آر ایس ایس کا بھارت پھر سے تقسیم کی راہوں پر

دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کے دعوے دار بھارت میں مسلمانوں، سکھوں اور دیگر مذاہب کے ساتھ ناروا سلوک بھارت کو لے ڈوبے گا۔
مشہورمسلمان سائنسدان البیرونی نے اپنی کتاب تحقیق الہند میں لکھاہے’’برصغیر میں دوبڑی قومیں آبادہیں۔ایک ہندو اور دوسری مسلمان،ہندو جو برصغیر میں کثرت میں آباد ہیں،وہ مسلمانوں کو نیچ تصور کرتے ہیں اور ان پرظلم وستم کرتے ہیں۔‘‘

اسی برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کے ہزارسالہ دور حکومت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کا برصغیرمیں زوال شروع ہوا وہ جو براعظموں کے حاکم تھے اس برصغیر میں محکوم ہو کر انگریزوں اور ہندؤوں کے رحم وکرم پررہ گئے۔ ہندؤوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں اپنی ہزار سالہ غلامی کابدلہ انگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے خوب چکایا۔ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کوکاروبار ،تعلیم اور ترقی کے مواقع سے محروم کرکے ان کو معاشرے کاعضو معطل بننے پر مجبور کردیا۔ انتظامی معاملات میں ہونے والی ساری خرابیوں پر مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرایاجاتا اور انگریز سرکار کاسارا عتاب بھی بے چارے مسلمانوں پرہی برستا۔دوسری طرح چانکیائی سیاست کاحامل ہندوانگریزوں کے بعدبرصغیر پر ا کھنڈ بھارت کے قیام کی صورت حکومت کرکے ان کو اپنی غلامی میں لینے کاخواب دیکھنے لگا۔ یہ ساری صورتحال برصغیر پاک وہند میں بسنے والے مسلمانوں پربڑی گراں گزررہی تھی اور ان کے اندر احساس محرومی کو ہوا دے رہی تھی۔ دردمندان ملت کے کلیجے امت کی اس بدحالی پرکٹ رہے تھے اور جو کچھ کرنے کے قابل تھے ۔وہ شومئی قسمت غلط فہمیوں کی بناپر اغیار کے ہاتھوں استعمال ہو رہے تھے۔ وہ مسلمان جو ملت کو اس زبوں حالی سے نکال کر اوج ثریا کی راہ پر گامزن کرنے کاعزم رکھتے تھے، وہ انفرادی سطح پر کوششوں اور کاوشوں میں مصروف تھے مگر کوئی ایساراہنما ، کوئی ایسانعرہ ان کو میسرنہیں تھا جو ان بکھری ہوئی چنگاریوں کو اتحاد کی قوت عطا کرکے شعلہ جولہ میں تبدیل کرکے رکھ دے۔

اچانک مسلمانوں کی اس حالت زار پر رحمت الٰہی نے جوش مارا اور درد کے مارے مسلمانوں ایسی بیدار مغز قیادت میسرآئی جس نے ہندوستان کے چپے چپے پربکھرے مسلمانوں کو لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کی مضبوط لڑی میں پرو کر ان کو دوقومی نظریہ کاوہ تصور دیا جس کا ذکر ابن الہثیم نے اپنی کتاب میں کیاتھا کہ برصغیر میں بسنے والی اقوام علیحدہ علیحدہ ہیں۔اس دوقومی نظریے کی بنیادپر لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی چھتری تلے جب مسلمانوں نے انگریز اور ہندؤوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے جب سفر کاآغاز کیا تو ان کے راستے میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ سب سے پہلے اس تحریک کو بزور قوت روکنے کی کوشش کی گئی مگر جب اغیار نے دیکھاکہ یہ قافلہ سخت جاں تو عزم صحیح کیے بیٹھاہے اور ان کے راستے میں روڈے اٹکانے کا عمل ان کے پایہ استقلال میں لغزش پیدانہیں کرسکتا توپھر طرح طرح کے لالچ دیے گئے۔جس طرح مکہ میں محمدeکواسلام کی حقانیت کی طرف بلانے کی پاداش میں طرح طرح کی مصیبتیں جھیلنا پڑیں لیکن آپ ثابت قدم رہے اور مستقل اپنے فریضہ کو ادا کرتے رہے تو تھک ہارکرکافروں نے آپ کو مذاکرات اور طرح طرح کی پیشکشوں کے لالچ دے کر اسلام کے غلبہ کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی مگر آپe اللہ کے حکم سے یہ آیت سنائی:
لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔(الکافرون:6)
کہ ایک اللہ کی عبادت کرنے والاپاک صاف مسلمان اور بے شمار جھوٹے معبودوں کی شرمگاہوں کو پوجنے والے ناپاک کس طرح ایک ہوسکتے ہیں۔ یہی لالچ مسلمانان برصغیر کودیاگیا کہ آؤکچھ وزارتیں لے لو مگر اس دھرتی ماتاکے ٹکڑے نہ کرومگرمحمدعلی جناح اوران کے رفقائے کارکی شکل میں مسلمانوں کی بیدارمغزقیادت نے بھی یہی جواب دیا:
’’قومیت کی جو بھی تعریف کی جائے اس کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہندو ایک علیحدہ قوم ہے۔دونوں قوموں کی تہذیب وثقافت، تاریخ اور ہیرو غرض یہ کہ ہرچیز مختلف ہے۔ان میں کوئی بھی چیز،کلمہ اور نعرہ بھی مشترک نہیں ہے تویہ کیسے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔‘‘

یہی وجہ تھی کہ اس لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر دو قومی نظریے نے تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ برصغیر پاک وہند کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمان کیابڑے ،کیاچھوٹے ،کیابوڑھے ،کیانوجوان ،کیا مرد، کیا عورتیں ساری مسلمان قوم جو لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرنے والی تھی، اس دوقومی نظریے کے پرچم تلے اکٹھی ہوگئی (ماسوائے چندکانگرسی ٹولے کے)اور اس مقصد کی خاطر انتھک محنت ،جہد مسلسل اور لازوال قربانیوں کی داستانیں رقم کرتے ہوئے آزادی کی طرف سفرجاری رکھا۔

اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے اس عظیم اتحاد، جو صرف اس کے کلمے لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ پر تھا اور منزل کی طرف لگن اور اس کی خاطر دی گئی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے مسلمان برصغیر پرانعام واکرام کی بارش کرتے ہوئے وطن عزیز پاکستان کی شکل میں انہیں لاالٰہ الااللہ کا دیس عطا فرمایا۔

یہ سارا ثمر اوراللہ کاانعام اسلام کی خاطر ڈٹ جانے ۔لاالٰہ الااللہ اور مذہب کی بنیادپر متحد ہوکر جسد واحد بن کر، پختہ عزم کے ساتھ تحریک چلاکر اور پھر اس مقصد کی خاطر لاکھوں قربانیاں دینے کاتھا۔

یہ ساری تمہید جوہم نے ان صفحات پرباندھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کاظالم ہندو جو اکھنڈ بھارت اور ہندو توا کاحامی ہے، تقسیم برصغیر کے شروع دن سے ہی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے والا اوران کا قتل عام کرنے والاہے۔چاہے قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے وقت 15لاکھ کے قریب مسلمانوں کاقتل عام ہویابھارت کے مختلف شہروں میں فسادات کے نام پر مسلمانوں کے کاروباراور گھروں کو نذرِآتش کرکے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنا ہو ۔وہ کشمیر میں عفت مآب مسلمان بہو،بیٹیوں کی آبر و ریزی ہو یا1لاکھ سے زیادہ مظلوم کشمیری نوجوانوں کی شہادتیں ہوں۔ وہ بھارت میں جلتی ہوئی مساجد ہوں اور ان کے بیچ مسلمانوں کی غیرت کو آواز دیتی،بابری مسجدیا پھر گجرات ہیں،ہزاروں مسلمانو ں کو زندہ جلایاجانا،وہ ہاشم پورہ میں بھارتی پولیس کے ہاتھوں بے گناہ مسلمان نوجوانوں کا قتل یا وہ آسام میں ہندو درندوں کا بے بس اور لاچار مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگناہو۔ صرف مسلمانوں پر ہی بس نہیں بلکہ دیگراقلیتوں پرتشدد اور ظلم وستم کے واقعات روزانہ کامعمول ہے۔ وہ گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے کابہیمانہ قتل سے لے کر عیسائیوں کے گرجوں کو جلانااور نیچ ذات کے ہندؤوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھ کر ان سے غیر انسانی سلوک روا رکھنا،بھارت کے درندہ صفت ہندؤوں کا معمول ہے۔

یہ چند واقعات نہیں بلکہ دہشت گردی کے ہزاروں واقعات پوری دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر سٹیٹ ہونے کادعویٰ کرنے والے بھارت کے بدنما چہرے پرکلنک کاٹیکا ہیں جن کو محض بیانات کے پانی سے دھونا ممکن نہیں ہے۔

دہشت گرد تنظیم آرایس ایس کاتربیت یافتہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اوراس کے ساتھی شاید یہ سمجھتے تھے کہ ہم اپنے ملک میں اقلیتوں کو بزور قوت دبا کر بھارت کو’’ہندوتوا‘‘ کی منزل تک پہنچاسکیں گے مگر یہ ان کی خام خیالی نکلے گی۔وہ چھتیس گڑھ میں اپنی ساری انتظامی کابینہ کاعلیحدگی پسندوں کے ہاتھوں قتل بھول گئے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ ان کی اکثرریاستیں توپہلے ہی ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔کئی کئی اضلاع پرماؤنواز باغی اور نکسل باڑی عملاً قابض ہیں۔اس صورتحال پر بھارت کے اندر سے دانشوروں اوردیگر سیاسی و صحافتی شخصیات، وغیرہ نے خطرے کی جھنڈی ہلانا شروع کردی کہ یہ بھارت کس راہ پر چل پڑاہے ؟اگر یہ اسی راہ پرگامزن رہا توپھر اپنے موجودہ وجود پرقائم نہیں رہے گا۔ان فیصلوں میں سرفہرست گائے کی قربانی وذبیحہ اوراس کیگوشت پرپابندی لگاناتھا۔ بھارتی عدالت کے اس فیصلے نے جہاں مسلمانوں میں احساس محرومی خوف اور ردعمل کوہوادی ہے ۔وہیں پر جنونی ہندؤوں کو بھی کھل کھیلنے کاموقع دیاہے۔ مسلمانوں پر حملے کرنااور ان کے خون سے ہاتھ رنگنے کامزید ایک موقع ہاتھ میں آگیاہے اور ان ظالموں نے محض گائے کا گوشت کھانے کی افواہ (وہ بھی غلط) پر دہلی سے متصل دادڑی گاؤں کے مندر میں اعلان کیاکہ بستی میں رہنے والے محمد اخلاق نامی مسلمان نے گائے(ہندوکی ماتا) کا گوشت کھایا ہے۔

بس پھرکیاپورے علاقے سے ہندو درندے جمع ہوئے اور انہوں نے 50سالہ محمداخلاق اور ان کے جوان بیٹے کو گھر سے نکال کر اینٹیں مارمار کر لہولہان کردیاجس پر محمد اخلاق موقع پر ہی دم توڑگیااور اس کا جواں سال بیٹا ابھی تک ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں ہے۔ اس واقعے سے بھارت کے مسلمانوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں اور زیادہ سنجیدگی سے سوچنا شروع ہوگئے ہیں۔وہیں اس واقعہ نے بھارت کے سیکولر ازم کابھی پول کھول دیاہے کہ بھارت میں غیر ہندؤوں کے ساتھ کیا سلوک ہورہاہے؟
ان سارے واقعات نے بھارتی مسلمانوں کی آزادی کی خواہش کو عملی صورت میں ڈھالنے میں مدد بھی فراہم کی ہے۔

بھارتی دانشوروں کایہی فیصلہ ہے جس نے بھارت کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں کویک جان بنادیاہے۔ مذہب کے نام پر اتحاد کی فضاخود ہی تشکیل پاناشروع ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کے مذہب میں اس صریحتاً مداخلت کو بھارتی مسلمانوں نے آڑے ہاتھوں لیاہے اور وہ پھر سے مذہب کے نام پر اکٹھے ہوناشروع ہوگئے ہیں۔ ان کی آزاد سوچوں کو اس حکم اور اس پرردعمل نے مہمیز دے کر جذبوں میں تبدیل کردیاہے۔ وہ یہ بات سمجھنے پرمجبور ہو گئے ہیں کہ نریندرمودی ،آرایس ایس ،شیوسینا اور دوسرے دہشت گرد ہندؤوں کے دیس میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔انہیں اپنی آزادی کی فکر کرناہوگی۔ حقوق کے نام پر دلت جن کو نیچ ذات کا ہندو کہاجاتاہے ،وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور مودی کی اپنی ہی ریاست میں5لاکھ کاایک کثیرالتعدادمجمع دلتوں کا اکٹھاہوا اورانہوں نے مودی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔
دوسری طرف بھارت میں بسنے والے سکھ بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔ہندؤوں کی طرف سے سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ کی بے حرمتی پر سکھ سیخ پا ہیں اور وہ جگہ بھارتی حکومت کے خلاف اورخالصتان کے اور پاکستان کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔ ترال میں سکھ نوجوان جمع ہوئے انہوں نے ان نعروں سے پوری حکومت کی نیندیں اڑا دیں۔
کشمیرپاکستان کا
پنجاب خالصتان کا
کشمیربنے گاپاکستان
پنجاب بنے گاخالصتان
پاکستان زندہ باد
بھارت مردہ باد

مزیدبراں یہ کہ بھارت کے اندر سے لوگ اس ہندو تواپالیسی کے خلاف بولنااور ان علیحدگی پسندوں کی حمایت کرناشروع ہوگئے ہیں۔بھارتی ادیبوں نے احتجاجاً ساہیتہ اکیڈمی کے ایوارڈ واپس کردیے کہ جب تک مودی حکومت مظلوموں پردہشت گردی بندنہیں کرتی ہم ایوارڈ نہیں لیں گے۔

اسی طرح بھارتی سائنسدانوں نے بھی اپنے ایوارڈز واپس کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ معروف بھارتی سائنسدان پی ایم برگوا نے پدم شری ایوارڈ احتجاجاً واپس کر دیا۔ 135 بھارتی سائنسدانوں نے بھارتی سرکار سے اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی پر ایکشن لینے کی درخواست کی ہے۔

یہ ساری صورتحال تقسیم برصغیر سے قبل کی صورتحال سے بہت ملتی جلتی ہے۔اس وقت بھی مظلوموں پرظلم تھا تو وہ لوگ ایک نعرے ،ایک کلمے تلے جمع ہوئے تھے اور اس پرڈٹے رہے تھے تواللہ تعالیٰ نے ان کو پاکستان دیا۔آج بھی اگر بھارتی مسلمان آپسی اختلافات کو بھلاکر ایک لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر جمع ہوکر آزادی کی تحریک چلائیں۔ اب اگر ساری اقلیتیں اکٹھی ہوکر تحریک کاآغاز کرتی ہیں توبھارت کو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Read More Articles by Muhammad Abdullah: 39 Articles with 34248 views Muslim, Pakistani, Student of International Relations, Speaker, Social Worker, First Aid Trainer, Ideological Soldier of Pakistan.. View More