھااور 2014-15ء کے آخر میں کرپشن کی دوڑ میں شامل 175 ممالک میں ہم 126ویں
نمبر پر تھے۔اِس کاغذی بہتری کے ذمہ دار نیب اور نیب والے ہیں؟
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
نیب اِس حقیقت کو فراموش کر چکا ہے یا وہ جان بوجھ کر ادھر دیکھنا پسند
نہیں کرتا کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی
(پلڈاٹ) کے جون 2015 ء کے سروے کے مطابق صرف 30 فیصد پاکستانی نیب پر
اعتماد کرتے ہیں، اگرچہ پولیس اور ٹیکسیشن کو اس سے بھی کم لائقِ اعتماد
سمجھا جاتا ہے۔پلڈاٹ کی اگلی بات سے عدم اعتمادی کے زیادہ بو آ رہی ہے وہ
کہتا ہے: "The NAB became politicized. Inquiries were stifled and put on
ice for political and other reasons" ( نیب میں سیاست در آئی ۔انکوائریوں
کے گلے گھونٹ دیے گئے اور انھیں سیاسی اور دیگر وجوہات کی بناء پر سرد خانے
میں پھینک دیا گیا۔)
تیسری بات اہم ترین ہے اور وہ یہ کہ پلڈاٹ نے جب اہلِ وطن سے وطن کے اہم
ترین مسئلے کی بابت جاننا چاہا تو صرف تین فیصد نے کرپشن کو Biggest Issue
قرار دیا۔ ستم رسیدہ اور معصوم درویشوں کو خبر ہی نہیں ہے کہ اُن کے ساتھ
کیا ہونے جارہا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ سٹیل ملز کو کوئی فاروقی نہیں کھائے
گاتو زرداری کھا لے گا۔لینڈ مافیا کی سرپرستی کوئی مشرف نہیں کرے گا تو
کوئی کیانی کرلے گا، خانماں خراب 90 فیصد پاکستانیوں کے حصے میں افلاس اور
ٹیکسیشن کی بھرمار کے علاوہ کچھ نہیں آنے والا۔ لہٰذا پلڈاٹ کو جواب ملا کہ
سب سے بڑا مسئلہ ہے :
توانائی کا بحران ---- 25 فیصد
بے روز گاری ---- 19 فیصد
سکیورٹی ---- 14 فیصد
غربت ---- 12 فیصد
کرپشن کو صرف تین فیصد نے اہم ترین مسئلہ کہا۔ گویا یہ کہا گیا کہ نہ بھی
ہوگی ، تو ہمیں کیا ملے گا۔پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ گواہوں اور شہادتوں
کا غائب کر دینا بھی ہے ۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے گھر کے ساتھ ایک
تھانیدار نے نجی ٹارچر سیل بنا رکھا ہے یا جسم فروشی کا دھندہ جاری ہے یا
جوس کے نام پر ڈبوں میں زہر بھر کر معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلا جار ہا
ہے، لیکن ہم خاموش رہتے ہیں کہ خاموش رہنے کے سوا کچھ کر ہی نہیں
سکتے۔پولیس ، واپڈا، صحت ، ٹیکس اور محکمہ مال میں جو ہو رہا ہے وہ سب کچھ
سب کے علم میں ہے ۔ اِن لوگوں کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کو تحفظ فراہم
کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان اُن 175 ممالک میں شامل ہے جو اقوامِ
متحدہ کے کرپشن کے خلاف کنوینشن پر دستخط کر چکے ہیں یہ UNCAC آٹھ ابواب کے
71- آرٹیکلز پر مشتمل ہے۔ اس کا آرٹیکل 33 پروٹیکشن آف رپورٹنگ پرسنز سے
متعلقہ ہے۔اِس کنونشن کے تقاضوں کے مطابق پاکستان میں نہایت سست روی سے
قانون سازی کا عمل جاری ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان اِس سلسلے
کے بل whistle blower Protection Act پر دستخط فرما چکے ہیں اور اب یہ
پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے ستم کشِ انتظار ہے۔ اگر اِس بل کو دبا نہ دیا
گیا تو یہ ایک اچھا اقدام ہو گااور نیب کے لیے مدد گار ثابت ہو گا۔
راقم نیب کی کرپشن کے خلاف جہدِ مسلسل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور
تجویز کرتا ہے کہ :
i ۔ ـ’’ اہلِ نیب ــ‘‘ قمر الزماں چودھری کی قیادت سے جلد ازجلد ، زیادہ سے
زیادہ مستفید ہو جائیں۔
ii ۔ عوام میں آگہی پیدا کریں کہ جب لوٹ کا مال سرکاری خزانے میں آ جائے گا
تو وہ مسائل از خود حل
ہو جائیں گے جنھیں وہ Biggest Issue گردانتے ہیں۔
iii ۔ کم از کم ضلعی سی بی ایس کو یہ اختیار دے دیں کہ وہ ضلعی افسران سے
کوئی ریکارڈ طلب کر سکیں جس
کے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت وہ پہلے ہی پابند ہیں ورنہ سی بی ایس یہ
کہہ دے کہ ’’ نیب آ
رہا ہے ‘‘۔
iv ۔ سی بی ایس کو واضح راہِ کار بتایا جائے اور اس کے فنڈز کا بندوبست کیا
جائے ۔
v ۔ اقوامِ متحدہ کے ’’کرپشن کے خلاف کنونشن ‘‘ کے تحت مجوزہ Whistle
Blower Protectiobn Act کو جلد از جلد پارلیمنٹ میں پیش کر کے اس کی تشہیر
کی جائے اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کو بھی مؤثر بنایا جائے۔
ــّ |
|