بڑھتی ہوئی کرپشن

پاکستان میں کرپشن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس کو ہر فرد آسانی سے سمجھتا ہے۔پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ جوان ہو یاپھر بوڑھا ہر کوئی کرپشن سے واقف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کرپشن پوری دنیا میں جڑ پکڑ چکی ہے۔اور دنیا میں پاکستان چونتیسواں نمبر رکھتا ہے عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔کرپشن پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے جو معا شرے کے ہر طبقے میں سرایت کر چکا ہے۔ایسے میں ہمارے ملک کا کیا ہو گا۔جب ایک افسر سے لے کر نوکر تک اور حکمران سے لے کر ایک رہڑی والے تک ہر کوئی کرپٹ ہوگا۔ۃ۔ہم کہتے ہیں کہ دوسرا ہے خود کو نہیں دیکھتے کیونکہ اگر تبد یلی لا نی ہے تو پھر پہلے خود کو بد لنا ہوگا ۔ ہر کوئی ہی اپنی اپنی جگہ کرپشن کرتا ہے کوئی بھی یہ کیوں نہیں سوچتا ہے کہ اس سے ہمارا اور ہمارے ملک کا کتنا نقصان ہو رہا ہے ۔پاکستان میں کرپشن کا آغاز سرکاری شعبہ سے ہوالیکن بعد میں ہر شعبہ زندگی اس کی لپیٹ میں آ گیا۔کسٹمً انکم ٹیکس ایکسائز سیاستدان جرنیل جج جرنلسٹ تعلیمی شعبے اور بیورو کریٹ سب شامل نظر آتے ہیں اس بندر بانٹ میں صحت جسے محکمے جو کہ قوموں کے لیے سچا ئی کا درجہ رکھتے ہیں وہ بھی شامل ہیں باقی سب بات چھوڑیں جو محکمہ کرپشن کی روک تھام کہ لیے بنایا گیا تھا یعنی انٹی کرپشن وہ بھی اس سے اب پاک نہیں رہا۔پولیس جیسے محکمے میں کرپشن نے قانون کی حکمرانی کے تصور کی دھجیاں بکھیردی ہیں ۔مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور امن وامان کی صورتحال خطرناک ہے ۔کیونکہ انصاف کے طلبگار تھانوں کا رخ کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ اب پولیس والے بھی مجرموں سے ملے ہوتے ہیں ۔ انصاف کے طلبگار تھانوں کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک جاتے ہیں کیونکہ جسکے ہاتھ میں پیسہ ہو وہی انصاف حاصل کر سکتا ہے ۔ غریب آدمی کیا کرے وہ کہاں سے بڑی رقم کا بندوبست کرے اور کیسے انصاف حاصل کرے۔پاکستان میں تو ایسے لوگوں کو بھی انصاف حاصل نہیں ہوتا جن کے عزیز بھی قتل ہو جاتے ہیں کیونکہ انصاف حاصل کرنے کے لیے بھی دولت اور اچھے تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے ۔پولیس اب کام صرف پیسے سے ہی کرتی ہے ۔کچھ ہی ہفتے پہلے کی بات ہے کہ میرے بھائی صاحب گوجرانولہ سے لاہور یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوئے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ابھی اپنے فلیٹ سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ ڈاکوؤں نے روکا اور سب کچھ لے لیا۔ابھی ڈاکو گئے ہی تھے کہ وہاں سے پولیس کی وین نکلی ہم نے انھیں روکا اورسارے ماجرہ سے آگاہ کیا انہوں نے کہا کے متعلقہ تھانے سے رابطہ کریں ہم متعلقہ تھانے گئے تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سب اپنے گھر سے لا دیں کیا۔ہماری بات کو ان سنی کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ تھانے کا نظام بھی شاہانہ ہے۔قارئیں اگر ہمارے ملک کے نگران ہی ایسے ہیں تو پھر ملک کا کیا ہو سکتا ہے ۔سمگلنگــ‘وعدہ شکنی‘معاہدوں کی خلاف ورزی‘ناپ تول میں بددیانتی‘دھوکہ دہی‘سرکاری اورنجی املاک پر قبضے ‘جھوٹی گواہیاں اور مجرموں کی پشت پناہی ہمارا وطیرہ بن گیا ہے ۔کہ انٹی کرپشن جیسے محکمے کو بھی کرپشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔بقول معروف اکانومسٹ ڈاکڑ محبوب الحق کے ’’سالا نہ دوسوارب روپے نوکر شاہی کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔‘‘اس برائی نے معاشرے کی اخلاقی اقدار کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ کسی کی فکر نہیں ہر کوئی اپنے ہی پیٹ کو بھرنے کا سوچتا ہے۔ غریب سے غریب ہورہا ہے اور امراء اپنے غلے بھر رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ۶۰۰۲ء میں ۵۴ ارب روپے کرپشن کی نظر ہوئے جبکہ ۹۰۰۲ء میں بڑ ھ کر۵۹ ارب روپے ہوگئی۔گویا
مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کا کڑا احتساب کیا جائے ۔قانون کی حکمرانی میرٹ اور انصاف کے ذریعے بدعنوانی کو جڑ سے اکھڑ پھینکا جائے ورنہ یہ کالا ناگ ہماری قوم اور ملک کو کھا جائے گا ۔ قارئین اگر ہم سب اپنی اپنی جگہ خود ہی ٹھیک ہو جائیں تو ملک کا نظام درست ہو سکتا ہے۔قارئیں نیا سال ہے تو نئی سوچ بھی لاؤ اور اپنے آپ سے عہد کرو کہ ہم اپنے ملک اور قوم کے ساتھ غداری نہیں کریں گے۔ نئے سال کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ اور کام بھی نیا بناؤ تاکہ ملک کی ترقی ہو سکے۔ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اب ایک ہونا ہو گا۔اور اگر ہم سب مل کر اس کو اپنی اپنی جگہ ہی روکیں تو پھر ایک دن اس پر قابو پا لیں گے۔
بدلنے ہیں تو دن بدلو
بدلتے کیوں ہو راتوں کو
بتاؤ کتنے سالوں میں
ہمارا حال بدلے گا
 
Zikar E Jehan
About the Author: Zikar E Jehan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.