ابھی کچھ وقت باقی ہے

ملک و قوم کی زندگی میں مشکل حالات آتے رہتے ہیں اور وہ قوم جو ان حالات کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اتفاق و اتحاد کا دامن تھامے رکھتی ہے بام دوام حاصل کرتی ہے اور جو قومیں ان حالات میں پریشان ہو کر بزدلانہ سوچ کواپنے اوپر حاوی کرنے کے ساتھ ساتھ اتفاق و اتحاد کا دامن چھوڑ دیتی ہیں ان کا نام و نشان صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی کہیں ملتا ہے ۔ کوئی بھی ملک و قوم بم دھماکوں ، دہشت گردوں ، باغیوں یا مسلط کی جانے والی جنگوں سے با آسانی تباہ نہیں ہوتی ہے بلکہ باہمی نفرت ، نااتفاقی اور اتحاد کے فقدان سے لمحوں میں تہس نہس ہو جاتی ہے۔جاپان جس پر پچھلی صدی میں ایٹم بم گرا کر نسلوں کو مفلوج اور ناکارہ بنایا گیا جس کے اثرات آج بھی پیدا ہونے والے بچے میں دکھائی دیتے ہیں۔اس ایٹم بم گرانے والوں کے ذہن میں جاپان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کہاں تک کارگر ہوئی ؟ کیا جاپان ان ایٹم بموں سے تباہ ہوا ،کیا جاپان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے ؟نہیں بلکہ جاپان نے وہ ترقی کی کہ عالمی منڈی ان کی محتاج ہو گئی کیوں کہ انھوں نے محنت کے ساتھ ساتھ باہمی نفرت کو ختم کیا ، اتفاق سے معاملات کو سرانجام دیا اور اتحاد کا دامن نہیں چھوڑا۔

مذکورہ بالا تمہید باندھنے کا مقصد پاکستان کے پچھلے دس سالہ حالات ہیں جن میں اس ملک نے لاکھوں کی تعداد میں قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ بے شمار املاک کا نقصان بھی اٹھایا ۔ نقصانات بھی وہ کہ جن کا ازالہ ناممکن ہے مگر اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس قوم نے ہر قسم کے حالات کا نہ صرف دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا بل کہ ایک نا قابل تسخیر قوم بن کر دنیا کو دکھایا ۔ اگر پاکستان کے گذشتہ پندرہ سالہ دورکو دیکھا جائے تو ہمیں خون کی ندیا ں بہتی نظر آتی ہیں، تاریخ کی کتابیں خون خون نظر آتی ہیں ، کیا بازار ، کیا چوک ، کیا چوراہے ، کیا گلیاں ، کیا مکانات، کیا عبادت گاہیں ، کیا تعلیمی ادارے سبھی خون خون ہوئے ۔یہ ملک ایسے نامساعد حالات سے گزرا کہ اس میں بسنے والے باسیوں کی ان نا مساعد حالات سے کمر ٹوٹ گئی مگر اس قوم نے ہمت و حوصلہ کے ساتھ ساتھ اتفاق و اتحاد کا دامن نہیں چھوڑا اور نہ ہی یہ نا مساعد حالات ان میں نفرت کا عنصر پیدا کر سکے۔

۲۱جنوری کو چارسدہ کے پی کے میں یونیورسٹی میں ہونے والے سانحہ کے بعدامریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے گلوبل ٹیرارزم ڈیٹا بیس کے مطابق گذشتہ 45برس کے دوران تعلیمی اداروں پر سب سے زیادہ مسلح حملے 1436جنوبی ایشیا ء میں ہوئے ان میں سے 60فی صد حملے 734پاکستان میں ہوئے جب کہ ان میں سے 96 فی صد حملے 2004اور 2013کے درمیا ن ہوئے ۔ اسی طرح دنیا میں تعلیمی اداروں پر سب سے زیادہ ہونے والے حملوں میں پاکستان 208حملوں کے ساتھ سرفہرست ہے اس کے بعد نائیجیریا ہے ۔

امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ان اعداد و شمار کو پڑھ کر انسانیت کا درد دل میں رکھنے والے یقینا کانپ اٹھے ہوں گے اور اس قوم کی اس حالت پر انھیں رحم آیا ہوگا، یقینا انھوں نے وہ دکھ درد محسوس کیا ہوگا جو ایک ماں ، ایک بہن ، ایک بھائی اور اولاد ایسے حادثوں میں برداشت کرتی ہے۔ یہ اعداد و شمار بحیثیت پاکستانی میرے لیے کسی غیر پاکستانی سے زیادہ پریشان کن ہیں اور ذہن میں ایک عجیب سی خلش پیدا ہوتی ہے کہ ہم نہ ہسپتالوں میں محفوظ ہیں نہ عبادت گاہوں میں نہ اپنے تعلیمی اداروں میں اور نہ گھروں میں ، نہ مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں محفوظ ہیں اور نہ بچے بوڑھے اور جوان محفوظ ہیں۔ ان حالات کو سامنے رکھ کر جب سوچا جائے تو دل پھٹ سا جاتا ہے اس قوم پر رحم آتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس قوم کی ہمت ، دیدہ دلیری ، صبر و استحکامت پر فخر بھی ہوتا ہے کہ اتنے نا مساعد حالات کے باوجود بھی یہ امید کا دامن تھامے ہوئے اس وطن کے ساتھ اپنی محبت میں کسی صورت بھی سمجھوتہ نہیں کرنے پا رہے اس کی بے شمار وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ ایسے سانحات کے بعدقوم میں پائی جانے والی باہمی محبت اور اتفاق و اتحاد کا عنصر بھی ہے ۔

دہشت گردی کے ذریعے اس وطن عزیز میں انتشار پھیلانے والے اس کوشش میں ہیں کہ اس قوم کے درمیان کسی طرح پھوٹ ڈالی جائے تا کہ یہ ملک ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے اپنے اس مذموم عزائم کا اظہار اس ملک کے ازلی و ابدی دشمن کر بھی چکے ہیں کیوں کہ دہشت گردی پھیلانے والے نہ ہی اس وطن عزیز کے مخلص ہیں نہ ہی ان کی دین اسلام جیسے امن پسند دین سے تعلق ہے اسی لیے وہ ایسی حرکتیں کر رہے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں انتشار پروان چڑھے ۔ ان حالا ت میں اس وطن کے رکھوالوں کا یہ فرض عین ہے کہ وہ کسی قسم کی باہمی نفرت کو ہوا نہ دیں ورنہ دشمن اپنے مذموم اور قبیح مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا ۔

ایک سال پہلے آرمی پبلک سکول پشاور میں سیکڑوں بچوں کی شہادت پر ملک دشمن عناصر نے اس قوم کو انتشار کی دلدل میں دھنسانے کی کوشش کی ۔ مانتے ہیں کہ ۱۴ مئی ۲۰۰۸ء میں باجوڑ ایجنسی کے گاؤں ڈمہ ڈولا کے ایک دینی مدرسہ میں امریکی ڈرون کے حملے سے ۸۰ بچے جو شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ان کو میڈیا ویسی کوریج نہ دے سکا جیسی آرمی پبلک کے بچوں کو دی مگر یہ بھی یاد رہے کہ آرمی پبلک میں شہید ہونے والے بچے یا باجوڑ میں شہید ہونے والے بچے اسی ملک کے رکھوالے اور مستقبل تھے اور یہ اس ملک کا نقصان ہے اور ایسا نقصان کے جس کا ازالہ مشکل ہے ۔ اسی طرح چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں گذشتہ ہفتہ ہونے والے سانحہ کو بھی آڑ لے کر اس ملک کے باسیوں کے ذہن میں کنفیوژن پیدا کی جارہی ہے اور باہمی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس لمحہ ہمیں صبر کے ساتھ ساتھ باہمی محبت کو پروان چڑھانا ہوگا ورنہ اس ملک کے دشمن آج بھی اس کوشش میں ہیں کہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ ء والے سانحہ کو ایک مرتبہ پھر تاریخ میں دہرایا جائے ۔

اس ملک کے باسیوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سقوط ڈھاکہ ہو ، باجوڑ ایجنسی میں ۸۰ بچوں کی شہادت ہو، آرمی پبلک سکول پشاور میں ۱۵۰بچوں کی شہادت ہو یا چارسدہ باچا خان یونیورسٹی میں ۳۰ افراد کی شہادت ہو، اس ملک عظیم کا ہی نقصان ہواہے اور یہ ہر مسلمان اور ہر پاکستانی کا نقصان ہے ۔ اس لمحہ ہمیں دشمن کے حربوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کی چالوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ سانحات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہم اپنوں اور غیروں میں فرق کر سکیں کیوں کہ اپنوں اور غیروں میں فرق اسی وقت اہل نظر پر عیاں ہوتا ہے جب مشکل آتی ہے ۔ یہ سانحات ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ ہم غیروں میں چھپے اپنوں اور اپنوں میں چھپے غیروں کو پہچان کر مستقبل کے لیے اپنے خیر خواہوں کا انتخاب کریں۔ وقت ابھی بھی ہے کہ ہمیں لوٹنا ہوگا اور اپنی پسند و ناپسند کا زاویہ درست کرنا ہوگا ورنہ یہ اپنوں میں چھپے غیر ہمیں تباہی کی اس کھائی میں گرا دیں گے جہاں سے سلامت نکلنا ہمارے بس میں نہیں ہوگا ۔
 
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86063 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.