سانحوں کے انتظار میں

ہم لوگ اور ہمارے حاکم ابهی تک سنبهلنے کی سوچ میں ہیں کہ کیسے سنبهلا جائے اور کرتے کچهه بهی نہیں بس ایک مدہوشی کی دوائ پی کے سوجاتے ہیں پهر جب اٹهتے ہیں تو ایک اور سانحہ ہوجاتا ہے. پهر کیا ہوتا ہے کہ ارباب اختیار کی طرف سے حسب روایت وہی مزمت،وہی سوگ وہی غم اور لواحقین کے لئے چند روپیوں کی امداد اس کی تصویر کشی اور سانحات کے برپا ہونے کے بعد ایک شکر گزاری کہ 'شکر ہے ہم ای بڑے سانحے سے بچ گئے ورنہ دہشت گردوں کا منصوبہ ہمیں زیادہ نقصان پہنچانے کا تها'. ارے جاہل 'تیرے بیٹے،بهائ،باپ اس طرح مرتے تو پهر تجهے پتا چلتا کہ یہ نقصان چهوٹا تها یا بڑا.تف ہے ایسے نظام پر ایسے کنٹرول پر جو نا تو عبادت گزاروں کو محفوظ کرسکتا ہے نا ہی درسگاہیں محفوظ ہیں. یہ کیا ہورہا ہے اور یہ کب سے ہورہا ہے اور یہ کب تک ہوتا رہے گا؟؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ایک عام انسان کی بے چینی کو بڑهائے چلے جارہے ہیں. یہ مذمتیں یہ الزامات،ثبوت، ہائ کمشنر کی طلبی، را سے تعلقات، غائبانہ نماز جنازے،افغانی صدر سے بات چیت،بهارت سے بات چیت،یہ افسوس، میڈیا کے سامنے تصاویر ان سے قوم کاتحفظ تو نہیں ایک طالب علم کے ذہن میں کیا کیا سوچیں کروٹ لے رہی ہیں تیرے بچے تو بیرون ملک پڑهائ کرکے حکمرانی کے خواب سجائے ہوئے ہیں لیکن ہمارے بچے تو پریشانی میں اپنی ننهی آنکهوں میں سوائے خوف وڈر کے کچهه یاد نہیں کررہے. کبهی ایک غریب ملازم ،ایک مزدور ایک مڈل کلاس سے کے بچے سے پوچهه کہ وہ پڑهائ کرکے کیا بننا چاہتا ہے پہلے تو وہ تجهے جواب دے گا ہی نہیں کیونکہ اب اس کی تعلیم اس کا مستقبل نہیں سنواررہی اور وہ تجهے بتائے گا کہ وہ سکول کالج مدرسے کیسے جارہا ہے کتنا اس کی آنکهوں میں خوف ہے. دشمن کے بچوں کو پڑهانے کے دعوے تو ہورہے ہیں اور گانے چل رہے ہیں لیکن اپنے بچوں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہورہا ہے اور سوچ بدل رہی ہے. آفیشل ویب سائٹز یا سوشل میڈیا کے پیجز تو دہشت گردی کے خلاف کامیابی کا دعوی کررہی ہیں لیکن حالات تو کچهه اور بتلا رہےہیں. آپریشن تو کامیابی کی طرف رواں دواں ہیں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئ ہے، ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہاتهوں میں ہے، اب سب ادارےایک ہی پیج پرہیں'یہ ادارے کس پیج پر ہیں' یہ سمجهه نہیں آرہا کہ میڈیا پر ہیں یا دیواروں پر'

دوسرے برادر ممالک کے لئے ثالثی کے پروگرام بنائے جارہے ہیں. فوج ظفر موج کے غریب قوم کے پیسوں سے اربوں روپے کے دورے ہورہے ہیں. اپنے اساتذہ،طلباء، نوجوان مارے جارہے ہیں کوئ فکر نہیں. خدارا کچهه تو عقل ہونی چاہیئے. اپنا گهر درندوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اس کا حل تو سوچیں اس کے لئے تو کوئ ثالث لائیں. دوسروں کی امدادیں کرکرکے اپنے بچوں کا مستقبل تاریک ہورہا ہے اس کے لئے تو سوچیں. کب تک اس قوم کو مزید سانحے برداشت کرنے پڑیں گے. اس قوم کو ثبوت نہیں چاہیئں، کون تها ،کہاں سے آیا تها، کس کی تائید تهی کیا تهی قوم کو ان سوالوں کی ضرورت نہیں ہے . قوم اپنا تحفظ چاہتی ہے وہ تحفظ فراہم کیا جائے. اگر اہلیت نہیں ہے تو چهوڑدو اس سیاست حکومت ریاست کو وہ کام کرو جس کا تم لوگوں کے پاس ہنر ہو. جهوٹ بولنے سے یا خالی باتوں کے تیر چلانے سے مسائل حل نہیں ہوتے. کب تک قوم ایسے ظلم برداشت کرتی رہے گی،کب تک مائیں بیٹوں کے لاشے اٹهاتے رہیں گی،کب تک کربلا برپا رہے گی، کب تک لوگ اپنے ملک میں ہجرت کرتے رہیں گے، کب تک بے سکونی ،بے چینی کے بادل سروں پر منڈلاتے رہیں گے؟ آخر کب تک ہم ان سانحوں کے انتظار میں رہیں گے؟
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 44753 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.