مرد قلندر عظیم صوفی حضرت حکیم میاں محمد عنایت خان قادری نوشاہیؒ کے در پہ حاضری
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
سر زمین سرگودہا میں مرکز روحانیت دربار
شریف جناب حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ میں منعقدہ عرس
مبارک کی تقریبات زیر سرپرستی جگر گوشہ حضرت حکیم میاں محمدعنایت خان قادری
نوشاہیؒ جناب صاحبزادہ حکیم میاں محمد یوسف خان قادری نوشاہی منعقد
ہوئیں۔زاوایہ نوشاہی کمیٹی کے زیر اہتمام اِس عرس پاک کی تقریبات کا اہتمام
کیاگے۔میاں جی ؒ کا ڈیرہ شہر کے پاس ہی ایک بستی نیو مسلم ٹاون سرگودہا میں
ہے۔ میاں جیؒ عہد اسلاف کی وہ نشانی تھے جن کی زندگی عشق رسولﷺ، پاکستان سے
محبت اور انسانوں سے پیار سے عبارت ہے۔ میاں جی ؒ کا اصلی نام شائد کسی کو
بھی معلوم نہ ہو چھوٹا بڑاسب لوگ اُنھیں میاں جی کہتے۔ میاں جی بہت اعلیٰ
پائے کے نبض شناس تھے۔میاں جیؒ کی حکمت کے ساتھ اور جو خصوصیت تھی وہ اُن
کا روحانی فیض تھا۔اِسی گھر میں کئی دہائیوں سے مقیم تھے۔ دن بھر لوگ آتے
کوئی دوا لیتا اور کوئی دُعا کا طلب گار ہوتا۔میاں جی روایتی پیری مریدی کے
قائل نہ تھے لیکن اُن کے حلقے میں شامل افراد انتہائی پڑھے لکھے
تھے۔علماء۔نوجوان، پروفیسرز ڈاکٹرز، پی ایچ ڈی کے حامل ریسرچ سکالرز،پائلٹ،
فوج کے اعلیٰ افسران تھے۔گویا دکانداری والی پیری مریدی سے کوسوں دور میاں
جی نے ایک ایسا نگر آباد کر رکھا تھا جہاں ہر دکھی کو جسمانی اور روحانی ہر
بیماری سے شفا ملتی۔ میاں جی نہایت نفیس انسان۔ پاکستان اپنی آنکھوں سے
بنتے دیکھا۔ اور اپنا سارا خاندان قربان کرکے ہجرت کی۔مال و متاع سے بالکل
رغبت نہ تھی۔ جو بھی اسباب ہوتے وہ ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے۔ عام
دیکھنے والا یہ ہی تصور کرتا کہ شائد وہ کافی مال دار ہیں کہ ہر وقت لنگر
کا اہتمام۔جو بھی اُن کے ہاں آتا اُسے فوری طور پر کھانا پیش کیا جاتا۔میاں
جیؒ سادہ لباس پہنتے۔ سفید قمیض اور سفید رنگ کا ہی تہمد اور نوشہ گنج بخشؒ
سے نسبت کا حامل پیلے سے رنگ کا کپڑا، جسے وہ صافا کہتے اُن کے کندھے پر
ہوتا اور سفید رنگ کی کپڑئے کی بنی ہوئی ٹوپی اُن کے سر پہ ہوتی۔میاں جی ؒ
کی نفاست ہر کام میں اتنی کہ دیکھنے والوں کو رشک آتا۔ نہایت صاف سادہ
کپڑئے پہنتے او ر بناوٹ دیکھاوئے سے ہمیشہ دور رہتے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جو
بھی اُن سے ایک دفعہ ملنے آجاتا تو پھر ہمیشہ کے لیے اُن کی محفل کا شریک
بنا رہتا۔ تاریخ عالم پر گہری نظر، اسلام کی حقانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر
بھرا ہوا تھا میاں جی کے دل و روح کے اندر۔کتابوں کا ایک لازوال ذخیرہ کہ
جہاں سے بڑئے بڑئے سکالر آکر استفادہ کرتے۔اﷲ پاک کے دوست میاں جیؒ ہر
ملاقاتی سے ایسے ملتے جیسے کہ وہ اُن سے سب زیادہ قریب ہو۔میاں جیؒ کا ڈیرہ
ایسی درگاہ ہے کہ جہاں سے عشق رسولﷺ کی دولت سے ہر کوئی مال ومال ہوتا۔میاں
جیؒ ہر آنے والے کو خصوصی محبت سے نوازتے اورکھانے پینے سے خوب خاطر مدارت
ہوتی۔ نوجوانوں کی تعداد آپکی محفل میں ہمیشہ زیادہ ہوتی۔ حضرت اقبالؒ کے
بقول ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ ساقی بھی اگر میاں جی ؒ جیسا
ہو تو پھرعشق رسولﷺ کا جام۔دنیا کہ ہر شے سے ماورا کر دیتا ہے۔آپؒ کے لب
ہلتے اور گویا ہوتے نبی پاکﷺ کا نام جب بھی لیتے تو فرماتے سرکار دوجہاںﷺ۔آپؒ
گویا ہوتے تو پھر الفاظ ہاتھ باندھ لیتے اور آپ بولتے الفاظ خاموش رہتے۔آپ
کے الفاظ میں دھن گرج ایسی کہ جیسے کوئی سولہ سترہ سال کا نوجوان نبی پاکﷺ
کی محبت میں مخاطب ہے۔آپؒ کے الفاظ یہ پیغام دئے رہے ہوتے کہ جس کا دل مظرب
ہو وہ خود کو ہی نہ ڈھونڈ پا رہا ہو۔ جسے دنیا کی بے وفائی اور بے ثباتی
کادُکھ ہو۔پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے پناہ پھر ایسی جگہ ملے جہاں سے
کائنات کی ہر ذی روح فیض لے رہی ہو۔ جس کی خاطر خالق نے پوری کائنات پیدا
کی ہو۔ پھر مبدا خلق عالم کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے جس کے دربار سے رحمت
کا حصول ہو۔جب تمام دنیاوی رشتے دم توڑ جائیں تو پھر ایک ہی ہستی کا سہارا
رہ جاتا ہے جو کہ ماں باپ اولاد مال سب سے بڑھ کر محبت کا منبع ہے۔وہ ہستی
صرف رسول پاکﷺ کی ہے۔آپ کی گفتگو سن کر نوجوان سحر میں کھو جاتے۔ میاں جیؒ
کا ایک بہت بڑا وصف یہ بھی تھا کہ وہ ظاہری نمود و نمائش سے ماورا تھے اور
نوجوانوں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں جیسا ہوتا۔ ہر کسی کے دکھ درد کی خبر
رکھتے۔ رہنمائی فرماتے۔ حوصلہ دیتے اور خاص طور فرماتے کہ شیر بن۔جس جس کو
اسباب درکار ہوتے اُس کی مدد فرماتے۔ کوئی بنک اکاونٹ اور نہ کوئی تجوری۔سب
کچھ ہی تو خالق کی مخلوق کے لیے وقت کیا ہوا تھا۔ جیسے جیسے خالق نوازتا
چلا جاتا ویسے ویسے میاں جی ؒ تقسیم فرماتے چلے جاتے ۔میاں صاحب کا وصال
پچھلے سال 13 ربیع الاول1436 ہجری کو ہوا۔ اور جہاں آپکا ڈیرہ تھا وہیں
آسودہ خاک ہوئے۔ عرس پاک کی پہلی نشست میں دربار شریف پہ قران خوانی کی گئی۔
قاری القراء جناب منیر احمد کی سرکردگی میں قران پاک پڑھا گیا۔ دوسری نشست
میں ختم کبیر شریف پڑھا گیا۔ اِس ختم پاک کو صاحبزادہ پروفیسر ڈاکٹر احمد
ندیم رانجھا نے پڑھایا اور دُعا فرمائی۔جمعہ مبارک کی نماز کی ادائیگی کے
بعد دربار شریف سے ملحقہ جامعہ مسجد نوری غوثیہ نیو مسلم ٹاون سرگودہا میں
نعت شریف کی خصوصی محفل ہوئی۔ اِس محفل کی نظامت کے فرائض صاحبزادہ میاں
محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے انجام دئیے ۔ زین حیدر نوشاہی، اُسامہ
نوشاہی،ناصر رشید چشتی نے نبی پاکﷺ کے حضور گلہائے عقیدت پیش کیے۔عرس پاک
کی چوتھی نشست میں دربار شریف پر چار پوشی کا اہتمام کیاگیا۔ صاحبزادہ حکیم
میاں محمد یوسف خان قادری نوشاہی کی سرپرستی میں میاں محمد اشرف عاصمی
ایدووکیٹ، میاں محمد آصف، جاوید مصطفائی،یونس کمبوہ، حافظ شاہد، عنصر اعوان،
شوکت علی،محمد اکرم، ڈاکٹر خالد نصیر، محمد اخلاق، اُسامہ نوشاہی، زین
نوشاہی، عاطف مصطفے، عابد مصطفے،خالد مصطفے،اویس مصطفے، علی رضا، حمزہ عاطف
،صوفی عبدالحمید، سید ریاض حسین شاہ و دیگر نے دربار شریف پہ چادر پوشی
کی۔اِس موقع پر سجادہ نشین حضرت نوشہ گنج بخشؒ جناب ڈاکٹر سید خضر حیات
نوشاہی، صاحبزادہ ڈاکٹر احمد ندیم رانجھا، پیر مشتاق شاہ الازہری موجود
تھے۔اِس موقع پر قصیدہ بردہ شریف پڑھا گیا۔نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد
خصوصی نشست میں جمیل چشتی اور غلام نوشاہ نے انتہائی پُر اثر انداز میں آقا
کریمﷺ کی خدمت میں نعت کے گلدستے پیش کیے۔ اِس خصوصی اور آخری نشست کی
نظامت کے فرائض صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے انجام دئیے۔جبکہ
صاحبزادہ پروفیسر ڈاکٹر احمد ندیم رانجھا نے قبلہ حکیم صاحبؒ کی ظاہری حیات
کے مختلف پہلووں پر گفتگو فرمائی۔ اِس نشست میں پیر مشتاق شاہ الازہری نے
نبی پاکﷺ کی میلاد شریف کے حوالے سے خطاب کرکے حاضرین محفل کے دلوں کو
گرمایا۔ اِسی نشست میں جناب مفتی فیض الرسول صاحب نے قران وحدیث کی روشنی
میں اﷲ پاک کے نیک بندوں کے تصرفات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی اور آخروی
زندگی میں کامیابی کے لیے خوف خدا اور عشق رسولﷺ کو کسوٹی قرار دیا۔عرس پاک
کی آخری نشست کے آخری مقرر مہمانِ ذی وقار سجادہ نشین حضرت نوشہ گنج بخشؒ
جناب ڈاکڑ سید خضر حیات نوشاہی نے خانقاہی نظام کی ذمہ داریوں کے حوالے سے
گفتگو فرمائی۔محفل کے آخر میں ختم شریف پڑھا گیا اور عرس پاک کی بابرکت
تقریب کے اختتام میں پروفیسر ڈاکڑ سید خضر حیات نوشاہی نے خصوصی دعا
فرمائی۔عرس مبارک کی تقریب میں صاحبزادہ اظفر خان صاحب، سید واصف شاہ، غلام
علی، حافظ مصطفےٰ نسیم،محمد اویس،قمرزمان خان،بابر بلوچ ایڈووکیٹ، ایس ایچ
و خطیب الرحمن،تحصیلدار ملک محمد اشرف،مقبول کھوکھر،منظور کھوکھر،مقصود
کھوکھر، شھزاد انجم، رضوان گل ،ڈاکٹر محمد اکمل خان پروفیسرمحمود خان خصوصی
طور پر شریک ہوئے۔ |
|