جس معاشرے میں بے حسی کا یہ عالم ہو کہ ظلم
عام ہوجائے ، دیکھنے والوں کو ظلم ، ظلم نظر نہ آئے ، ظالم ، ظالم نظر نہ
آئے اور مظلوم ، مظلوم نظر نہ آئے تو وہاں آنے والی آفات کو سائنس اور
ٹیکنالوجی سے کسی نا کسی طرح منسلک کر کے اپنی کمی کوتاہیوں کو پس پشت ڈال
کر دل کو بہلا دیا جاتا ہے۔
پوچھا گیا کہ زلزلوں کا آنا اب زیادہ ہوگیا ہے ، جواب دیا گیا کہ جہاں ظلم
زیادہ اور انصاف کا فقدان ہوگا وہاں ایسا ہی ہوتا ہے ۔جواب پر سوال بنا کر
پھر پوچھا گیا کہ ظلم تو پہلے بھی ہوتے تھے ، جواب دیا گیا کہ تب ظلم کے
خلاف بولنے والے مصلحت کا دامن تھام کر خاموش نہیں تھے ظالم کے خلاف اور
مظلوم کے حق میں بولنے والے تمام مصلحتوں کو پس پشت ڈال کر بولتے تھے جب کہ
ظلم کے حق میں دلائل اور تمہیدیں دینے والے سرعام ظالم کا ساتھ نہیں دیا
کرتے تھے ۔اس پر بولا گیا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مطابق تو وقت کے ساتھ
ساتھ یہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں تو جواب دیا گیا کہ سائنس کا کہنا بھی ٹھیک
ہے مگر ان موسمیاتی اور تغیراتی اونچ نیچ کو لاتا کون ہے ؟ اس سوال پر اور
سوال کیا کیِا جاتا اور کیا جواب دیا جاتا ، جب نظر اٹھا کر اردگرد دیکھا
اور دیکھایا گیا تو ہر ذرہ بولا : ان اﷲ علی کل شی قدیر(بے شک اﷲ ہر چیز پر
قادر ہے)۔
بھوک وننگ تھر کے بچوں کو نگلتی جارہی ہے تادم تحریر 78سے زائد بچے بھوک
اور بیماریوں سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں ۔ ان کی خبریں اخبارات ، رسائل
اور ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہی ہیں جو زندوں کو سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں
۔مجھے یاد ہے پچھلے سال تھر میں پانی کی قلت پرمعصوم بچوں کی ہلاکت پر ایک
مضمون لکھا تھا تب میں نے یہی امید باندھی تھی کہ مستقبل اچھا ہوگا کیوں کہ
ان بچوں کی قربانیاں رنگ لائے گی اور اقتدار پر برجمان اور اقتدار سونپنے
والے کچھ نا کچھ اقدامات ضرور کریں گے تاکہ مستقبل میں معصوم بچے بے گناہ
ہلاکتوں کاشکار نہ ہوں مگر تب بھی ایک خدشہ تھا کہ ہونا کچھ نہیں ہے اور اب
بھی یہی خدشہ ہے کہ 78سے زائد ہلاک ہونے والے بچوں کی قربانیاں رائیگاں ہی
جائیں گی کیوں کہ اقتدار پر برجمان اور ان کو اقتدار سونپنے والوں کی
ترجیحات سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
اقتدار کے منصب پر فائز وزیر اعلیٰ سندھ نے ان معصوم بچوں کی بے گناہ ہلاکت
پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تھر میں حالات اتنے بھی پریشان کن نہیں ہیں جتنا
میڈیا بتا رہا ہے ۔ان صاحب کی بات پر کیا کہا جائے ؟ان کے منصب کو جب دیکھا
جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک اعلیٰ منصب پر فائز فرد اپنی رعایا کی اس حالت
پر ایسا بیان دے گا۔چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ سند ھ ٹھیک کہہ رہے
ہیں کہ تھر کی حالت اتنی پریشان کن نہیں ہے اور میڈیا ریٹنگ بڑھانے کے لیے
ہلاکتوں کی خبر بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے، ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ
ہلاکتوں کی تعداد 78سے آدھی ہے مگر کیا پھر بھی یہ پریشان کن بات نہیں ہے ؟چلیں
میڈیا ہلاکتوں کی تعدادجتنی بتا رہا ہے اس کا چوتھائی حصہ ہلاکتوں پر مشتمل
ہے تو کیا پھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پریشان کن بات نہیں ہے؟ شاید کہ
ان صاحب کے لیے یہ بات پریشان کن نہیں ہے کیوں کہ یہ کسی غریب کسی مفلس کسی
لاچار کے بچے تھے کسی صاحب کے صاحب زادے نہیں تھے ۔ پریشان کن بات تو تب
ہوتی کہ مرنے والے بچوں میں ایک بچہ بھی کسی صاحب کا صاحب زادہ ہوتا ۔
ایک اخبار میں چھپنے والے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پچھلے دور حکومت کے
گیلانی دور میں 10سیاسی شخصیات (صاحب لوگ)کے بیرون ملک علاج و معالجے کے
لیے 3کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ افسوس ہوتا ہے اس قوم کی فہم و فراست پر کہ
جو اپنے لیے ایسے عوامی نمائندے چنتی ہے جو انھی کو ایک دیمک کی طرح کھارہے
ہیں جن کی ترجیحات بے حسی کے اس دوراہے پر پہنچ چکی ہیں جہاں ظلم اور بے
حسی ایک دوسرے میں ضم ہو چکے ہوتے ہیں ۔اوپر سے بے حسی کا عالم یہ کہ آنے
والی آفات کو سائنس اورٹیکنالوجی سے تشبیہ دے کر دل کو بہلانا اسی قوم کا
شیوہ بن چکا ہے ۔
بے حسی کا یہ عالم صرف اقتدارمیں بیٹھے افراد تک محدود نہیں ہے اقتدار
سونپنے والی عوام کی ترجیحات کیا عوامی ہیں ؟ میں پچھلے سال سے اس انتظار
میں ہوں کہ تھر کے حالات پر صاحب اقتدار نہیں تو اقتدار سونپنے والے ہی کچھ
پریشانی ظاہر کریں مگر ترجیحات ہی الگ ہیں ، کیا موم بتیوں والی قوم ان
ہلاکتوں پر موم بتیاں لے کر چوک میں کیمروں کی فلیش لائیٹس کی چمک میں چمکی؟،
کیاکوئی سیاسی، کیا کوئی مذہبی، کیا کوئی فلاحی پارٹی نے ان تھر کے معصوم
بچوں کی ہلاکتوں پر کوئی سڑک ، کوئی چوک یا حتیٰ کہ کوئی گلی بند کی؟کیا
بڑے بڑے لکھاری جو بلاناغہ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنتے ہیں اور
اپنے الفاظ سے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرتے ہیں کیا تھر کے واقعہ پر
انھوں نے لب کشائی یا قلم کشائی کی؟مسلک کی جنگ و جدل میں کافر کافر کی
صدائیں لگانے والوں نے کسی مجمع میں بچوں کی ہلاکت پر قرارداد پیش کی ؟نہیں
کسی نے یہ فریضہ انجام نہیں دیا ، پھر کیا صاحب اقتدار سے گلہ اور کیا عوام
سے۔
بے حسی کا عالم اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ تھر کے لیے مختص کیے گئے فنڈ
میں بھی کرپشن بے انتہا کی گئی اور کروڑوں کی خرد برد کی گئی ۔آڈٹ رپورٹ کے
مطابق تھر کے قحط سالی کے متاثرہ علاقوں میں 8کروڑ روپے کے اخراجات کا
ریکارڈ نہیں ، 4کروڑ روپے سے زائد کی رقم خرچ ہی نہیں کی جاسکی ، 6کروڑ
50لاکھ روپے منصوبوں کی منظوری کے بغیر جاری کیے گئے ، پانی کی فراہمی کے
لیے 3کروڑ20لاکھ روپے خرچ کیے گئے مگر پائپ لائن کا وجود تک نہیں جب کہ
ٹھیکیداروں کو 6کروڑ 50لاکھ کی اضافی رقم دی گئی ۔
کیا یہ بے حسی اب ظلم نہیں بن چکی ہے اور کیا باقیوں کی خاموشی اس ظلم میں
مزید اضافے کا باعث نہیں ہے؟آئے دن آنے والی آفات کو سائنس اور ٹیکنالوجی
سے کب تک منسلک کر کے دل کو بہلایا جائے گا؟کس نے اس ظلم کو کتنا روکا ،
کتنا ساتھ دیا ہر فرد اس بات کا جواب دہ ہے جواب ضرور دینا پڑے گا آج نہیں
تو کل مگر ضرور۔ |