زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام
وہ پھر نہیں آتے، وہ پھر نہیں آتے۔۔!
یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے، بہت بڑا مسافر خانہ۔۔جس میں مسافر بھی ہیں،
درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں ،سرائے، سامان ِضروریات ، سفر کی سواری اور سامانِ
دلبستگی بھی،
اسی بڑے مسافر خانے کے اندردنیا کے کونے کونے میں چھوٹے چھوٹے اور بھی
مسافر خانے ہیںجو ہر ملک،ہر شہر کے ریلوے اسٹیشن ، ہوائی اڈے،بس لاری اڈے
اور طویل مسافت پہ سرائے کی صورت موجود ہیں۔ انتظار کی آماجگاہیں ۔۔!جہاں
کبھی سفر شروع ہوتا ہے ، کبھی ختم ہوتا ہے۔ کبھی انہیں ویٹنگ رو م کا نام
دیا جاتا ہے تو کبھی انتظارگاہ کا۔ مسافر آتے ہیں، مسافرجاتے ہیں۔ چار
گھڑی بیٹھ کر انتظار کی گھڑیاںگنتے ہیں، اجنبی بن کر اجنبیوں سے ملتے
ہیں۔بے فکر ہو کر سامنے والے سے اپناحالِ زارکہہ لیتے ہیں۔ کہانی سنتے ہیں،
سناتےہیں۔ بے کھٹکےدل کی پریشانیاں کھول کر رکھ لیتے ہیں ۔ وقت بچ جائے تو
اگلے بندے کا حال بھی پوچھ لیتے ہیں۔ اس امید پر کہ(راز کی باتیں ان تک ہی
رہیں گی ) دوبارہ بھولے بھٹکےسے ملاقات نہیں ہو گی یوں خدا حافظ کہہ کر
اگلے پڑاؤ کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
مسافر خانہ میں چلے آنے والے لوگ اپنے اپنے مقام پر کتنے ہی اعلی مرتبہ
کیوں نہ ہوں۔ اپنی پہچان چھوڑ کر فوری مسافر کا چولا پہن کرسفر کے لیے تیار
ہو جاتے ہیںاور جہاز، بس، ٹرین یا کسی بھی سواری کے مسافر بن جاتے ہیں۔۔،
آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے
آتے جاتے رستے میں یادیں چھوڑ جاتا ہے
پھرجہاںجہاں سے گزرتے ہیں اپنی پرچھائیں چھوڑ تے جاتے ہیں۔کائنات کے نظاروں
کو نظروں میں بھرتے ہیں۔ خوبصورتی کو سراہتے ہیں۔دنیا اور ان کی مصروفیات
پہ نگاہ کرتے ہیں۔قصر کی نماز پڑھتے ہیں۔۔اورآگے بڑھتے رہتے ہیں۔حیرت کی
بات ہے سفر میں ان کے ہم قدم ذرائع کا نام نہیں بدلتا۔حالانکہ وہ بھی اتنا
ہی سفر کرتے ہیں۔ جبکہ ان کے باہر تو باقاعدہ لکھا جانا چاہیے مسافر بس،
مسافر گاڑی، مسافر اونٹ ، مسافر گھوڑا، مسافر گدھا اور مسافر سڑک وغیرہ
وغیرہ۔۔ جیسے ہی سفر ختم ہوتا ہے۔تھکے ہارے اپنی اصل پہچان کو بھولے مارے
اللہ کے بندے سواری سے اترتے ہیں۔ پپڑی زدہ خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرتے
ہیں،مٹی بھرے بالوں میں انگلیوں کی کنگھی بنا کر چلاتے ہیں،مسافر چولا اتار
کر ایک طرف پھینکتے ہیں اور دوبارہ اپنی جُون میں آ کر دنیا والوں میں
شامل ہو کر اپنے اپنے رتبےپہ براجمان ہو جاتے ہیں۔
کبھی کبھی اس سفر میں مسافروں کی صورت اچھےہم سفر بھی ملتے ہیں، جن کی
بدولت سفر خوشگوار ہو جاتاہے۔آسانی سے کٹتا ہے۔زندہ دل،باتونی، خوش مزاج
،غمگسار لوگ ملتے ہیں اور کبھی کبھی چارہ ساز بھی۔۔!
والد صاحب اکثر ٹرین کا سفر کیا کرتے تھے۔ اوّل کمپارٹمنٹ میں کتنے ہی
مسافر ہم سفروں کی صورت انھیں ملتے۔ایک بار ایسے ہی ایک سفر میں ان کا
واسطہ ایک ایسے شخص سے پڑا۔ جس کے پاس اللہ کی دی ہوئی ایک خاص عطا موجود
تھی۔ وہ زمین سونگھ کر بتا دیا کرتا تھا کہ یہاں زمین کے نیچے میٹھا پانی
موجود ہے یا کھاری پانی۔۔ ؟ بہاولپور کی طرف ریگستانی علاقوں میں زمین کی
کاشت اتنی آسان نہیں۔وہاں پانی کی کمی ششماہی پانی کی صورت موجود تھی۔
پیاسے کھیت، پیاسی زمین۔۔کسانوں نے ٹیوب ویل لگانے شروع کر دئیے۔ پانی اگر
میٹھا، استعمال کے قابل نکلتا تو لہلہاتی فصلوں، خوشحالی کی صورت ظاہر
ہوتا۔ اگر کہیں خراب کھاری پانی نکل آتا تو اچھی بھلی زمین خراب ہو جاتی
بلکہ اس کا اتنا برا اثر پڑتا کہ کئی بار وہ کاشتکاری کے قابل ہی نہ رہتی۔
مرے پہ سودُرے،ٹیوب ویل لگانے کا خرچہ، خسارہ علیحدہ برداشت کرنا پڑتا۔
داستان علیحدہ سب کی زبانِ زد ہوتی۔ لوگ علیحدہ پُرسہ دینے آتے۔سو ٹرین کے
سفر میں والد صاحب سےاس چار ساز کا وقتِ مقررہ پہ ملنا اور دی گئی دعوت پہ
ہماری زمینوںپر چلے آنا، زمین سونگھ کر فیصلہ کرنا اور اس کے نتیجے میں
ٹیوب ویل کا لگنا یقینا سب کچھ اوپر والے کے ہاتھ میںاس کی پکڑی ڈوریوں
کےہلانے سے ہوا تھا۔ ہوا بس اتنا تھا کہ کٹھ پتلیاں مختلف مسافر خانوں سے
اٹھ کر ٹرین میں یکجا ہوئی تھیں۔
مسافر، عربی زبان کا اسم ہے اور خانہ فارسی زبان کا۔۔ یوںدد اسم مل کر یہ
مرکب ترتیب پایا۔ویسے اس عارضی ٹھکانے کے مزید نام بھی ہیں۔۔،قیام گاہِ
مسافراں،مسافرگاہ،سفرگاہ، سرائے،انتظار گاہ ،مسافروں کے ٹھہرنے کا مکان،
کارواں سرائے وغیرہ وغیرہ ۔
ویسے ہمیں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے گھر کا نام بہت بھایا۔۔ داستان
سرائے۔۔!
بھارت کے صؤبے اترپردیش میں ایک رہائشی قصبے کو بھی مسافر خانہ کا نام دیا
گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد پہلی عید الفطر کی نماز وفاقی
دارلحکومت میں بندر روڈ پر کسی ۔۔مولوی مسافر خانے ۔۔کے قریب مسجد قصاباں
میں ادا کی گئی تھی جس میں قائد اعظم بھی نماز میں شامل ہوئے۔تو زور کس پہ
ہوا۔۔ مولوی مسافر خانے۔۔پہ،
مہمان خانہ۔۔
مردان خانہ۔۔
زنان خانہ۔۔
باورچی خانہ۔۔
غسل خانہ ۔۔
اب تو آپکو پتہ چل گیا ہو گا نا کہ مسافر خانہ کس قبیل سے ہے۔۔توسمجھ
جائیے نا،خانہ قبیل سے۔۔!
سفر،مسافر ، مسافر خانہ کی اہمیت پچھلے دورسے وابستہ نظر آتی ہے جب
سہولتوں کا فقدان تھا۔ منزل تک پہنچنے کے لیے کوس، فرلانگ، میل مسافر کے
مختلف پڑاؤ تھے۔ انھی پڑاؤ پر اسے گزارے لائق مسافر خانے دستیاب ہوتے
تھے۔ رات گزارنے کے لیے چھت کا مل جانا غنیمت لگتا ، ورنہ تپتی دوپہروں میں
من مار کر چلنا اور چھاؤں کے لیے درختوں کے سائے کا ڈھونڈنا ، سفر واقعی
سہل نہ تھا۔جبکہ آج سفر کو پُرلطف طریقوں سے گزارنے کا اہتمام کیا جاتا
ہے۔ ہل اسٹیشنوں پر ہوٹلوں کی صورت بڑے بڑے مسافر خانے خود بڑھ بڑھ کر
لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ زندگی کو بور اور بیزار کہنے والو!گھر سے نکلو ،
سفر کا منہ تاکتے ہوئے آؤ اورہماری پُرتعیش دنیا میں سما جاؤ۔اب توسیاح
خود اپنے ذوق کی تسکین کے لئے اہم جگہوں،مقامات کا سفر کرتے ہیں اور مختلف
مسافر خانوں میں ٹھہرنا ان کے لیے کسی ایڈونچر سے کم نہیں۔
ہوائی اڈے کا مسافر خانہ بہت بڑا ہے ۔ لِش لِش کرتا، چمچماتا ہوا۔۔ جہاں
ہزاروں مسافرمہنگے داموں اس کی آرام دہ سیٹوں پہ بیٹھ کر چم چم کرتے فرش
پر نظریں گاڑے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں،
موبائل کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں۔ سُریلی آواز میں پروازوں کے آنے جانے
کی اطلاع سنتے ہیں ۔ اپنی باری آنے پر بریف کیس ، بیگ اٹھاتے ہیں اور سفر
کا پہلا قدم اٹھا کر جہاز میں داخل ہو جاتے ہیں۔
ریلوے اسٹیشن کی عارضی۔۔قیام گاہ۔۔ بہت مشہور رہی ہے۔جسے ۔۔ انتظارگاہ۔۔
اور کبھی ۔۔مسافر خانہ۔۔ کا نام دیا گیا ۔ جہاں بیتاب دل ہر گھڑی گاڑی کی
آمد کے منتظر رہتے ہیں۔ ٹرین کا سفر کرنے کے باعث ہمیں اس مسافر خانے
کوبہت قریب سے دیکھنے کا موقع متعدد بارملا۔ وقتی طور پر وہ ایک چھوٹا سا
گھر لگنے لگتا۔ بلکہ جادؤئی کمرہ، جو بیک وقت ڈرائنگ روم بھی ہے۔جہاں کئی
اچھی اچھی دیدہ زیب کرسیاں، فرنیچر پڑا ہے۔ ایک آدھ پینٹنگ بھی لگی دیکھنے
کو مل جاتی، طبیعت رنگین ہو جاتی ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہی کمراڈائننگ روم میں
بدل جاتا۔ جب لوگوں کے ٹفن باہر نکل آتے اور کمرے میں پڑی بڑی سی میز
ڈائننگ ٹیبل میں تبدیل ہوجاتی۔ پراٹھے، انڈے، سینڈوچ، کباب، حلوے مانڈے
جوٹرین کے ڈبے میں کھلنے ہوتے کئی بار وہ اس اولین پڑاؤ پہ کھل جاتے ۔
مسافر اسے ناشتے کھانے کی طعام گاہ بنا لیتے۔ یوں کھانے کی پہلی قسط چلتی۔
ایک بار رات کا سفر تھا کسی وجہ سے ٹرین کئی گھنٹےلیٹ ہوگئی توگھر والوں نے
اسی بڑی میز کو مسہری بناتے ہوئےہمیں اس پرسُلا بھی دیا تھا۔ اس کمرے کی جو
سب سے اچھی با ت لگتی وہ ایک بڑی سی آرام دہ کرسی ہوتی۔ جس کی نشست نیم
دراز ہو کر لیٹنے کے حساب سے بنی ہوتی۔اب چاہے بندہ اس پہ آرام دہ حالت
میں بیٹھ جائے یا بیٹھے بیٹھے اچانک لم لیٹ ہو جائے۔ اس کے لمبے لمبے بازو
ہوتے۔جسے ہم نے ۔۔نائٹ کرسی۔۔ کا نام دے دیا۔ وہ انتظارگاہ کی خاص الخاص
آئیٹم لگتی۔ ویٹنگ روم میں داخل ہوتے ہی سب کی نظر اس پہ ہوتی۔ اگر وہ
خالی ہوتی تو ہر کوئی اسی کی طرف بڑھتا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ وہ صرف ایک
ہی پائی جاتی۔ یعنی جس کے حصے میں آئے وہ تو مزے کرے اور باقی جائیں بھاڑ
میں۔۔!
ایک بار امی اور ابو سفر کر رہے تھے ۔ امی اسی کرسی پہ براجمان تھیں۔آرام
دہ حالت میں ہوئیں تو انھیں نیند آ گئی۔ ابو ذرا باہر گئے۔ اتنے میں ویٹنگ
روم کا دروازہ کھلا اور کوئی آدمی اندر آ گیا۔دروازہ کھلنے کے کھٹکے پہ
امی کی آنکھ کھلی تو کمرے کے ملگجے سے اندھیرے میں نیم باز آنکھوں سے
دیکھا کہ کوئی لمبا سا آدمی ان کے سامنے کھڑا ہے۔ ۔تو انھوں نے اس شخص کو
باور کرانے کی کوشش کی کہ ویٹنگ روم میں اس وقت صرف لیڈیز ہیںلہذا وہ باہر
چلا جائے۔ تب اس آدمی نے حیرانی سےاپنا نام لے کر بتایا کہ وہ کون ہے۔۔؟وہ
خالو جان تھے۔جو امی ابو کو الوداع کہنے آئے تھے۔ سو اس کرسی کی بڑی
کرامات ہیں۔ ہاں اسی انتظارگاہ کے اندر ساتھ ہی باتھ روم منسلک ہوتا اور وہ
بھی کافی بڑا اور کھلا کھلا۔۔ ٹرین میں جتنی چھوٹی لیٹرین ہوتی یہ اتنا ہی
کشادہ ہوتا جو اچھا خاصا کمرہ لگتا ۔ڈھونڈنے پر اس کے کسی کونے میں فلش
سسٹم نظر آتا اور دیوار سے چپکا بیسن۔ اب باقی کمرے میں بندہ بےشک لڈیاں
ڈال لے۔۔کیونکہ عمومی گھروں کے چھوٹے چھوٹے غسل خانوںکے آگے یہ کمرہ شاہی
لگتا۔
اتنا اچھا انتظام ہونے کے باوجود ہم دیکھتے کہ اس سرائے کو بہت کم لوگ
اعزاز بخشتے۔ لمبے سفر والے لوگ وقت سے کافی پہلے آ جاتے تو اندرپڑے
اینڈھتے رہتے یا جن مسافروں کی ٹرین کئی کئی گھنٹے لیٹ ہو جاتی۔ وہ
اسےاعزاز بخشتے۔ پَر ایک فیملی ممبر کو جاسوس کی طرح باہر پلیٹ فارم پر ہی
رکھتے۔ جو انھیں بیرونی حالاتِ حاضرہ اور گاڑی آنے کی آمد سے باخبر
رکھتا۔ کئی مسافراس وہم کے مارے کہ مطلوبہ گاڑی آ کر باہر ہی باہر سے چمپت
نہ ہو جائے وہ اس خدشے کے مارے مسافر خانہ کو رونق نہ بخشتے۔۔ویسے بھی
ویٹنگ روم پر اوّل کمپارٹمنٹ کی طرح اَپر کلاس اور ریلوے سے منسلک لوگوںکی
اجارہ داری رہتی۔ ورنہ سیکنڈ، تھرڈ کلاس کےمسافر تو باہر پلیٹ فارم پر
بینچوں کی زینت بنتے۔ اور جس طرف سے گاڑی کی آمد متوقع ہوتی ادھر نظریں
گاڑ کر بیٹھ جاتے۔ ان کی بےچینی ظاہر کرتی کہ جب تک وہ خود گاڑی آتی
نہیںدیکھ لیں گےان کی نظروں کو چین آئے گا نہ دل کو قرار۔۔!
ایک بارحالتِ سفر میں ہمیں اسی انتظارگاہ کے اندر دو نوجوان لڑکیاںملیں۔
کافی باتونی قسم کی، پہلے تو خود آپس میں باتیں کرکے چہکتی رہیں کھلکھلا
تی رہیں۔ باتیں ختم ہونے پر اِدھر اُدھر دیکھاتو پاس ہی ہم پڑے ڈائجسٹ میں
غرق نظر آئے۔تب انھوں نےاِدھر توجہ کی اور وقت گزاری کے لیے باتوں کی پہل
کی۔ باتیں کرتے اچانک ان میں سے ایک لڑکی نے ہم پہ سوال داغ دیا،
ؔ " کیا تمہاری شادی ہو گئی۔۔؟"
سوال اور وہ بھی اتنا نازک ، ہم اس کمند کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہ تھے۔۔
(ایسا ذاتی سوال، پہلے کاہے کو کبھی کوئی کیا تھا جس کا جواب بھی ہمارے
نہیں اوپر والے کے پاس تھا)
چنانچہ بے سوچے سمجھے، ہڑبڑا کر ہمارے منہ سے نکل گیا۔
" ابھی تو نہیں۔۔"
تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
مت پوچھیے، ہمارے ۔۔ابھی تو نہیں ۔۔ پہ ان دونوں نے کتنے قہقہے لگائے۔ہم
شرمسار سے بیٹھے تھے ۔ انھیں اپنے قہقہوں سے فرصت ہوئی تو ہمارا خیال آیا۔
تب ایک نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر معذرت کی کہ ہم ہرگز ہنسنا نہیں چاہتے تھے۔ہم
نے تو یونہی وقت گزاری کے لیے پوچھ لیا تھا لیکن تمارے جواب نے ہمیں بڑا
مزہ دیا۔یوں اس قصے پہ مسافر خانے کا ٹیگ لگ گیا۔
مسافر خانے ریلوے اسٹیشن اور بس اڈوں کے علاوہ بھی ہر اس جگہ پائے جاتے
ہیں۔ جہاں مسافر سفر کی صعوبتیں طے کر کے پہنچتے ہیں۔
تھکے ہارے نڈھال بے سروسامانی کےعالم میںنڈھال مسافر کے لیے یہ ٹھکانہ کسی
انعام سے کم نہیں۔۔اندھیری طوفانی رات ہو، برستی بارش، شور مچاتی ہوائیں
ہوں تو بیچارگی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔۔ اور ان کی اہمیت اور زیادہ۔
اب سر پہ آسماں ہے نہ پیروں تلے زمیں
لے آئی کس مقام پہ اے زندگی ہمیں
ایسے میں کسی عافیت خانے کا مل جانا دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔ ۔۔پھر اس
کارواں سرائے میں کھانے کی نعمتیں مل جائیں تو رات کے مسافر کو اور کیا
چاہیئے۔۔ ان چیزوں کی قد ر تومستنصر حسین تارڑ صاحب سے پوچھیے۔انکے سفر
ناموں میں دیس پردیس جانے پہچانے اور گمنام رستوں پہ ان مسافر خانوں کا
حصول ہو جانے سے ان کی اہمیت کتنی اُجاگر ہوئی ہے۔
نسیم حجازی کی کتابوں سے مسافر اور مسافر خانے کا مقام بہت واضح ہوا۔
نگری نگری پھرا مسافر ۔۔۔ ابنِ انشاء بھی نگری نگری کے مسافر خانے دیکھ چکے
ہیں۔
قمر علی عباسی نے بھی مسافر بن کرپہلے تیس ملکوں کے مسافر خانے جھانکے پھر
لازوال سفرنامے تخلیق کیے۔
اور مستنصر حسین تارڑ نے تو ان مسافر خانوں کو ایسی ایسی جگہوں پہ ڈھونڈ
نکالاجہاں تصور کی اڑان بھی مشکل سے پہنچتی ہے،
بیافو گلیشیئر سے کئی ہزار میٹر بلندی پر ایک چٹان میں شکاری جھونپڑا۔۔
فیئری میڈو کے راستے میں فنتوری کی فینٹسی میں لکڑی کا ایک تنہا کیبن۔۔
دریائے چترال کے پار ایک گھر۔۔
کوہ آرا رات کے برفانی دامن میں ایک جھونپڑا۔۔
قلعہ ڈیرا ور کی کچی سطح کے بہت نیچے ایک نیم تاریک ٹھندک والا کمرہ۔۔
سفر نامہ لکھنے والے تمام مصنفین پہلے مسافربنتے ہیں، مسافرخانوں میں جگہ
پاتے ہیں۔پھر سفرنامہ لکھ کر سفرنامہ نگار بعد میںبنتے ہیں۔مستنصر حسین
تارڑ مسافر تو دو تین ہفتوں کے لیے بنتے ہیں لیکن اس مسافت کو مہینوں خود
پہ طاری رکھ کر ان مسافر خانوں میں بار بار جھانکتے رہتے ہیں۔جہاں اَشد
ضرورت میں ایک پیالی چائے اور ایک وقت کے کھانے کا مل جانا کسی نعمتِ مرقبہ
سے کم نہیں رہا۔ سفرنامہ پڑھنے والے قارئین وہ ہیں جو مسافر بن کر قریہ
قریہ جھانکنے کی چاہ رکھتے ہیں اور اس مسافر خانے میں جانا چاہتے ہیں جو
انھیں طویل مسافت
میںصعوبتوں کے بعد حاصل ہو۔۔سو،
سفر، مسافر، مسافر خانہ تینوں ایک دوسرے کے اٹوٹ انگ ہیں اور یونہی لازم و
ملزوم رہیں گے۔
۔۔۔۔۔
کائنات بشیر، جرمنی
|