چائلڈ لیبر۔۔۔۔معاشرے کے لئے المیہ؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
بچے جو کسی ملک کا مستقبل ،سرمایہ
اور اثاثہ ہوتے ہیں ،جب حالات سے مجبور ہو کر ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کام
کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں تو یقینا اس معاشرے کے لئے المیہ وجود پا رہا ہوتا
ہے ، یہ المیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتا ہے اور
پھر ’’ناسور‘‘بن کر سماج کا چہرہ داغ دار اور بد صورت کردیتا ہے ،پاکستان
میں بھی معاشی بد حالی ،سہولیات سے محرومی ،استحصال ،بے روز گاری ،غربت اور
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے جگہ جگہ اس المیے کو جنم دے رکھا ہے جو
بڑھتے بڑھتے ناسور بنتا چلا جا رہا ہے ساری دنیا ہی اس لعنت کا سامنا کر
رہی ہے اور اس کے خاتمے کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن پاکستان میں
چائلڈ لیبر ایک سماجی ضرورت بن چکی ہے ،امیر سے امیر تر اور غریب سے غریب
تر ہونے پر قابو نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا کوئی راہ نہیں
پاتے کہ وہ بچوں کو ابتدا سے ہی کام پر لگا دیں تا کہ ان کے گھروں کا چولہا
جلتا رہے ،ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں ،اسکول جانے کی عمر کے بچے دکانوں
،ہوٹلوں ،ورکشاپس،بس اڈوں،فرنچرز کے کارخانوں اور بھٹہ خشت سمیت دیگر متعدد
جگہوں پر ملازمت کرنے کے علاوہ مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ،پاکستان میں بچوں
کی مزدوری کا قانون بنے چودہ سال ہوگئے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکے
اور خود اس قانوں میں نئے عالمی کنوینشنز کے مطابق بہتری لانے کی ضرورت تھی
مزدور بچوں کے حوالے سے جو سروے 1996ء میں ہوا تھا اس وقت 40لاکھ مزدور بچے
مختلف جگہوں پر کام کرنے والوں کی تعداد ہے ،جبکہ مزدور بچوں کا 80فیصد تو
غیر رسمی شعبوں مشلا گھروں میں اور کھیتوں میں کام کرنے والے بچے اس سروے
کا حصہ نہیں ہیں ۔۔۔۔۔اب حال میں ہی خادم اعلی پنجاب نے بھٹہ خشت پر مزدوری
کرنے کے حوالے سے چائلڈ لیبر سے قانون لائے جس کی رو سے بھٹہ خشت پر مزدوری
کرنے والے بچوں جن کی عمر پانچ سال سے چودہ سال تک سے مزدوری کرانے کو ظلم
اور زیادتی قرار دیتے ہوئے ان بچوں کو سکول میں داخل کرانے تک جب تک آخری
بچہ بھی اسکول چلا نہ جائے آپریشن اور انسپکشنز جاری رہیں گی ،وزیراعلی
پنجاب نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے قانون کی خلاف ورزی پر مقدمات میں
نامزد بھٹہ مالکان کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بھٹہ خشت پر
بچوں سے مشقت کرانے کے ظلم کو ہر صورت بند کراؤں گا اور ان بچوں کو تعلیم
کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا بھٹہ خشت سے چائلڈ لیبر کے کاتمے کے لئے
کوئی غفلت یا کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی جہاں کوتاہی یا غفلت سامنے آئی
تو سخت ایکشن لیا جائے گا اس قانون کے عملدرآمد کے حوالے سے کوئی عذر یا
بہانہ نہیں چلے گا ،اب تک 200زاہد بھٹوں کی کوسیل 2000سے زیادہ مرتبہ
انسپکشنز کی گی اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے قانون کی خلاف ورزی پر مقدمات
درج کر کے 350بھٹہ مالکان اور مینجرز کو گرفتار کیا گیا ہے ،اس قانون کی رو
سے تعلیمی پیکج کے سے ہر بچے کو ماہانہ ایک ہزار روپے وظیفہ کے ساتھ ساتھ
کتابیں ،یونیفارم اور جوتے مفت ملیں گے جبکہ بچوں کے والدین کو ماہانہ دو
ہزار روپے بھی وظیفہ ملے گا بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت ملے گی ۔۔۔۔۔۔۔مگر
جہاں تک اس قانون کا بنانا ہے دیر اید درست اید والی مشال ہے کہ چلو بھٹہ
خشت پر بچوں سے مزدوری کرانے کو ختم کرنے کے لئے پنجاب حکومت میدان میں تو
آئی ۔۔دیگر صوبوں کو بھی چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے قانون بنا کر اس لعنت
سے خاتمے کے لئے عملا اقدامات کرنا ہو گا،لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار
حرکت میں آرہے ہیں اور کئی جگہ پر ضلعی افسران پولیس کے ہمراہ بھٹہ مالکان
کو ہراساں کرتے ہوئے اور سکول ٹائم کے بعد انسپکشنز کی جارہی ہیں اس سلسلے
میں راقم کی بھٹہ اونرز ایسوسی ایشن کے صدرشیعب خان نیازی اور حاجی اورنگ
زیب خان سے بات ہوئی تو انہوں نے اس قانون کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس
کے طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ بھٹہ مالکان نے اپنی مد آپ کے تحت
بچوں کو اسکول میں داخل کروایا ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ بھٹہ خشت پر مزدوری
کرنے والوں کے شناختی کارڈ نہیں بنے ہوئے تو بچوں کو داخل کرانے کے لئے
فارم ب کی ضرورت ہے حکومت کو چائیے کہ نادرا کی موبائل کو ان بھٹوں تک لایا
جائے اور ترجیح بنیادوں پر لیبر کے شناختی کارڈ بنائے جائیں اس کے ساتھ
ساتھ انسپکشنز بھی اسکول ٹائم کے بعد کی جارہی ہے وہ بھی اسکول ٹائم میں ہو
تا کہ حقا ئق سامنے آسکیں ۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ بھٹہ اونرز کی پکڑ دھکڑ ختم
کی جائے اور اس قانون کی عمل درآمد کے لئے کمیٹی بنائی جائے اور اس میں
بھٹہ اونر کو بھی شامل کیا جائے بے شک بھٹہ انڈسٹری ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی
حیثیت رکھتی ہے اگر بھٹہ اونرز احتجاج پر چلے جاتے ہیں تو بے روز گاری میں
اضافہ ہو گا جیسا کہ بھٹہ اونرز نے تین روز کی علامتی ہڑتال کی کال دے دی
ہے ،بے شک بھٹہ خشت سے بچوں کی مزدوری کے خاتمے کے لئے قانون حرکت میں ہے
مگر خادم اعلی سے راقم یہ سوال بھی کرتا ہے کہ وقافی درالحکومت اسلام آباد
اور اس کے جڑواں شہروں راولپنڈی میں گاڑیوں کی ورکشاپوں ،فرنیچرز کے
کارخانوں اور ہوٹلوں میں مزدو بچوں کی ایک کثیر تعداد کام کرتی دکھائی دیتی
ہے اس کے علاوہ لاہور ،ملتان ،فیصل آباد جیسے شہروں میں بھی نوعمر لڑکے بھی
کام کرتے ہیں سیالکوٹ میں جراحی کے آلات بنانے کے کارخانوں میں ہزاروں بچے
مزدوری کرتے ہیں اور ملک ان کی محنت سے اربوں روپے کا زرمبادلہ کماتا ہے یہ
بچے ریتی پر دھات کے گھسنے سے نکلنے والی دھاتی دھول کو بھی سانس کے ساتھ
اندر لے کر جاتے ہیں جو ان کے کام کا خطرناک پہلو ہے اس کے ساتھ ڈینٹنگ
پینٹیگ اور فرنیچرز کی پالش کرنے والے بچوں کے پھیھڑے بھی رنگ اور پالش کے
مختلف کیمیکلز سے متاثر ہوتے ہیں اور جان لیو بیماری ’’ٹی بی ‘‘ کا باعث
بنتے ہیں ۔ارباب اختیار سے اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آلات
جراعی میں بچوں کی مزدوری ان سات شعبوں میں شامل ہے جو بچوں کے کام کے لئے
خطرناک قرار دیا گیا ہے اس کے علاوہ بچوں کی مزدوری کے کاموں میں کان
کنی،کوڑا اٹھانے کاکام،چوڑی سازی،ماہی گیری،قالین بافی،چمڑا بنانے کی صنعت
شامل ہے اور بچوں کے لئے سب سے زیادہ خطرناک کام ہے جہاں بڑی تعداد میں
کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ قالین بافی میں بھی بچے دس سے
بارہ گھنٹے پنجوں کے بل بیٹھ کر کام کرتے ہیں جس سے ان کی ہڈیاں مڑ جاتی
ہیں ۔۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم نے چائلڈ لیبر کو اپنے لئے ناگزیر مجبوری
سمجھ لیا ہے بالخصوص ارباب اختیار کو اس ضمن میں کوئی پریشانی نہیں ہے بقول
شاعر۔۔۔۔جوسچ ہے وہی کہنے کا عادی ہوں۔۔۔۔میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی
ہوں۔۔ |
|