ایک چیز آپ نے بھی نوٹ کی ہو گی کہ پاکستان
کے طو ل و عرض میں قبرستانوں کی شدید قلت ہے۔کوئی بھی بستی محلہ قبرستانوں
کی جگہ نہیں رکھتا ۔ایک طرف ہم اپنے دادا پردادا بلکہ نکڑ دادا کی قبر کو
زندہ و سلامت اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں ان کی قبروں پر موم بتیاں اگر
بتیاں جلانا چاہتے ہیں مگر مرنے کے بعد دفن کرنے کے لئے جگہ نہیں
چھوڑتے۔سوسائٹیاں جو بنتی ہیں وہاں بنیادی طور پر پارک اسکول قبرستان اگر
ان کی جگہ نہ رکھیں تو منظوری نہیں ملتی مگر ہوتا یوں ہے کہ آہستہ آہستہ
گرین بیلٹ پارک ان سب کو بیچ کھاتے ہیں۔میں جس جگہ رہتا ہوں یہاں بھی یہی
حال ہے مردہ اٹھائے دور دور تک جانا پڑتا ہے۔
یہاں تو اﷲ کے گھر کو بھی ناجائز جگہ پر بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔
میں کل اسلام آباد جا رہا تھا کری روڈ کے قریب گرین بیلٹ میں قبروں کا ایک
لامتناہی سلسلہ دیکھا تھوڑا آگے گیا تو روڈ ایکسٹینشن کا کام شروع ہے۔یہ جب
گرین بیلٹ رکھے گئے تو ان کا ایک مقصد تھا کہ جب ٹریفک زیادہ ہو گی تو سڑک
کو کھلا کر لیا جائے گا۔اب یہ سڑک روات تک کھلی کی جا رہی ہے اس میں ڈھوک
کالا خان کری روڈ اور دیگر ناجائز قبرستانوں کی وجہ سے میں نہیں سمجھتا کہ
ایکسپریس روڈ کھلا کیا جا سکے گا۔یہ مسئلہ یہاں کا ہی نہیں آگے کٹاریاں کے
پاس بھی یہی معاملہ ہے۔ناجائز جگہوں پر قبضے کی عادت نے مردوں کے لئے بھی
ناجائز جگہیں ہی ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا۔سچ پوچھیں اس ملک خدادا کی کوئی
بھی کل سیدھی نہیں ہے۔انھے واہ کے اصوال پر ۶۸ سالوں سے چل چلاؤ ہے۔
اس اہم مسئلے کا کیا حل ہے؟میں سمجھتا ہوں کہ جن کے لواحقین یہاں مدفون ہیں
وہ بتائیں کہ اب کیا کریں۔کیا اس سڑک کو بنانا بند کیا جائے۔
قبروں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔اس اہم مسئلہ پر علمائے دین رائے
دیں۔ریاست کی سب سے بڑی نالائقی یہ ہے کہ اس نے یہ ناجائز قبرستان بننے
دیے۔میں حیران ہوں یہ اسلام آباد کا ادارہ ایئرپورٹ سوسائٹی کی طرف سے آنے
والے راستے کو ایکسپریس روڈ سے نہیں ملنے دے رہا جب بھی سوسائٹی انتظامیہ
نے کوشش کی فوج ظفر موج وہاں آ جاتی ہے اور کام بند کراد یا جاتا ہے۔
خدا را اس سنجیدہ اور تشویشناک مسئلے پر توجہ دی جائے۔سعودی عرب میں
قبرستانوں کو دیکھا وہاں جنت المعلی میں قبریں کئی منزلہ ہوتی ہیں وہاں ایک
گہری سرنگ کھودی جاتی ہے اور اس کے دائیں بائیں چھ فٹ لمبا تین فٹ اونچا
ایک کھڈہ بنا کر مردے کو اس میں لٹا دیا جاتا ہے ۔ایک مدت بعد مردے کی
ہڈیاں ایک بڑے کنویں میں محفوظ کر دی جاتی ہیں۔یہ ان کے مسلک کے مطابق ہے
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے علمائے دین اس کے بارے میں کیا رہنمائی فرماتے ہیں؟
میری رائے میں کم از کم ان قبروں کے ورثاء سے مشاورت کر کے کو لائحہ عمل
بنایا جائے ورنہ مردے زندہ لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دیں گے۔دوسرا حل اس کا
یہ ہے کہ ان قبروں کو ایسے ہی رہنے دیا جائے اور ڈھوک کالا خان سے لے کر
کرال چوک تک اوور ہیڈ برج بنا کر سڑک گزار دی جائے اور اس کے نیچے آنے والی
جگہ کو بڑا قبرستان قرار دے کر اس علاقے کی بڑی مشکل دور کر دی جائے۔کیا
فرماتے ہیں آپ؟میں سمجھتا ہوں اگر ایسا کر لیا گیا تو پنڈی میں مر نا آسان
ہو جائے گا۔
|