"اجتماعی ترقی"
انسان اپنی صحبت اور اپنے ماحول سے اثر لئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے میں
سیکھنے کا عمل بہت آسان ہو سکتا ہے اگر ہمارے اردگرد علم دوست لوگ زیادہ
ہوں۔ چنانچہ اِس بات پر محنت کی جا سکتی ہے کہ اپنے حلقوں میں علم دوستی کو
فروغ دیا جائے اور سیکھنے سکھانے کے عمل کے ذریعے مل کر آگے بڑھا جائے۔ اِس
عمل میں کامیابی ایک ایسے ماحول کو جنم دے گی جہاں جاہل رہنا زیادہ مشکل ہو
گا۔ پھر یہ بھی ہے کہ انسان جب شیئر کرنے کی نیت سے پڑھتا یا تیاری کرتا ہے
تو وہ بہت بہتر طریقے سے مواد کو سمجھتا ہے۔ اِس ماحول کے قیام کے لئے بہت
سے راستے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ دو بنیادی یہ ہیں
- پڑھانا اور سکھانا
اپنے حلقوں میں کسی کو کچھ سکھا/پڑھا سکتے ہیں تو اُس کے لئے کچھ وقت
نکالنے کی کوشش کریں۔ ساتھ اِس بات کا خیال رہے کہ علم جھاڑنا نہیں، منتقل
کرنا ہے (ورنہ نیت پہچان کر لوگ آپ سے دُور ہو جائیں گے اور سیکھنے کا عمل
رُک جائے گا)۔
- علم کی "ڈاکیومنٹیشن"
اِس سے مراد یہ ہے کہ علم/تجربے کو ایسی تحریری شکل میں منتقل اور محفوظ
کیا جائے کہ یہ اُن کے بھی کام آ سکے جن کا آپ سے براہِ راست رابطہ نہیں ہے۔
کسی قوم کی کسی اچھی خصلت سے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور ہم نے دیکھا
ہے کہ یہاں مغرب میں یہ لوگ علم کی ڈاکیومنٹیشن پر بہت محنت کرتے ہیں۔
مقالے، مضامین، کُتب یہ سب مختلف راستے ہیں ڈاکیومینٹیشن کے۔ پھر یہ مواد
پرنٹ میں بھی پیش کئے جا سکتے ہیں اور آنلاین بھی (مثلاََ فورم، ویب سائٹ،
بلاگ، یا ای-میگزین کے ذریعے)۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
(اقبال)
ہوم ورک:
ایک معلوماتی مضمون لکھ کر کسی پبلک فورم/سائیٹ پر پوسٹ کریں۔
نوٹ: شعر میں اقبال کا اشارہ یہ نہیں کہ مغرب پر غصہ کیا جائے، بلکہ خود
علم کی قدر کرنے کی دعوت ہے- |