پاکستان میں فرقہ واریت اور عدم برداشت
(Tanveer Awan, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اجتماعیت ا ور مرکزیت وہ اوصاف ہیں جن کے ذریعے ملت کے افراد کی کثرت ایک
وحدت میں تبدیل ہو جاتی ہے،میانہ روی ،رواداری،تحمل مزاجی،صبر وبرداشت اور
انصاف وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و سکون کا دوردورہ ہوتا
ہے۔اگر مسلمانوں کے مختلف گروہ،فرقے اور طبقے جو ملت اسلامیہ کے وجود کے
مختلف اعضاء کی مانند ہیں ،اگریہ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہو جائیں تو نہ
صرف ملت کی اجتماعی سلامتی اور تحفظ خطرے میں پڑجاتی ہے بلکہ ہر طبقہ کے
انفرادی رجحانات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺکی تیئس سالہ شبانہ روز محنتوں اور جدوجہد کے نتیجے میں
انسانوں کے بکھرے ہوئے منتشر طبقات ایک امت کی صورت میں دنیا کے نقشے پر
ابھرے اور ایک عرصہ تک عالم کے افق پر صرف اسلام کا ہی سورج پورے آب و تاب
سے اپنی کرنیں بکھیرتا رہاہے۔نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ؓجہاں
بھی جاتے لوگ ان کے کردار وعمل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے،اس ہر
دلعزیزی کی وجہ وہ عالی صفات وخوبیاں تھیں جو انسانیت کی معراج ہیں اور جن
کی وجہ سے معاشرے میں انارکی، انتشاروافتراق،فرقہ واریت اور عدم برداشت کا
خاتمہ ممکن ہوا۔ بنی کریم ﷺنے عدل و انصاف،حیاء و عفت، بردباری ،قوت
برداشت،قدرت پا کردرگزر کرنااور مشکلات پر صبرکرنا جیسی روایات واقدار کو
اپنے عمل سے رواج دیا،آپ کی بلند کرداری اور برداشت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ
کے خلاف دشمنوں کی خود سری، ایذا ء رسانی اور زیادتی جس قدر بڑھتی جاتی تھی
آپ ﷺ کے صبر و تحمل میں اسی قدر اضافہ ہوتا رہتا تھا،عدم برداشت کی وجہ سے
معمولی معمولی باتوں پر شروع ہونے والی لڑائی کئی کئی پشتوں تک چلتی رہتی
تھیں ،ایسے معاشرے میں آپ ﷺ نے باہم اتفاق واتحاد،برداشت و تحمل ،ایثار
وقربانی ،تواضع اور انکساری کو رواج دیا،وحدت امت اوردوسرے مذاہب کے ساتھ
اچھے روابط کے قیام کے لیے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات اور میثاق
مدینہ نبی پاک ﷺ کی سیرت کے روشن پہلو ہیں ۔
اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان اپنے نازک ترین
دورسے گزر رہی ہے،بے شمار مسائل سے نبرد آزماپاکستان پر اندرونی و بیرونی
خطرات منڈلا رہے ہیں ،فکری انتشار،خدمت خلق اور برداشت سے عاری بیوروکریسی
اور کرپٹ ٹیکنوکریسی،مجرمانہ تغافل،ثقافتی کنفیوژن اور مشرقی روایات کی توڑ
پھوڑ،محبت ویگانگت،انسیت اور اپنانیت کا فقدان،مختلف قومی ولسانی گروہ
بندیاں ،صوبائی و علاقائی تعصبات ،ذات وبرادری اور علاقائی تفاوت،رنگ ونسل
اور مذہب کی بنیاد پر عدم برداشت،نفرتیں اور قتل و غارت گری کا رجحان، یہ
وہ پہلو ہیں جو ملکی استحکام ،سلامتی،بقا اورترقی کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ
ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں ۔
اگرکسی بھی معاشرے سے تحمل و برداشت کے عنصر کو نکال دیا جائے توبہت جلد وہ
معاشرہ تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تحمل وبرداشت
کا فقدان ہے ،پاکستان میں عدم برداشت کے رجحان کی ممکنہ طور پر تین صورتیں
پائی جاتی ہیں۔
۱۔قومی سیاست میں عدم برداشت کا رجحان،جس کی وجہ سے آج تک ہم ایک مستحکم
جمہوری حکومت قائم کرنے میں ناکام ہوتے رہے ہیں اور قوم کو کبھی مارشل
لاء،کبھی ایمرجنسی،کبھی ریفرنڈم اور کبھی سانحہ بنگلادیش جسے زخم سہنے پڑے۔
۲۔سماج میں عدم برداشت کا رجحان۔ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان
انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے،جرائم کی شرح میں اضافہ اور اخوت و
بھائی چارے کے جذبات مفقود ہوتے نظر آ رہے ہیں۔لڑائی ،جھگڑے،قتل و غارت گری
میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے جب کہ دوسروں سے درگزر اور معاف کرنے کی
روایات دم توڑتی نظر آتی ہیں۔نوجوانوں میں قوت برداشت ،حوصلہ اور صبر کی
کمی کی وجہ سے خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
۳۔مذہب میں عدم برداشت کا رجحان۔گزشتہ 68سالوں کے دوران پاکستانی معاشرہ
کئی وجوہات کی بنا پر مذہبی فرقہ واریت اور عدم برداشت کا شکار رہا ہے ،ان
میں سب سے بڑی وجہ مذہبی فرقوں اور جماعتوں میں عدم برداشت کے رجحان نے
فرقہ واریت کو جنم دیا ہے ،یہ ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ فرقہ واریت عدم
برداشت کی بدترین شکل ہے۔پاکستان میں فرقہ وارانہ تصادم میں سب سے اہم
مسئلہ شیعہ سنی اختلاف ہے، پاکستان میں جہاں شیعہ سنی مسالک کے درمیان عدم
برداشت ، دل آزار لٹریچر کی اشاعت،غیر ذمہ دارانہ تقاریر اور ایک دوسرے کی
تضحیک شدت پسندی اور لا قانونیت کا باعث بنتا ہے وہیں بیرونی مداخلت بھی
فرقہ واریت کے بڑھنے کا سبب بنتی ہے۔
کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پرتشددمذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی
گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ،ایک منصوبے کے تحت شیعہ سنی دونوں اطراف کے
علماء کرام ،ذاکرین ،دینی و عصری اداروں کے طلبہ و اساتذہ، سکالرز،ڈاکٹر
ز،وکلاء اور تاجروں سمیت زندگی کے مختلف شعبہ سے تعلق رکھنے والے 4000افراد
فرقہ واریت کی نظر ہو چکے ہیں،مساجد ،عبادت گاہوں ،مدارس ،مزارات ،گرجا
گھروں اور مندروں پر حملے کئے گے۔مذہبی فرقہ وارانہ دہشت گردی کا پہلا
واقعہ 6جولائی 1985 کوئٹہ میں پیش آیا جس میں درجنوں سنی مسلمان مردوں اور
عورتوں کو شہید کیا گیا،جب کہ دوسرا اہم واقعہ1988 معروف شیعہ ذاکرعلامہ
عارف الحسینی کو نماز فجر کے لیے جاتے ہوئے امام بارگاہ کے دروازے پر نشانہ
بنایا گیااورجب1990 میں سنی عالم دین اور انجمن سپاہ صحابہ کے بانی مولانا
حق نواز جھنگوی کو ان کے گھر کی دہلیز پر شہیدکیا گیا ،ان واقعات کے بعد
شیعہ کی سپاہ محمد اورسنی نوجوانوں کی لشکر جھنگوی نے مسلح کاروائیاں شروع
کیں اور ملک میں نہ ختم ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور قتل و غارت گری
کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں قیمتی جانوں کے ضیاع
کے بعد بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق صرف 2014 میں مذہبی فرقہ
وارنہ دہشت گردی کے 144واقعات ہوئے جب کہ سندھ میں ہندووں اور عیسائیوں کی
11عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا،بلوچستان میں ذکری عقیدے سے تعلق رکھنے
والے چھ افراد اور11احمدیوں کو قتل کیا گیا۔ پاکستان میں مذہبی انتشار اور
تشدد کی جو فضاء گزشتہ دو دہائیوں سے چلی تو اس سے ہر گروہ اور طبقہ متاثر
ہوا،مذہبی فرقہ واریت اور عدم برداشت کی وجہ سے ہزارہ برادری کوئٹہ کا قتل
،کوٹ رادھا کشن،یوحنا آباد لاہور،صفورا چورنگی واقعہ اورسانحہ تعلیم القرآن
راجہ بازار راولپنڈی جیسے دلخراش واقعات نے جنم لیا۔پاکستان انسٹیٹیوٹ فار
پیس سٹڈیز اورانسانی حقوق کمشن کی رپورٹ کے مطابق2013میں 220 فرقہ وارانہ
حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 687ہے اور ان حملوں میں 1319افراد زحمی
ہوئے جو کہ 2012کے مقابلے میں بائیس فیصد زیادہ ہے،جب کہ حالیہ جاری کردہ
رپورٹ کے مطابق جنوری 2014سے اکتوبر 2015تک ان تمام واقعات میں 63فیصد کمی
آئی ہے۔
کسی بھی مذہب کے ماننے والوں میں ایک یہ عمومی رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ
دوسرے کسی بھی مذہب کے کسی پیروکار کے غلط رویے اور سلوک کو ان کے مذہب کی
تعلیمات سمجھتے ہیں حالانکہ مذہب اس کی یکسر نفی کر رہا ہوتا ہے۔اسلام
برداشت اور وحدت کا مذہب ہے،جس میں ہر قسم کی تفرقہ بازی کی حوصلہ شکنی کی
جاتی ہے،قرآن پاک میں واضح ارشاد خداوندی ہے کہ اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے
تھام لو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو،یاد کرو اﷲ کی اس مہربانی کو جو تم پر کی
گئی تھی جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے،پس الفت ڈال دی اﷲ نے تمھارے دلوں
میں،تم بن گئے بھائی بھائی اﷲ کی مہربانی سے۔(ال عمران 103)پیغمبر اسلام ﷺ
کا ارشاد مبارک ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمھارے لیے یہ پسند کرتا ہے کہ حبل اﷲ پر
متحد ہو جاؤ اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔نبی کریم ﷺ نے میثاق مدینہ کے ذریعے
مذہبی رواداری اور برداشت کی اعلیٰ روایات قائم فرمائیں اور یہ دنیا کا سب
سے پہلا تحریری دستورتھا،آپ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں بین الاقوامی امن
،رواداری اور برداشت کے اصول بیان فرمائے،آپ ﷺ نے فرمایالوگو!تمھارا خون
،تمھارے مال اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے کے لیے ایسی ہی حرام ہیں جیسے
تمھارے لیے آج کا دن،اس شہر اور اس مہینہ کی حرمت،خبردار!میرے بعد گمراہ نہ
جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔
پاکستان اسلامی نظریاتی مملکت ہے ،یہ اٹل اور واضح حقیقت ہے کہ ہر قسم کی
فرقہ واریت کے خاتمے کا ایک اور صرف ایک بہترین حل اتحاد امت ہے۔ وحدت امت
کی بنیاددو چیزیں ہیں ایک قرآن اور دوسرا سنت رسول اﷲ ﷺاور ہمیں قرآن و سنت
سے روشنی لینا ہوگی ،اس نہج پر معاشرے کی تطہیر کرنا ہو گی جس نہج پر نبی
کریم ﷺ نے معاشرے کی تربیت فرمائی تھی۔یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ مختلف
اسلامی فرقوں اپنا ایک مستقل وجود رکھتے ہیں ، جنہیں نہ جھٹلایا جا سکتا ہے
اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے ،لیکن ان میں تشدد اور عدم برداشت کے خاتمے
کے لیے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم ہر قسم کے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر
اسلام کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے جدوجہد کریں اور ارباب اقتدارکی
یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے
عملی اقدامات کریں جب کہ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کے کردار کو بھی فراموش
نہیں کیا جا سکتا ہے۔ |
|